نجی تعلیمی ادارے اور تعمیر ملت

تعلیم دینا دینی فریضہ سمجھاجاتا تھا، دولت کے حصول کا ذریعہ نہیں۔


نجمہ عالم December 21, 2018
[email protected]

گزشتہ برسوں سے نجی اسکولوں کی جانب سے مسلسل ہر تعلیمی سال کے آغاز پر فیسوں میں اضافے سے والدین بالخصوص ایسے والدین جن کے کئی بچے مختلف '' بڑے '' (پانچ ستارہ، چار ستارہ) اسکول میں زیر تعلیم ہیں پریشان تھے۔

پہلے انھوں نے انفرادی طور پر اسکول ہیڈ یا انتظامیہ سے بات کی مگر ان نامی گرامی نجی اسکولوں کی انتظامیہ کے کان پر جوں تک نہ رینگی تو والدین نے متحد ہوکر ایسے تعلیمی اداروں کے ہیڈ آفسز اور شاہراہوں پر احتجاجی مظاہرے کیے، مگرگزشتہ حکومت اورکسی حد تک موجودہ حکومت نے بھی والدین کے موقف پرکان نہ دھرے بالآخر والدین نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ چنانچہ سپریم کورٹ نے دیگر معاملات کی طرح اس سلسلے میں بھی اقدام کیے جن کی رو سے نجی اسکولوں کو فیس میں من مانے بے لگام اضافے کے بجائے فیسوں میں بیس فی صد کمی کرنے کے علاوہ سالانہ تعطیلات کی آدھی فیس یا تو واپس کرے یا آیندہ مہینوں کی فیسوں کے طور پر لگانے کے احکامات کے علاوہ سالانہ تقریباً پانچ فی صد یا زیادہ سے زیادہ آٹھ فی صد (بعض حالات میں) اضافے کی اجازت دی ہے۔

اس کے علاوہ بیسیوں نامی گرامی اسکولوں کے مالی معاملات کی چھان بین کے احکامات بھی جاری کیے ہیں۔ اسکول مالکان اور ڈائریکٹرزکے انکم ٹیکس اور اسکول اکاؤنٹس کی چھان بین کا حکم بھی دیا گیا ہے۔

کسی بھی ملک اور قوم کی ترقی وخوشحالی کا دار و مدار افراد و قوم کی بلند شرح خواندگی تکنیکی صلاحیت اور ہنر مندی پر ہوتا ہے مگر افسوس ہمارے کسی حکمران نے قومی فلاح اور ملکی سربلندی کے بارے میں منصوبہ بندی تو دور سوچنا تک گوارا نہ کیا، بہر حال سب پر نہ سہی صرف تعلیم ہی پر حکومتوں کی مضبوط گرفت ہوتی تو دوسرے کئی مسائل از خود حل ہوجاتے۔ ہماری موجودہ حالت، ہر شعبۂ زندگی میں انتہا پسندی کی وجہ صرف اور صرف ہماری پست شرح خواندگی اور کسی طرح کی منصوبہ بندی نہ ہونا ہے۔

آئینی طور پر قوم کے ہر فردکو بنیادی تعلیمی سہولت مہیا کرنا ریاست (حکومت) کی ذمے داری ہے، اگر ریاست اپنی اس ذمے داری کو احسن طور پر پورا نہیں کررہی ہو تو وہ گویا آئین سے روگردانی کی مرتکب ہو رہی ہے۔ خیر یہ ساری باتیں وہ ہیں جو بار بار دہرائی جاچکی ہیں اور اب یہ سب یاد دلانا لکیر پیٹنے کے مترادف ہوگا ، مگر یہ سوال تو بہر حال آج بھی کیا جاسکتا ہے کہ ''آخر ہم کب تک اپنی ذمے داریوں سے بھاگتے رہیں گے؟

ہم جیسے نادانوں جو خود اپنی ہی فکر نہ کرتے ہوں کا ہاتھ تھامنے کو کوئی بھی آگے نہیں بڑھتا اور اگرکوئی ہمارا معمول سے بڑھ کر ساتھ دینے پر آمادہ ہو تو کسی خوش فہمی کا شکار ہونے کی ضرورت نہیں بلکہ اس دوستی، ہمدردی کے پس پشت ہمیں اپنے مہربانوں کے (ماضی اور موجودہ) ہی مفادات کار فرما نظر آئیںگے۔ اگر ہم نے اب بھی اپنی روش تبدیل نہ کی تو ایک غلامی سے نکل کر خدانخواستہ کسی دوسری غلامی کی زد میں نہ آجائیں، لہٰذا جو کریں آنکھیں بند کرکے نہیں بلکہ برابری کی سطح اور اپنے مفادات کی خاطر مثبت فیصلے سے اپنی خود مختاری کو قائم رکھنا ناممکن نہیں، اگرچہ دیر بہت ہوچکی مگر اب بھی وقت ہے کہ سنبھل جائیں۔ موجودہ حالات میں اچھے مستقبل کے اشارے بھی مل رہے ہیں۔

چلیے ہم اپنے موضوع اور سوال کی طرف آتے ہیں کہ نجی شعبہ تعلیم پر کب اور کیسے حاوی ہوگیا؟ اس سوال کے جواب کے لیے ذرا ماضی میں جھانکنا پڑے گا۔ جب وطن عزیز معرض وجود میں آیا بے سروسامانی کا عالم تھا، مگر طویل جدوجہد اور بے شمار جانی ومالی قربانیوں کے بعد آزادی کا سورج طلوع ہوا تھا ۔ ہر شخص خوشی سے سرشار تھا اور تعمیر وطن کے جذبے سے بھرپور جس کو جوکام آتا تھا اس نے اس کو اپنا فرض بلکہ ملک وقوم کی خدمت سمجھ کر پورے خلوص سے ادا کیا، یہ وہ وقت تھا جب بدیسی معاشرے ہمارے معاشرے پر اس قدر اثر انداز نہیں ہوئے تھے، لوگوں کو اپنی اقدار، اپنی زبان، تہذیب، طرز زندگی سے لگاؤ تھا، اپنی تہذیب و اقدار پر فخر تھا، اپنی زبان پر عبور اپنی اقدار پر عمل باعث شرمندگی نہ تھا۔

اس وقت مائیں برسر محفل فخریہ یہ نہیں کہتی تھیں کہ میرے بچے کو بالکل اردو نہیں آتی بلکہ عموماً پانچویں جماعت سے انگریزی طور مضمون پڑھایا جاتا تھیااس کے باوجود اس دور کے پڑھے ہوئے لوگوں کی انگریزی آج مکمل انگلش میڈیم کے پڑھے ہوئے افراد سے کئی درجہ اچھی ہوتی تھی۔ اس وقت کے میٹرک انٹر پاس آج کے انگلش میں ایم اے کرنے والے کی انگریزی درست کرتے ہیں۔ بہرحال اپنی ملک، تہذیب، اقدار اور زبان سے والہانہ محبت کے باعث استاد بھی پر خلوص تھے۔

تعلیم دینا دینی فریضہ سمجھاجاتا تھا، دولت کے حصول کا ذریعہ نہیں۔ تعلیمی ادارے خستہ حال پاکستان کی حکومت کے زیر نگرانی تھے وہاں کی پوری انتظامیہ، اساتذہ، حتیٰ کہ چپراسی، آیا، چوکیدار تک طلبا کی کردار سازی اپنا فرض سمجھتے تھے ۔ اپنی تفویض کردہ ذمے داریوں کے علاوہ طلبا کی کسی بد اخلاقی یا قابل گرفت حرکت پر از خود روکتے اور احساس دلاتے کہ بات آپ نے اچھی نہیں کی، طلبا بھی اس وقت تک اتنے ''مہذب'' یعنی تہذیب مغرب سے روشناس یا متاثر کہہ لیں نہیں ہوئے تھے کہ وہ اپنے بڑوں چاہے وہ چوکیدار یا چپراسی ہی کیوں نہ ہو آنکھ اٹھاکر اس کی طرف دیکھ سکیں۔

کہاں یہ کے گریباں پکڑ کر فرمائیں کہ ''بوڑھے تم کون ہوتے ہو ہمیں روکنے والے، تمہاری یہ اوقات اپنے پاپا سے کہہ کر کل ہی تمہیں نوکری سے نکلواتا ہوں۔'' بات در اصل معیار تعلیم کی زیادہ فیس یا کم فیس سے نہیں ہے۔ اصل چیز تعلیمی ماحول اور وہ نصاب ہے جوکہ طلبہ کو حب الوطنی اور اپنی اقدارکا دلدادہ بنائے۔ جب ہر نجی ادارہ اپنا اپنا غیر ملکی نصاب اور طرز تعلیم اپنائے گا تو ''افراد '' قوم کب اور کیسے بن سکتے ہیں۔

ایک ہی شہر کے مختلف تعلیمی اداروں میں مختلف نصاب رائج ہیں سب کا اپنا اپنا ماحول ہے مجھے ایک مخلوط تعلیمی ادارے کے اعلیٰ مدارج میں تدریس کا تجربہ ہے، طلبا کلاس میں پندرہ بیس منٹ تاخیر سے آتے جب پوچھا جاتا ہے تو طرح طرح کے جواز پیش کرتے۔ پرنسپل سے ذکر کیا جائے تو وہ کسی نہ کسی طرح اس کا ذمے دار اساتذہ کو قرار دیتیں اور جو ٹیچر شکایت کرتا صرف اس کو کہتی کہ آپ طلبا پر کنٹرول نہیں رکھتیں اور کسی کو تو ایسی شکایت نہیں مگر جب ہم تمام اساتذہ اسٹاف روم میں بریک میں یکجا ہوتے تو سب کو یہی شکایت ہوتی اور ان سب سے الگ الگ یہی بات کہی گئی ہوتی کہ غلطی آپ کی ہے۔

میں نے ازخود اس معاملے کی تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ واش روم میں سگریٹ نوشی کے لیے ہر پیریڈ کے بعد دس پندرہ منٹ طلبا کو درکار ہوتے ہیں، مگر انتظامیہ اس سے چشم پوشی کرتی تاکہ ان کے کلائنٹ (گاہک) کسی دوسرے ادارے میں نہ چلے جائیں۔ اگر مختصراً میں اپنے سوال کا جواب دوں تو بس یہ لکھنا کافی ہوگا کہ بقول ایک معتبر و معزز صحافی کے تعلیمی ماحول اس وقت سے بے لگام ہوا ہے جب سے دو بہنوں نے اپنے تعلیمی ادارے پورے ملک میں پھیلائے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں