فونٹین ہاؤس اور اخوت
فونٹین ہاؤس نے صدقہ و عطیات میں سے پانچ کروڑ کی رقم سے خواتین کے لیے ایک سو بستروں کا اسپتال تعمیر کیا ہے۔
NAIROBI:
آج سے47 سال قبل 1971 میں ڈاکٹر محمد رشید چوہدری کو شدید ادراک ہوا کہ ملک میں ذہنی امراض میں مبتلا افراد کی تعداد میں بے حد اضافہ ہوتا جا رہا ہے جس کی ایک وجہ یہ ہے کہ کسی کو معلوم ہی نہیں ہو پاتا کہ ایک بچے کی عادات نارمل نہیں رہی ہیں' دوسری وجہ یہ کہ بچے کے والدین ابنارمل فرد کے علاج کی استطاعت نہیں رکھتے کہ ڈاکٹروں کی فیس بھریں اور مہنگی ادویات خریدیں اور تیسری وجہ یہ کہ وہ مریض بچے کو Right off کر دیتے اور اس سے اپنے طور پر لاتعلق ہو جاتے ہیں۔
یوں اس کا مرض شدت اختیار کرتا چلا جاتا ہے۔ یعنی مرض بڑھتا گیا جوں توں دوا (نہ) کی۔ ڈاکٹر رشید دراصل 1962 میں لاہور مینٹل ہیلتھ ایسوسی ایشن سے منسلک ہو چکے تھے۔ اس ایسوسی ایشن کی حکومت کی منظوری 1968 میں ہو گئی پھر اس بارے پروپوزل امریکی فونٹین ہاؤس نیو یارک کو تکنیکی اور مالی معاونت کے لیے بھجوا دیا گیا۔ سن1971ء میں واشنگٹن سے وہاں کے سوشل و بحالی سروسز کے کنسلٹنٹ نے لاہور کی ذہنی صحت کی ایسوسی ایشن کا دورہ کیا جس کے نتیجے میں باہمی تعلق ہو جانے پر لاہور سینٹر کا نام بھی Fountain House ہو گیا۔
فونٹین ہاؤس اب بھرپور طریقے سے لوگوں کی ذہنی امراض جن کا نام Depression,Bipolar disorder, Schizophrenia Anxiety اور Drug disorder Alcohal & وغیرہ ہے علاج کی خدمات انجام دے رہا ہے۔ قیام کے دن سے اب تک 450000 سے زائد ذہنی مریضوں کو علاج اور صحت یابی کے بعد معاشرے کے مفید افراد بنایا جا چکا ہے۔ اس وقت سالانہ 800 سے زائد مریضوں کا علاج ہو رہا ہے۔ فونٹین ہاؤس کے پاس230 Male اور Female کی لاہور میں اور70 مریضوں کی فاروق آباد میںIndoor سہولت موجود ہے۔
سن 2018 میں فونٹین ہاؤس نے 11000 ذہنی مریضوں کو کنسلٹنسی کی سہولت فراہم کی جب کہ 3000 مریضوں کو زکوٰۃ اور عطیات سے وصول ہونے والی رقم سے ادویات بھی دیں۔ فونٹین ہاؤس مریضوں کے لیے کیمپ سروس بھی مہیا کر رہا ہے اور ایسے ماہرین بھی مدد کر رہے ہیں جن کی خدمات کے نتیجے میں Indoor ذہنی مریضوں کو دوبارہ اسپتال میں داخل نہیں ہونا پڑتا۔
فونٹین ہاؤس نے صدقہ و عطیات میں سے پانچ کروڑ کی رقم سے خواتین کے لیے ایک سو بستروں کا اسپتال تعمیر کیا ہے لیکن اس کی تزئین کے علاوہ ایمبولینسز' اسٹریچرز فلورنگ' فرنیچر' مشینری' باؤنڈری وال وغیرہ کے لیے مزید رقم کی ضرورت ہے۔ حکومت پنجاب نے کچھ عرصہ قبل پانچ کروڑ روپے منظور کیے تھے جن کی ریلیز آخری مراحل میں ہے۔ اگرچہ مخیر اصحاب مدد کرتے رہتے ہیں لیکن اخراجات کے لیے ہمہ وقت عطیات و صدقات کی ضرورت رہتی ہے۔ ڈاکٹر محمد رشید چوہدری اور ڈاکٹر ہارون رشید نے فاؤنٹین ہاؤس کو اپنی شبانہ روز محنت سے ان لوگوں کا گھر بنایا جن کا کوئی گھر نہیں یا جن کے عزیز و اقارب ہمیشہ کے لیے چھوڑ دیتے ہیں۔ ان دو نامور نیک نام ڈاکٹروں کی وفات کے بعد ڈاکٹر امجد ثاقب نے اس ادارے کی باگ ڈور سنبھالی۔
بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ یوٹرن لینا غلط کام ہے گزشتہ دنوں عمران خان نے یوٹرن لینے کو بہ امر مجبوری ہو یا بہتری کے لیے اختیار کر لینے کی بات کی تو مخالفین کی طرف سے نہ صرف اس پر شدید ردعمل آیا بلکہ ان کا مذاق بھی اڑایا گیا۔ لیکن ڈاکٹر امجد ثاقب نے دوبارہ یوٹرن لے کر ملک ہی میں نہیں انٹرنیشنل سطح پر نام پیدا کیا۔ انھوں نے میڈیسن میں ڈاکٹریٹ کی لیکن میڈیکل پریکٹس کرنے کی بجائے سول سروس میں آ کر بحیثیت بیوروکریٹ ملازمت شروع کر دی، لیکن اٹھارہ سال تک افسری کرنے کے بعد سروس سے ریٹائرمنٹ لے لی اور مالی لحاظ سے پسماندہ اور ضرورت مند طبقہ کو معاشرے میں معاشی طور پر سربلند کرنے کے لیے قرض حسنہ دینے کا عزم کیا۔
انھوں نے ''اخوت'' نامی تنظیم کی بنیاد رکھی اور پہلا بلاسود قرض مبلغ دس ہزار روپے ایک مستحق خاتون کو کاروبار کے لیے دیا۔ فاؤنٹین ہاؤس ذہنی معذوروں اور Neglected لوگوں کے علاج اور نگہداشت کا ادارہ ہے تو اخوت لوگوں کو بلاسود قرض دے کر انھیں مالی مشکلات سے نکال کر اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے اور معاشرے کے کار آمد افراد بنانے کا ادارہ ہے۔ دس ہزار قرض حسنہ کی Limit اب بڑھا کر پچاس ہزار تک کر دی گئی ہے۔
قرض دینے کی تقاریب مساجد اور چرچ میں منعقد ہوتی ہیں۔ مستحق افراد کو اپنے ہمراہ دو افراد گارنٹی کے لیے لانے ہوتے ہیں کہ واپسی قرض حسب شرائط بروقت ہو گی۔ اس طرح ریکوری 99 فیصد تک ہو رہی ہے۔ قرض کی بلاسود رقم کاروبار، تعلیم، شادی، ایمرجنسی، تعمیر مکان وغیرہ کے لیے دی جاتی ہے۔یہ تنظیم ایک بورڈ آف ڈائریکٹرز کے ذریعے کام کر رہی ہے جس کے ممبر مخیر شخصیات سول سرونٹ اور بزنس مین ہیں۔
اس وقت پاکستان کے 400 شہروں میں اخوت کے دفاتر سرگرم عمل ہیں۔ اس تنظیم کا فرض اولین مستحق افراد کی مالی مدد ہے تاکہ معاشرے کے ضرورت مند افراد ملکی معیشت کو اٹھانے، تعلیم حاصل کرنے کے بعد غربت و افلاس اور ناخواندگی دور کر کے معاشرے کے مفید اور مضبوط بازو بن جائیں۔ اٹھارہ سال کی جدوجہد کے بعد اب بہت سے قرض حسنہ لینے والے خود بھی Donor بن کر فخر محسوس کر رہے ہیں۔ ''اخوت'' اب تک ستر ارب روپیہ مستحقین میں تقسیم کر چکی ہے۔ معاشرے سے غربت دور کرنے تعلیم عام کرنے اور بیماری کے خلاف جہاد کرنے والی اس تنظیم کے روح رواں ڈاکٹر امجد ثاقب سات کتب کے مصنف ہیں۔
ملکی اور بین الاقوامی سطح پر اٹھارہ ایوارڈ لے چکے ہیں' انھوں نے یونائیٹڈ نیشنز' ہارورڈ' آکسفورڈ اور کیمبرج میں پاکستان کی نمائندگی کرنے کے علاوہ وہاں اخوت کی تنظیم اور کارکردگی سے متعلق لیکچر بھی دیے۔ متعدد بین الاقوامی شہرت رکھنے والی شخصیات نے ''اخوت'' اور اس کے سربراہ کو ان کی کامیابیوں پر تعریفی پیغامات بھیجے ہیں۔ فونٹین ہاؤس اور اخوت معذور اور مجبور انسانوں کا سہارا ہیں۔