فائدہ کیا ہوا
ایک بارجن تجاوزات کا خاتمہ کر دیا گیا تھا انھیں دوبارہ وہاں قدم جمانے کی اجازت نہیں ملے گی اور سہولت ہو جائے گی۔
خدا خدا کر کے یہ سڑک مکمل ہوئی تھی، اس کی کشادگی اور از سر نو تعمیرکے دوران ہم نے تین سال تک مشکلات بھگتی تھیں۔ گھنٹوں ٹریفک بلا ک رہتی، کوئی حادثہ ہو جاتا تو اور بھی برے حالات ہوجاتے تھے اور جو بارش کے چار چھینٹے پڑ جاتے تو گاڑیوں کے بجائے کشتیوں کی ضرورت محسوس ہوتی تھی۔
سڑک کے دو اطراف ہر نوعیت کے کاروباری مراکز تھے جو ریڑھیوں سے شروع ہوتے اور ہوتے ہوتے ادھ کچے ادھ پکے بڑے بڑے ٹھیلے بن چکے تھے۔ روات سے شروع ہو کر راولپنڈی جانے والی اس سڑک ( جی ٹی روڈ ) پر نہ صرف اس کا تنگ ہونا مسئلہ تھا، بلکہ اس پر قائم کردہ ان کاروباری نا جائز تجاوزات نے بھی اس سڑک کو مزید تنگ کر رکھا تھا۔
یہاں پر فرنیچر، گاڑیوں کی مرمت، بجلی اور گیس کے سامان کے علاوہ سبزیوں اور پھلوں کے ٹھیلوں نے آسانیوں سے زیادہ مشکلات کا انبار لگا رکھا تھا کیونکہ جس کا جہاںدل چاہتا تھا وہ گاڑی کھڑی کر کے خریداری شروع کر دیتا تھا۔ اس کی وجہ سے آئے روز اس پر ہو جانے والا کوئی نہ کوئی حادثہ مسافروں کی مشکلات کو اور بھی بڑھا دیتا تھا۔
پھر اس سڑک کی سنی گئی اور اس کی تعمیر شروع ہوئی، اس کی تعمیر کے اولین مرحلے میں سب سے پہلے ان کاروباری تجاوزات کو ختم کیا گیا، اس کے بعد سڑک کے بیچوں بیچ آنے والے ، بجلی کے کھمبوں کی منتقلی کا طویل مرحلہ تھا ، جس کے دوران ہم نے اپنے علاقے میں بجلی کی طویل بندشیں بھی برداشت کیں ۔ غرض اس عرصے میں، مختلف مراحل پر ہم نے جن مشکلات کا سامنا کیا ان کی فہرست کافی طویل ہے۔
امید واثق تھی کہ ایک بارجن تجاوزات کا خاتمہ کر دیا گیا تھا انھیں دوبارہ وہاں قدم جمانے کی اجازت نہیں ملے گی اور سہولت ہو جائے گی۔ سڑک کا وسیع ہونا ایک ایسا خواب تھا جس کے ساتھ ذہن میں کئی آسانیوں کے خواب منسلک تھے، سفر کا دورانیہ کچھ کم ہو جائے گا، حادثات کا تناسب کم ہو جائے گا، ہر روز ٹریفک جام میں پھنس کر جس ذہنی اذیت اور کوفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ کم ہو جائے گی۔ مگر... آہ!! تمام خواب حسرت بن کر رہ گئے جب...
سڑک کی تعمیر کے دوران ہی اس سڑک پر کئی نت نئے نجی اسکولوں کے مابین، اس طرف بڑھتی ہوئی آبادی اور ممکنہ طالبعلموں کی تعداد کو سوچ کر، جلد از جلد اپنے اپنے کیمپس بنانے کی ایک دوڑ سی لگ گئی اور سب نے اپنی اپنی برانچیں کھول لیں۔ ان میں سے کسی کا بھی اس مقصد کے لیے اپنا کیمپس نہیں تھا نہ ہی یہ اسکول کسی منصوبہ بندی کے تحت معرض وجود میں آئے تھے ۔ جو بھی عمارتیں کرائے یا لیز پر میسر تھیں انھیں میں کم سے کم ترامیم کر کے، جی ٹی روڈ کے عین اوپر کھمبیوں کی طرح اگ آنیوالے ان اسکولوں نے اتنی وسیع سڑک کو بھی بے فائدہ کر دیا ہے۔
آپ روات سے راولپنڈی کی طرف روانہ ہوں تو لگ بھگ ایک کلومیٹر کے بعد یہ اسکول شروع ہو جاتے ہیں اور صرف اسکول ہی نہیں بلکہ ان کے ساتھ بھاری ٹریفک جام دور سے ہی نظر آ جاتا ہے، یہ ان لوگوں کی گاڑیاں ہیں جو سویرے بچوں کو اسکول چھوڑنے کے لیے آتے ہیں اور واپسی پر انھیں لینے کے لیے۔ جلد بازی، بغیر کسی پیشگی منصوبہ بندی اور مستقبل بینی کے بغیر قائم کر لیے گئے ان اسکولوں اور دیگر تعلیمی اداروں میں گاڑیوں کی پارکنگ جیسی بنیادی سہولیات کا فقدان ہے ۔
اب یہ سڑک پانچ رویہ بن گئی ہے مگر اگر آپ صبح دفتر جانے کے لیے گھر سے نکلیں یا واپسی پر ... آپ کا منٹوں کا سفرگھنٹوں پر محیط ہو جاتا ہے کیونکہ اس پانچ رویہ سڑک پر پانچ لین میںگاڑیاں پارک کی ہوتی ہیں، اس کے علاوہ سڑک کے پار بھی ایک لین ان لوگوں کے لیے پارکنگ کی لین بن چکی ہے جو کہ جلد نکلنے کی خاطر سڑک بچوں کو لے کر بھاگ کر پار کر کے دوسری طرف پارک کی ہوئی گاڑی تک جاتے اور کئی بار حادثات کا سبب بنتے ہیں ۔ ان پارک کی گئی گاڑیوں کے بیچوں بیچ، ایک تنگ سی لین ہوتی ہے جس پر گاڑیاں چیونٹی کی رفتار سے چل رہی ہوتی ہیں۔
چند کلو میٹر کا یہ فاصلہ پانچ سے چھ کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے طے کیا جا سکتا ہے کیونکہ سڑک کے کنارے پر بننے والے ان اسکولوں سے نکلنے والے بچے اپنی گاڑیوں سے نکلتے ہوئے دائیں دیکھتے ہیں نہ بائیں اور اپنی جان کو تو خطرے میں ڈالتے ہی ہیں بلکہ گاڑیوں کے خطرناک حادثات کا باعث بھی بنتے ہیں ۔ ان اسکولوں کے مالکان کو یہ علم نہیں ہے کہ وہ لگ بھگ دو سو سے چار سو یا اس سے بھی زائد بچوں کے لیے اپنے اسکول کے باہر کوئی کار پارک بناتے ہیں نہ ہی بچوں کے لیے ڈراپ لین ۔
گزشتہ حکومت کے دور میں، چند برس پہلے ایک مہم چلا کر اسلام آباد کے رہائشی علاقوں سے ہر طرح کے کاروباروں کا خاتمہ کر دیا گیا تھا اور اس سے اسلام آباد کے مکینوں کو کافی سکون ملا تھا۔ آ پ کو اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ جب کسی رہائشی علاقے میں کسی کوٹھی میں کوئی بھی کاروبار شروع ہو جاتا ہے تو اس سے اس علاقے کے مکینوں کے لیے کس نوعیت کی مشکلات جنم لیتی ہیں ۔ اس میں سب سے بڑا مسئلہ ہر گھر کے سامنے پارک ہو جانے والی وہ گاڑیاں ہوتی ہیں جو بظاہرخریداروں کی ہوتی ہیں، کیونکہ کاروبار کرنے والے کوئی پارکنگ پلازہ نہیں بناتے، ان کی غرض صرف اپنے کاروبار کا فروغ ہوتا ہے۔ اسی طرح مختلف گھروں میں بنے ہوئے اسکول تھے جو نہ تو ایک اسکول ہونے کے بنیادی تقاضے پورے کرتے تھے بلکہ علاقہ مکینوں کے لیے کوفت کا باعث بھی بنتے تھے۔
اب ان تمام اسکولوں نے کہ جنھیں اسلام آباد سے بدر کر دیا گیا تھا، دوسرے علاقے کا رخ کر لیا ہے جس سے یہاں بسنے والے ہزاروں مکینوں کے لیے اذیت کا سامان کر دیا ہے۔ میں جب بھی ان اسکولوں کو دیکھتی ہوں اور اس کے باہر رش کو تو سوچتی ہوں کہ کیا موجودہ حکومت کے بھی کسی اہم وزیر کا کبھی یہاں سے گزر نہیں ہوا... جی ٹی روڈ کے علاوہ کون سا راستہ ہے جسے آپکے وزراء اختیار کرتے ہیں؟ کیا کسی کی نظر ان اسکولوں پر اور ان کے باہر لگے ہوئے طالب علموں کے میلے پر نہیں پڑی جو نہ صرف خود بلکہ انھیں بچانے کی کوشش میں کئی گاڑی سوار حادثات کا شکار ہوئے ہونگے۔حکومت نے اگر نجی اسکولوں کی فیسوں کے زیادہ ہونے کو چیک کیا ہے تو انھیں اس اہم نکتے کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔
اسکول قائم کرنے کے لیے کوئی بنیادی قواعد وضع کیے جائیں اور دنیا کے کسی چھوٹے سے چھوٹے ترقی یافتہ ملک کے اسکولوں کو ماڈل کے طور پر سامنے رکھا جائے اور فی طالب علم کتنے مربع فٹ کی جگہ کم از کم لازم ہو کہ اس کے باعث ان اسکولوں کا کھمبیوں کی طرح اگنا بند ہو جائے۔ نہ صرف یہ کہ انھیں بچوں کے لیے بہتر، روشن، ہوا دار اور صاف ستھرے کلاس روم مہیا کرنا ہوں بلکہ اس بات کو بھی یقینی بنایا جائے کہ کسی نجی اسکول میں ایک کلاس میں زیادہ سے زیادہ طالب علموں کی تعداد کیا ہو اور کتنے بچوں پر ایک استاد مقرر ہو... جب یہ تعداد اس حد سے متجاوز کر جائے تو نیا سیکشن بنا دیا جائے یا ایک اور استاد کا اضافہ کیا جائے۔
نجی اسکولوں کی فیسوں پر نظر ثانی کروانا ایک اچھا اقدام ہے مگر اس سے بھی اہم ہے کہ اسکولوں میں اساتذہ کی پیشہ ورانہ قابلیت کو چیک کیا جائے، غیر تربیت یافتہ اور نوآموز اساتذہ کو کم تنخواہوں پر بھرتی کر کے اپنے سرمائے کو بچانا ان اسکولوں کا شیوہ ہے۔ عموما یہ بھی ہوتا ہے کہ ماہ جون سے قبل کئی نو آموز اساتذہ کو ملازمتوں سے فارغ کر دیا جاتا ہے اور نیا سیشن شروع ہونے سے پہلے نئے اساتذہ بھرتی کر لیے جاتے ہیں اور ان کے ملازمت کے معاہدے میں لکھا ہوتا ہے کہ انھیں گرمیوں کی چھٹیوں کی تنخواہ ، ملازمت کے پہلے سال میں نہیں ملے گی... لیکن کیا نئے داخل ہونے والے بچوں کو ان مہینوں کی فیس معاف ہوتی ہے؟
جن اسکولوں میں نرسری کلاس کے ایک بچے کی فیس بھی پچیس سے تیس ہزار روپے ماہانہ ہوتی ہے وہاں ایک استاد جو ان کو پڑھانے پر مامور ہو، اس کی تنخواہ بساا وقات ایک بچے کی فیس کے برابر ہوتی ہے جو کہ ان اساتذہ کے ساتھ ناانصافی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ ہر تعلیمی ادارے کے لیے لازم قرار دے دے کہ وہ کم از کم پانچ بچوں کی فیس کے برابر ایک استاد کو تنخواہ دے... جب اساتذہ کو کم تنخواہیں ملتی ہیں تو انھیں اپنے اپنے اسکول کھول کر '' فروغ تعلیم'' بہتر آپشن لگتی ہے۔ اسی لیے جگہ جگہ بھانت بھانت کے اسکول کھلے پڑے ہیں جہاں تعلیم سے زیادہ توجہ فیسوں کے حصول پر ہوتی ہے۔
اس سے قبل بھی حکومتیں ملک میں نظام تعلیم کو نظر انداز کرتی رہی ہیں اور تعلیم کا اس ملک میں اللہ ہی حافظ ہے۔ بچوں کے ذہن میں اخلاقیات کا کوئی تصور نہیں، صرف گریڈ لینے والی مشینیں بنا کر رکھ دیا گیا ہے۔ اگر حکومتی اور سرکاری اسکولوں کا معیار بہتر بنایا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ لوگ حیثیت نہ ہونے کے باوجود، اتنی اتنی فیسیں دینے پر مجبور ہوں اور نجی شعبے میں تعلیم کے نام پر لوٹ مار کا بازار گرم ہو۔
نجی اسکول بھی اس ملک میں مافیا کی صورت اختیار کر چکے ہیں۔ حکومت نے حکم دیا تھا کہ بچوں سے گرمیوں کی تعطیلات کی فیس نہیں لی جائے گی، کیا اس بات کو چیک کیا گیا کہ ان احکامات کی کسی نے تعمیل کی یا نہیں؟ صرف یہ حکم دے دینا کافی سمجھ لیا گیا تھاکہ تعطیلات کی فیسیں نہ لیں، یا یکمشت نہ لیں۔ کیا اس بات کا جائزہ لیا گیا تھا کہ اگر فیسیں نہ لیں تو اساتذہ کی تنخواہیں دینے کا مسئلہ کیسے حل ہو؟
مانا کہ ملک میں اور بھی بہت سے مسائل ہیں مگر اس مسئلے کو بھی ترجیح دینے کی ضرورت ہے کیونکہ نظام تعلیم کا کرپٹ ہونا ایسے ہی ہے جیسے کہ کسی عمارت کی بنیاد کی اینٹ ٹیڑھی لگ جائے اور اسے ہم اوپر سے سیدھا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں... وزراء کی کمیٹیاں بنائیںجو عوام کی شراکت کے ساتھ ان مسائل کے بہتر حل کے لیے تجاویز جمع کریں اور ان پر عمل درآمد بھی ہو اور اس کی باقاعدہ مانیٹرنگ بھی کی جائے۔ ان کمیٹیوں میں اسکولوں کے طالب علموں کے والدین بہترین معاون ہو سکتے ہیں کیونکہ وہ ان مسائل کے براہ راست ''متاثرین '' ہیں۔