سرکتا وقت پرانی کہانی
غریب چاہے کسی بھی ملک کا ہو ایک ہی جیسا ہوتا ہے کہ اس کے پاس کھانے کے لیے روٹی نہیں ہوتی۔
خوشبوؤں کے شہر فرانس میں ہونے والے ہنگاموں نے ترقی یافتہ اقوام کے چہرے سے غازہ اتاردیا، ایک دکھ، تکلیف، غصہ اور پھر انتقام اور احتجاج نے لوگوں کو سڑکوں پر چلانے اور شور مچانے پر مجبور کر دیا۔ وہ بے بس ہوکر اپنے گھروں سے نکلے تھے کیونکہ اب ان کے پاس صرف احتجاج کے اورکچھ نہ بچا تھا۔ سڑکوں پر جلی ہوئی گاڑیوں اور مظاہرین کے غصے کو دیکھ کر کیا کہا جاسکتا ہے کہ مہنگائی سے مجبور یہ لوگ ترقی یافتہ فرانس سے تعلق رکھتے ہیں۔
مہینے کے شروع میں جو تنخواہیں ملتی ہیں ان کا پھر سے ختم ہوجانا، اسی بات کی علامت ہے کہ اب ملک کے حالات کی ڈگر پر چل پڑے ہیں۔ امیر اور امیر ہوتے جا رہے ہیں اور غریب اور غریب۔ امیر اور غریب کے بیچ کی یہ جنگ کیا نئی ہے، یہ کہانی تو بہت پرانی ہے۔ نیو یارک ٹائمز میں چھپنے والے اس مضمون میں کچھ ایسا ہی لکھا تھا۔ مصنف کے مطابق ''پہلی واسکٹ'' فسادات تو پیرس میں ہو رہے ہیں لیکن اس کا غصہ پورے فرانس میں محسوس کیا جا رہا ہے۔
کیا یہ طبقات کی جنگ ہے یا واقعی جوان صدر ایمائنوئل میکرون کے فرانس کی ترقی کے خواب ہیں، لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ اس وقت فرانس میں کم آمدنی والے طبقے کی زندگی اجیرن ہوگئی ہے۔ ایک ایسا محنت کش جس کی تنخواہ تیرہ سو یورو ہے وہ مہینے کے چودہ سو تیس یورو کے گیس، بجلی کے بل ادا کرکے اپنی زندگی کی گاڑی کوکیسے چلاسکتا ہے، فرانس میں پڑنے والی شدید سردی میں جب گھر میں گرمی فراہم کرنے کے لیے گیس نہ ہو تو زندگی موت کی طرح سرد اور خوفناک نظر آتی ہے ایسے میں گیس اور بجلی کے بڑھتے نرخ کچھ اور بھی تلخیاں بڑھا رہے ہیں۔
لوگوں نے ایمائنوئل میکرون کو ووٹ دے کر کامیاب کروایا تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ ان کے لیے بھی وہ کام کرے لیکن 2017ء کی 27 ستمبر کو ان کے پہلے بجٹ نے ان کی زندگیوں میں طلاطم سا پیدا کردیا اور حالات مزید بگڑتے گئے۔
ورلڈ ٹورازم آرگنائزیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق فرانس ایک ایسا ملک ہے جہاں سب سے زیادہ سیاح آتے ہیں۔ یہ دنیا بھر میں سب سے زیادہ دیکھا جانے والا ملک ہے جہاں 83.7 فی صد لوگ محض سیاحت کے لیے آتے ہیں۔ فرانس کا دارالحکومت پیرس ہے جہاں فیشن کی نت نئی رنگینوں پر پوری دنیائے فیشن نظر رکھتی ہے یہاں میک اپ سے لے کر خوشبویات، کپڑے اور خوبصورتی کے معیار کے پیمانے مقرر ہوتے ہیں۔
دنیا بھر میں یہ مصنوعی دل اور چہرے کی سرجری کے حوالے سے مشہور ہے۔ مختصر ترین وقفہ حکومت کے حوالے سے بھی فرانس مشہور ہے۔ لوئیس انیس جو محض بیس منٹ کے لیے بادشاہی کے عہدے پر فائز ہوئے تھے۔ فرانس نیٹو کے بانی ممبران میں شامل ہے جو 1949ء میں وجود میں آیا تھا جس کا مقصد یورپ میں سوویت یونین کے بڑھتے ہوئے اثر ونفوذ کو روکنا اور اس کے خلاف اجتماعی دفاعی نظام بنانا تھا۔
مسلمانوں کے حوالے سے فرانس میں اتنی تلخیاں بڑھیں کہ مسلمان خواتین کے چہرے ڈھانپنے کو جرم قرار دیا گیا تھا جس پر جرمانہ بھی عاید کیا گیا تھا۔ تاریخ اٹھاکر دیکھ لیں فرانس بھرپور واقعات سے پر ہے جنگ عظیم اول اور دوئم میں فرانس کے سینے پر بڑے زخم ابھرے۔ 1942-44ء تک یہاں سے اندازاً ایک لاکھ ساٹھ ہزار شہریوں کو یا تو مرنے کے لیے کیمپوں میں منتقل کر دیا گیا یا سزائیں جھیلنے کے لیے دوسرے کیمپوں میں جو جرمنی اور پولینڈ میں قائم تھے۔ یہ کیمپ ماضی میں عبرت کا نشان تھے، یہ وہی فرانس ہے جہاں یہودیوں نے اپنی جان بچانے کے لیے برسوں گٹر لائنوں میں گزارے۔
1940ء میں نیپولین نے فرانس کو فتح کیا تھا۔ نازی افواج کے حوالے سے فرانسیسی قوم بہت اذیتوں سے جڑی رہی، وقت کے بدلتے دھارے نے بہت سی تلخیوں کو بھلادیا لیکن محسوس یہ ہوتا ہے کہ زمانے کی ترقی کے باوجود وقت کا دھارا ایک بار پھر لوٹ آیا ہے۔ سترھویں صدی میں فرانس میں انقلاب آیا یہ 1787ء سے 1799ء تک رہا جس کی وجہ 1788ء میں ہونے والی خشک سالی تھی۔ لوگوں کے پاس کھانے کو نہیں تھا۔ جب کہ حکمران طبقہ اور امرا اسی عیش وعشرت سے زندگی بسر کررہے تھے۔
اس زمانے میں جب لوگوں نے احتجاج کیا اور شاہی محل کے سامنے جمع ہوگئے تو فرانسیسی ملکہ میری انسٹوینٹی نے شور و غوغا سن کر خدمت گاروں سے پوچھا کہ یہ کیسا شور ہے تو جواب ملا کہ عوام شورکر رہے ہیں کیونکہ ان کے پاس کھانے کو روٹی نہیں ہے، ملکہ نے جواب دیا کہ اگر ان کے پاس روٹی نہیں ہے تو یہ کیک کھا لیں، اس بات میں کسی حد تک صداقت ہے لوگوں کی رائے اس بارے میں مختلف ہے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ملکہ اس وقت کم سنتی تھی اور یہ بھی مشہور ہے کہ انگریزوں نے فرانسیسیوں کو بدنام کرنے کی غرض سے ایسا کہا ہے۔ بہر حال یہ بات مذاق کی حد تک تو درست ہی ہے لیکن آج کل کے اس تیز رفتار دور میں شاید ممکن بھی ہے۔
فرانس کے مشہور شہر پیرس میں لوگ آج بھی احتجاج کر رہے ہیں کیونکہ بھڑکتی مہنگائی اور ٹیکس کے بوجھ تلے مجبور لوگوں کے لیے صدر میکرون فوری طور پر کیک فراہم کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ویسے بھی انھیں امیروں کا صدر کا خطاب مل چکا ہے وہ اپنی مقبولیت کھو رہے ہیں، انھیں شکست تسلیم کر لینی چاہیے۔ انھوں نے فی گیلن فیول پر30 فی صد ٹیکس بڑھاکر غریبوں کی کمر ہی توڑ دی ہے جب کہ پہلے ہی فرانس میں فیول مہنگائی کی آخری حد پر تھا۔
غریب چاہے کسی بھی ملک کا ہو ایک ہی جیسا ہوتا ہے کہ اس کے پاس کھانے کے لیے روٹی نہیں ہوتی، خالی پیٹ وہ اپنی زندگی کو کیسے بسر کر سکتے ہیں،ان کے مسائل امیروں کی سمجھ میں نہیں آتے کیونکہ ایک غریب کے مسائل غریب ہی محسوس کر سکتا ہے اس دکھ اور اذیت کو برداشت کرتے کرتے جب غریب چیختا ہے تو امراء کے ایوان لرز جاتے ہیں۔
فرانس میں انقلاب آیا تو ملک کی تاریخ ہی بدل گئی تھی۔ زمانہ اب سترھویں صدی سے سرکتا سرکتا اکیسویں صدی تک آپہنچا ہے، لیکن گزرتا وقت اپنے ساتھ اسی طرح کے مسائل پھر سے لے آیا ہے کہتے ہیں وقت اپنے آپ کو دہراتا ہے اس نئے باب میں اب کیا داستان رقم ہوتی ہے، یہ دیکھئے۔