سانپ بھی مر جائے لاٹھی بھی نہ ٹوٹے

لگتا ہے اخوان المسلمون کی 80 سالہ وہ جدوجہد ناکام ہو گئی جس کے نتیجے میں پچھلے سال مصر میں ان کی حکومت قائم ہوئی تھی۔


Zamrad Naqvi July 07, 2013

لگتا ہے اخوان المسلمون کی 80 سالہ وہ جدوجہد ناکام ہو گئی جس کے نتیجے میں پچھلے سال مصر میں ان کی حکومت قائم ہوئی تھی۔ عوامی تحریک کے نتیجے میں محمد مرسی کی حکومت قائم ہوئی اور عوامی تحریک کے نتیجے میں ہی آخر کار ان کی حکومت کا خاتمہ ہو گیا۔ بین الاقوامی ذرایع ابلاغ کے مطابق مرسی کی حکومت ختم کرنے کے لیے سڑکوں پر آنے والے مظاہرین کی تعداد ڈیڑھ سے تین کروڑ تھی۔ اگر مظاہرین کی اتنی بڑی تعداد سڑکوں پر نہ ہوتی تو مصری فوج کے لیے مرسی حکومت کو ہٹانا آسان نہ ہوتا۔ تعداد کے اعتبار سے یہ احتجاجی مظاہرے پچھلے سال کے ان مظاہروں سے بڑے تھے جس کے ذریعے حسنی مبارک کو اقتدار سے ہٹایا گیا، یہ چیز نہ صرف مصری عوام بلکہ دنیا کے لیے حیران کن تھی۔ یاد رہے کہ حسنی مبارک کو ہٹانے اور مرسی کو لانے میں امریکا کا کلیدی کردار تھا۔ ایسی اطلاعات موجود ہیں جن کے مطابق واشنگٹن میں کئی سال اخوان المسلمون کے اعلیٰ عہدیداروں اور امریکی حکام کے درمیان گفتگو ہوتی رہی ۔

بہر حال اس سے یہ بات ثابت ہو گئی ہے کہ مشرق وسطیٰ میں سرمایہ دارانہ نظام کے تحفظ کے لیے امریکا کا بنیاد پرستوںکو اقتدار دینے کا تجربہ ناکام ہو گیا ہے۔ اب مشرق وسطیٰ میں بنیاد پرست جمہوریت کا کوئی مستقبل نہیں۔ اسی سرمایہ دارانہ نظام کی حفاظت کے لیے برصغیر کو پاکستان اور بھارت میں تقسیم کیا گیا۔ لیکن ایران میں امریکا مخالف انقلاب نے اس بندوبست کو خطرے میں ڈال دیا چنانچہ امریکا نے صدام کی سرپرستی کر کے ایران کے خلاف جنگ شروع کرائی۔ سوویت یونین کے خلاف جنگ اس کا دوسرا مرحلہ تھا جس نے وقتی طور پر سرمایہ دارانہ نظام کی زندگی پھر طویل کی۔ بنیاد پرستی کا جن جسے امریکا نے بوتل سے باہر نکالا اور اس کی پرورش کی تاکہ مشرق وسطیٰ سے برصغیر تک طبقاتی جدوجہد کا خاتمہ کیا جائے، اس میں وہ کامیاب رہا کیونکہ عوام کی بڑی تعداد اپنے اصل مقامی اور بین الاقوامی دشمنوں کا مقابلہ کرنے کے بجائے، سامراجی اور مقامی ایجنٹوں کی سازشوں کا شکار ہو کر فرقہ وارانہ منافرتوں اور عصبیتوں میں ڈوب کر رہ گئے۔ آخری نتیجے میں اسرائیل کے تحفظ اور مشرق وسطیٰ میں اپنے تیل کے مفادات کو محفوظ کرنے کے لیے فرقہ واریت کو اپنی انتہا پر پہنچا کر افغانستان اور ایران میں مذہبی جنگ کرائی جائے گی۔

التحریر اسکوائر ہو یا تقسیم اسکوائر دونوں علامتیں ہیں، اس عوامی بے اطمینانی کی جو سرمایہ دارانہ نظام کے بحران کی وجہ سے دنیا میں نظر آ رہی ہے۔ بے پناہ غربت اور مہنگائی، بے روز گاری نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ دولت چند ہاتھوں میں سمٹ کر رہ گئی ہے۔ چند ہزار لوگ پوری دنیا کی 80 فیصد دولت پر قابض ہیں۔ پرتگال، یونان، اسپین اور اٹلی کی معیشتیں تاریخ کے بدترین بحران کا شکار ہیں۔ عالمی مالیاتی ادارے کی سربراہ کا کہنا ہے کہ اگر ہم نے فوری طور پر موثر اقدام نہ کیے تو یورپ کا ذکر صرف تاریخ میں رہ جائے گا۔

سرمایہ دارانہ نظام کے ماہرین کی طرف سے خطِ غربت کی تشریح بھی بڑی دلچسپ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جو لوگ ساڑھے چار ہزار ماہانہ یا ڈیڑھ سو روپے روزانہ کماتے ہیں وہ خط غربت پر ہیں۔ اس وقت دنیا کے اربوں لوگ خط غربت پر، خط غربت سے نیچے اور خط غربت سے ذرا اوپر ہیں، اگر ان کی آمدنی میں چند ہزار کا اضافہ ہو جائے تو کیا وہ خطِ امارت میں داخل ہو جائیں گے۔ یہ انتہائی مضحکہ خیز سوچ ہے۔ کیا دس ہزار آمدنی والے گھر کا کرایہ، یوٹیلٹی بلز، ادویات، بچوں کی تعلیم کا خرچہ اس محدود آمدنی میں برداشت کر سکتے ہیں۔ اصل میں سرمایہ دارانہ نظام میں غریبوں کی اکثریت کی اتنی ہی آمدنی ہو سکتی ہے جس میں وہ زندہ رہ سکیں تا کہ سستی لیبر سرمایہ داروں کو میسر آتی رہے۔ بے پناہ غربت نے غریب انسانوں اور جانوروں میں کوئی فرق نہیں چھوڑا ہے۔ جس طرح کتے بلیاں خوراک کی تلاش میں اپنی جان بچانے کے لیے سرگرداں نظر آتے ہیں۔ یہی حال غریب انسانوں کا ہے۔ دوسری طرف امیروں کا لائف اسٹائل ملاحظہ فرمائیں، ان کے صرف کچن کا ماہانہ خرچہ پانچ سے دس لاکھ ہے۔

پانچ دس نوکر معمولی بات ہے، گھر میں صرف دو گاڑیاں ہونا ان کے نزدیک غربت کی علامت ہے۔ گاڑیاں بڑی اور قیمتی ہونا ضروری ہے۔ امیروں کے علاقے میں رہائش پذیر ہونے کے لیے آپ کے پاس پانچ سے دس کروڑ ہونے چاہئیں ورنہ وہ آپ کو اپنی برادری سے نکال بھی سکتے ہیں۔ ہر امیر کو غریب ہونے کا خوف پاگل کیے دیتا ہے جس سے بچنے کے لیے وہ ہر طرح کی کرپشن اور مالی فراڈ کرنے پر ہر وقت آمادہ نظر آتا۔ برانڈڈ کپڑے، سُوٹ، ٹائیاں، جوتے گھڑیاں ان کا تعارف ہیں۔ بھارت اپنی بدترین غربت اور بدترین امارت کے حوالے سے انتہائی ہولناک اور عبرتناک مثال ہے۔ وہاں کے سرمایہ دار کا شادیوں پر دس سے سو کروڑ خرچ کرنا ایک عام سی بات ہے۔ دوسری طرف وہاں کے 60 کروڑ مکین مرد و عورت حوائج ضروریہ کے لیے گھر سے باہر جانے پر مجبور ہیں۔ ایک ارب کے قریب عوام خط غربت سے نیچے ہیں اور پاکستان میں دس کروڑ جو بمشکل ایک وقت کی روٹی حاصل کر پاتے ہیں۔ حال ہی میں وہاں کی حکومتی پارٹی کانگریس نے ایک اسکیم کا اعلان کیا ہے جس کے تحت 80 کروڑ غریبوں کو ماہانہ 5 کلو اناج ''مفت'' ملے گا جس پر ایک کھرب 13 ارب روپے خرچ ہوں گے۔ سرمایہ دارانہ نظام کی لوٹ مار نے دنیا کا امن اور انسانوں کی زندگیاں خطرے میں ڈال دی ہیں لیکن اس کے باوجود سامراج سرمایہ دارانہ نظام کی حفاظت کے لیے فرقہ وارانہ مذہبی جنگ ہو یا ایٹمی کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہے۔

پاکستان کے معاشی مسائل کی ذمے دار اسٹیبلشمنٹ ہے جس کی غلط معاشی، دفاعی اور خارجہ پالیسیوں نے پاکستان کو تباہی کے کنارے پہنچا دیا ہے۔ معاشی بحران نے زرداری حکومت کو ناکام کر کے عوامی حمایت سے محروم کر دیا۔ اب نواز شریف کی باری ہے۔ مہنگائی' بجلی' معاشی بحران، بیروز گاری، غربت کو ملٹی پلائی کر دے گی جس کے نتیجے میں عوام سڑکوں پر ہوں گے۔ جیسا کہ قاہرہ اور استنبول میں ہوا۔ مقامی اور عالمی اسٹیبلشمنٹ نے سبق سیکھ لیا ہے کہ پھانسی، جلا وطنی، قتل سیاسی لیڈروں کی زندگی اور مقبولیت میں اضافہ کرتے ہیں۔ یعنی سیاست دانوں کو سیاسی طریقے سے ختم کرنا چاہیے نہ کہ ... اسے کہتے ہیں، سانپ بھی مر جائے، لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔

مصر میں فوجی بغاوت کے بعد اہم تاریخیں 12,9,8 اور 15 تا 19 جولائی۔

9 سے بارہ جولائی کے درمیان مون سون کا باقاعدہ آغاز ہو جائے گا۔

سیل فون: 0346-4527997

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں