مباحثے تجزیے اور کچھ سوالات

جیب میں اگر دس روپے ہیں تو پہلے روٹی خریدنی ہوگی اور پھول کا گملہ بعد میں لینا ہوگا۔


Zuber Rehman December 21, 2018
[email protected]

آج کل امریکا، طالبان، الحمرا اور ایمپریس مارکیٹ پر باتیں، مباحثے، تجزیے اور سوال در سوال جاری ہیں۔کوئی مخالف ہے تو کوئی حامی، مگر حقیقت سے عوام کو آشنا نہیں کیا جاتا، حکمران طبقات اپنے تاریک ماضی اور غلط کرتوتوں کو عوام کے ذہنوں سے اوجھل کرنے کی نا کام کوشش کرتے ہیں ۔کچھ عرصے کے لیے کچھ لوگوں کو بے وقوف تو بنایا جاسکتا ہے لیکن ہمیشہ کے لیے سب کو بے وقوف نہیں بنایا جاسکتا ہے۔

کس کو نہیں معلوم کہ افغانستان میں برپا ہونے والی امریکی سامراج مخالف سوشلسٹ انقلابی حکومت (جس کے سربراہان نور محمد ترکئی اور ڈاکٹر نجیب تھے ) کوگرانے کے لیے امریکی سی آئی اے نے پاکستان کی سرزمین کو استعمال کیا ۔ مدارس سے طلبہ (طالبان) کو مغربی سامراجی قوتوں نے تربیت دی، جن میں برطانیہ، امریکا، بیلجیم ، فرانس، اسرائیل، اٹلی اور جرمنی شامل تھے اور طالبان کو افغانستان میں داخل کیا ۔ مصرکے انوار السادات نے جنرل ضیا الحق کوکلاشنکوف فراہم کی ۔

امریکا نے مذہبی جماعتوں کو مذہب کے نام پر ڈالرجہاد میں استعمال کیا۔اب اگرامریکا پاکستانی حکومت کو یہ کہتا ہے کہ ہم نے تیس کروڑ ڈالر ہر سال دیے، مگر نتائج ہمارے حق میں نہیںآئے۔ اس کے جواب میں عمران خان کہتے ہیں کہ ''ہماری قربانیوں کو تسلیم کرنے کی بجائے الٹا الزام لگایا جا رہا ہے۔'' بات دراصل یہ ہے کہ بقول پروفیسر نوم چومسکی کے امریکی سامراج اب تک 88 ملکوں میں بلاواسطہ اور باالواسطہ مسلح مداخلت کرچکا ہے۔

ہم جب امریکا کو افغانستان میں مداخلت کرنے کی سہولت فراہم کرتے ہیں تو سامراج کی خدمت کے سوا اورکچھ نہیں کرتے ۔ اب اگر عمران خان سامراجی مداخلت کو روکنا چاہتے ہیں تو آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک قرضہ جات کو بحق سرکار ضبط کرلیں ، جیساکہ کیوبا کے ڈاکٹر فیڈل کاسترو ، ویتنام کے ہوچی منہہ اور چین کے ماؤژے تنگ وغیرہ نے کیا تھا ۔ ورنہ سارے بیانات مصلحت پسندی کے سوا اورکچھ نہیں۔ انگریزی کی ( love and hate) والی کہاوت ہے کہ ''محبت اور نفرت '' ساتھ ساتھ چلتی ہے یعنی''منافقت۔'' ایک جانب امریکا، طالبان، داعش اورالقاعدہ سے نفرت کرتا ہے تو دوسری جانب محبت کرتا ہے، جہاں ضرورت پڑے کام لیا جاتا ہے اور جہاں ضرورت نہ پڑے تو شیطان گردانہ جاتا ہے۔

گزشتہ دنوں الحمرا لاہور میں فیض احمد فیض میلہ سجایا گیا، فیض احمد فیض اپنی روح کی گہرائیوں تک کمیونسٹ تھے۔ ان کا کمیونسٹ پارٹی سے تعلق تھا۔ ایوبی آمریت میں لاہور شاہی قلعے میں چار ماہ حسن ناصرکے ساتھ قید تھے۔ فیض احمد فیض پاکستان ریلوے ورکرز یونین کے جنرل سیکریٹری اور صدر مرزا ابراہیم تھے۔ فیض میلے میں ایسے لوگوں کو مدعوکیا گیا تھا جو فیض کے نظریات کے برعکس تھے۔ تین کمیونسٹ رہنماؤں علی وزیر ، تیمور رحمن اور عمار یاسرکو الحمرا کی انتظامیہ نے فیض میلے میں مدعو کیا تھا ۔

بعد ازاں ان دیکھے افراد نے فون پر الحمرا کی انتظامیہ کو ان رہنماؤں کو مدعو نہ کرنے کو کہا اور مزید کہا گیا کہ اگر انھیں اسٹیج پر بلایا گیا اور تقریرکروائی گئی تو تقریب کا اجازت نامہ منسوخ کروا دیا جائے گا، جس پر فیض احمد فیض کی بیٹی سلیمہ ہاشمی نے اسٹیج پر تین کرسیاں خالی رکھ کر اس کا جواب دیا ۔ اس کے بعد انھوں نے مہمانوں سے نہ آنے کی معذرت کرلی ،کتنے شرم کی بات ہے، مگر وقت ہمیشہ ایک جیسا نہیں رہتا۔ اسپین کے جنرل فرانکو، فلپائن کے جنرل مارکوس، چلی کے جنرل پینوشے اور پاکستان کے ڈکٹیٹر جنرل ضیا الحق وغیرہ آج اقتدار میں نہیں رہے تو پھر موجودہ حکمران بھی کل نہ ہوں گے بقول فیض ۔

راج کرے گی خلق خدا

جب تاج اچھالے جائیں گے

تخت گرائے جائیں گے

کراچی اور ملک بھر میں Beautification کے نام پر تجاوزات ڈھائے جارہے ہیں اور ایمپریس مارکیٹ کراچی میں پارک بنانے کا اعلان کیا گیا ہے، بیشک بنائیں ، مگر جیب میں اگر دس روپے ہیں تو پہلے روٹی خریدنی ہوگی اور پھول کا گملہ بعد میں لینا ہوگا۔کراچی کی گٹر لائنیں دہائیوں سے ابل رہی ہیں، پینے کا صاف پانی عوام کو میسر نہیں اور ہم خوبصورتی کے گیت گا رہے ہیں ۔ پہلے لوگوں کو روزگار فراہم کرنا ہوتا ہے، بعد میں بے دخلی جائز ہے، مگر عوام جہاں ڈٹ جاتے ہیں وہاں حکمرانوں کو بھی بھاگنا پڑتا ہے، جیسا کہ پاکستان کواٹر،کورنگی اور مہران ٹاؤن کے عوام نے پولیس کو وقتی طور پر ہی سہی مار بھگایا ۔

انگریزاستعمارکے دور میں جنگ آزادی کے ہیروزکو ایمپریس مارکیٹ کے چوک پر توپ پر باندھ کر اڑا دیا گیا تھا، وہ جنگ آزادی کے شہدا تھے۔ دوسری عالمی جنگ میں ہلاک ہونے والے برطانوی فوجی قبرستان کی کراچی میں برطانیہ آج بھی دیکھ بھال کرتا ہے ، تو پھرکیا ہم اپنے شہداء کو یاد نہ کریں ۔

حکومت پاکستان ایمپریس مارکیٹ چوک پر توپ پر باندھ کر اڑانے والے شہیدوں کے نام تختی پر درج کرے اور عوام کے سامنے عیاں کرے ۔ جنگ آ زادی برصغیرکے عظیم ہیرو بھگت سنگھ کے نام پر شادمان چوک کا نام تبدیل کرکے شہباز شریف نے جب بھگت سنگھ سے منسوب کرنے کا اعلان کیا تو چند علماء کے اعتراض پر نام واپس لے لیا گیا تھا۔ اس لیے کہ وہ سکھ تھے، جب کہ جنگ آزادی میں جان کا نذرانہ دینے والے ہندو، مسلم، سکھ ، عیسائی، پارسی ، جین اورکافر سب شریک تھے۔ برطانوی سامراج کے خلاف لڑنے والوں کا کسی بھی مذہب سے تعلق کیوں نہ ہو، وہ جنگ آزادی کے ہیرو تھے ۔ ہمیں کسی بھی طور پر ان کی قربانیوں کو فراموش نہیں کرنا چاہیے۔

ایمپریس مارکیٹ کا یاد گاری شہداء چوک کی انتہائی اہمیت اس لیے بھی ہے کہ 1857کی جنگ آزادی میں ہندوستانی عوام نے آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفرکو تخت نشین کردیا تھا ۔کراچی کو انگریزوں کے تسلط سے آزاد کروانے کے لیے ملیرکینٹ کے فوجی افسر ' رام دین پانڈے ' کی سرپرستی میں کراچی کو انگریزوں سے آزاد کروانے کا منصوبہ بنایا ، جس کا راز فاش ہونے پر عظیم انقلابی رام دین پانڈے کے 15فوجی ساتھیوں کو (ایمپریس مارکیٹ ) جوکہ اس وقت کھلا میدان تھا، توپ پر باندھ کر اڑا دیا گیا تھا۔

اس کے بعد برسوں عوام شہیدوں کی شہادت کے مقام پر پھول چھوڑ جاتے اورکبھی موم بتی جلا جاتے تھے۔ اس عقیدت و احترام کو دیکھتے ہوئے انگریز استعمار نے یہاں ایک عمارت بنادی اور یہاں عوام کے داخلے پر پابندی لگا دی۔ خاص کر پاکستان بننے کے بعد یہاں عوام کا آنا ممنوع قرار دے دیا گیا ۔ اب چونکہ پاکستان ایک آزاد ملک گردانہ جاتا ہے، اس لیے ایمپریس مارکیٹ میں بنائے جانے والے پارک کو '' یادگاری شہداء پارک '' کے نام سے منسوب کیا جائے ۔ یہی جنگ آزادی کے حقیقی شہداء کو خراج عقیدت پیش کرنے کا بہترین طریقہ ہے۔ اس ملک میں کمیونزم انقلاب کے بعد اس پارک کو جنگ آزادی کے'' عظیم شہداء پارک'' قرار دیا جائے گا اور شادمان چوک کا نام'' بھگت سنگھ چوک ''رکھا جائے گا ۔ اس لیے بھی کہ بھگت سنگھ برصغیرکے '' چی گویرا '' ہیں ۔انھیں برصغیرکے آزادی پسند ، انسان دوست ، انقلابی اورکمیونسٹ کبھی بھی فراموش نہیں کرسکتے ہیں ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔