بنیاد پرستی کے زوال کا آغاز

دسمبر کا آخر اور جنوری معاشی بحران کی شدت میں کمی، سیاسی بحران میں اضافہ لائے گا


Zamrad Naqvi December 24, 2018
www.facebook.com/shah Naqvi

ISLAMABAD: بھارت کی 5 ریاستوں میں ہونے والے حالیہ انتخابات میں حکمران جماعت بی جے پی کو ایسی شکست ہوئی جس کے اثرات مستقبل میں بھارت ہی نہیں پورے خطے پر مرتب ہوں گے۔

مودی کے گزشتہ الیکشن میں شائننگ انڈیا کا نعرہ سراب نکلا۔ اوپر سے بے تحاشا مہنگائی، سرکاری،پرائیویٹ اداروں، کارخانوں سے ملازمین کی چھانٹی، قرضوں کے بھاری بوجھ تلے کسانوں کی خودکشیوں نے بی جے پی حکومت کی اصل حقیقت بے نقاب کر دی۔ ان انتخابات سے ''ذرا پہلے'' عمران خان حکومت کے کرتار پور راہداری کھولنے کے فیصلے اور ان کی تقریر کو جسے بھارت کے کروڑوں عوام نے براہ راست سنا بی جے پی کے پاکستان مخالف نعروں سے ہوا نکال دی۔ وزیراعظم عمران خان نے بھارت کو امن دوستی اور مذاکرات کی پیشکش کی، کہا کہ آگے بڑھنے کا یہی واحد راستہ ہے۔

بی جے پی کا عروج سمجھنے کے لیے ہمیں چالیس سال پہلے ماضی میں جانا پڑے گا۔ یہ وہ وقت تھا جب مسلم دنیا میں مذہبی شدت پسندی کا آغاز ہوا۔ یہ شدت پسندی امریکی سامراج کی ضرورت تھی۔ 1970ء کی دہائی میں امریکا نے افغانستان میں ایسے حالات پیدا کردیے جس کے نتیجے میں سوویت یونین کو گھیر گھار کر افغانستان میں لایا گیا اور اس میں امریکا کے مددگار اس وقت کے پاکستانی حکمران طبقات تھے۔ اس سے پہلے ایران میں مذہبی انقلاب آ چکا تھا۔ اس انقلاب نے عرب ریاستوں کو بھی تشویش میں ڈال دیا۔ اس سے پہلے ایرانی شہنشاہ مشرق وسطیٰ سے لے کر برصغیر تک امریکی مفادات کی نگہبانی کر رہا تھا۔ پورے خطے میں کسی کی مجال نہ تھی کہ وہ شہنشاہ ایران کے سامنے سر اٹھا سکے۔ ایران میں بادشاہت کے خاتمے سے مشرق وسطیٰ اور برصغیر کی جیوپولیٹیکل صورتحال میں تبدیلی آگئی۔

کافی دیر تک امریکا کو سمجھ ہی نہیں آیا کہ کیا کیا جائے۔ آخر کار امریکی اور یورپین تھنک ٹینک سر جوڑ بیٹھے۔ مسلمانوں کی ابتدائی تاریخ پر گہری نظر ڈالی تو آخر کار ان کو شیعہ سنی تضادات نظر آ گئے جس کو ہتھیار بنانے کا فیصلہ کر لیا گیا۔ چنانچہ چودہ سو سال پرانے سنی شیعہ تضادات کو ہتھیار بنا کر فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کر لیا گیا۔

تضادات تو پہلے ہی سے موجود تھے صرف اس کو مزید گہرا بنانے کی ضرورت تھی چنانچہ اس مقصد کے حصول کے لیے خوفناک پروپیگنڈا شروع کیا گیا جس کے نتائج ایسے زبردست نکلے جو امریکی سامراج کے لیے بھی حیران کن تھے۔ حقیقت یہ تھی کہ ایرانی انقلاب (جس کا چہرہ بظاہر مذہبی تھا) خطے میں سامراجی مفادات کے خلاف ایسی تحریک تھی جس کو مسلم دنیا میں پذیرائی ملتی (جو بدقسمتی سے نہیں ملی) تو مسلم دنیا امریکی غلامی سے نجات حاصل کر لیتی ۔ مسلم دنیا کے حکمران طبقات کی موجودگی میں ایسا ہونا ایک معجزہ ہی ہوتا۔ ایرانی انقلاب جس میں لاکھوں ایرانیوں نے امریکا سے نفرت کی خاطر اپنا خون دیا۔ اب تو وہ خود اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے۔ اگر وہ بچ جائے تو معجزہ ہی ہوگا۔

پاکستان پر بھی اس کا شدید اثر ہوا۔ مذہبی شدت پسندی امریکی سرپرستی میں پوری قوت سے ابھر کر سامنے آئی۔ اس شدت پسندی کی کوکھ سے القاعدہ، طالبان، داعش کو وجود میں لایا گیا۔ ضیاء الحق دور میں یہ شدت پسندی اتنی شدید تھی کہ بھارت میں بھی اس کا ردعمل ہوا۔ بھارتی اسٹیبلشمنٹ نے بھی اپنی بقا کے لیے ہندو بنیاد پرستی کو فروغ دینے کا فیصلہ کر لیا۔

آج بھارت بھی اس شدت پسندی کے ہاتھوں پریشان ہے۔ بھارتی سماج ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے اور بھارت کے لبرل اور سیکولر طبقے شدت پسندی سے جان چھڑانے کی راہیں تلاش کررہے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ آپ کے لیے یہ ناقابل یقین ہو لیکن اب امریکا بھی اپنی پالیسی تبدیل کررہا ہے اور انکشاف ہورہے ہیں کہ کیسے سوویت یونین کو شکست دینے کے لیے افغانستان کو میدان جنگ کے لیے منتخب کیا گیا اور کیسے جہادی پروان چڑھائے گئے ۔

دوسری عالمی جنگ کے فوراً بعد مسلم دنیا میں سوویت یونین کے خلاف مذہب کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کا امریکا نے فیصلہ کر لیا تھا۔ اس میں امریکا کا دست راست برطانیہ تھا جس نے اپنے طویل دور اقتدار میں ہی برصغیر کی اقوام میں مذہبی منافرت اور شدت پسندی کا بیج بو دیا تھا۔ نتیجے میں پاکستان اور بھارت کی غریب اقوام مکمل طور پر تباہ و برباد ہو گئیں۔ ذرا دونوں کا خط غربت ملاحظہ کریں۔ لگ پتہ جائے گا۔آج افغانستان بھی برباد ہے اور پاکستان پر غربت کے سائے بڑھ رہے ہیں اور یہاں نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے بلکہ ٹوٹ چکا ہے جب کہ بھارت میں ہندو انتہا پسند دندناتے پھر رہے ہیں، وہاں بھی سسٹم ٹوٹ رہا ہے لیکن ابھی ٹوٹا نہیں ہے۔اس ساری صورتحال کا سارا فائدہ امریکا اور مغربی یورپ نے اٹھایا۔

سوال یہ ہے کہ کیا بھارت میں بی جے پی کی شکست خطے میں بنیاد پرستی کے زوال کا آغاز ہے۔ یقیناً ہاں۔ اب امریکا کو اپنے مفادات کی حفاظت کے لیے کسی اور چیز کی ضرورت ہے۔ پوریی دنیا مذہبی بنیاد پرستی، شدت پسندی کی تباہیوں سے نالاں ہے۔چاہے چین، روس ہو یا پوری یورپی یونین۔ شام، افغانستان سے امریکی فوجی انخلا اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ کرتار پور بارڈر کا کھلنا اور بسنت کا تہوار، ہندو، مسلم اور سکھ اقوام کو ایک دوسرے کے قریب لائے گا۔ دوریاں قربتوں میں بدلیں گی۔ سادہ لوح بقراط مستقبل کی اس سچائی کو جاننے سمجھنے کی کوشش کریں۔ کمال کی خبر، آخری یہ کہ برصغیر کے ملکوں پر مشتمل موسیقی کا مقابلہ بھارتی مشہور گلوکارہ ایوارڈ دیں گی۔ تاریخ ہے اگلے سال 22 مارچ۔ ذرا غور فرمائیں۔

٭... دسمبر کا آخر اور جنوری معاشی بحران کی شدت میں کمی، سیاسی بحران میں اضافہ لائے گا۔

سیل فون:۔ 0346-4527997

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں