سفر کا شوق تو مجھے بچپن سے تھا۔ پہلے آس پاس کی جگہ گھوم کر ایسا لگتا تھا جیسے دنیا دیکھ لی ہو۔ مگر سچ تو یہ ہے کہ جب لمبے سفر پر نکلے تو پتا چلا کہ ہم نے کچھ بھی نہیں دیکھا۔ ہم نے گڑھی خدا بخش کو الوداع کہہ کر دریائے سندھ کو لاڑکانہ پل سے کراس کیا اور خیرپور ضلع میں داخل ہوئے۔ یہ ضلع صوفیائے کرام سے بھرا پڑا ہے۔ جگہ جگہ پیر فقیر اور مرشد کے دیدار لوگوں کو ملتے ہیں۔ ہمیں صوفیائے کرام کے مزارات کی زیارات کا شوق کہاں کہاں نہیں لے گیا۔ لیکن جب کہیں ہم جاتے ہیں تو موٹر بائیک پر۔ بائیک کے سفر کا اپنا ہی لطف اور آزادی ہوتی ہے۔ زمین اور ہوا سے تعلق استوار رہتا ہے۔ ضلع خیرپور، سندھ کے سرسبز علاقوں میں شامل ہے۔ اسے سچل کا دیس بھی کہتے ہیں۔ اس دیس سے کئی وزیر اور وزرائے اعلی ہو گزرے ہیں جیسےغوث علی شاہ اور قائم علی شاہ۔
اس بلاگ کی پچھلی تینوں اقساط یہاں پڑھئے:
ایک سفر باب الاسلام کے تاریخی مقامات کا (تیسرا حصہ)
ایک سفر باب الاسلام کے تاریخی مقامات کا (پہلی قسط)
ایک سفر باب اسلام کے تاریخی مقامات کا (دوسری قسط)
اس روز چھٹی کا دن تھا۔ سندھ کی سوہنی دھرتی میں جانے کیا دلکشی ہے کہ ان گنت صوفیوں اور شاعروں نے نہ صرف یہاں جنم لیا بلکہ متعدد بزرگ تو ایسے تھے جو صدیوں پہلے یہاں کھنچے چلے آئے اور پھر یہیں کے ہو کر رہ گئے۔ حضرت سچل سرمستؒ بھی ایسے ہی صوفی بزرگ شاعر ہیں جنہوں نے نہ صرف سندھ کی سرزمین پر قدم رکھا بلکہ آخری سانس بھی اسی سرزمین پر لی۔ دارازہ شریف میں ان کا مزار مرجع عام و خاص ہے۔ رونق سی لگی رہتی ہے۔ درویشوں نے اپنے اپنے ٹھکانے بنا رکھے ہیں اور ہمہ وقت سرمست نظر آتے ہیں۔ دوردراز سے سیاح سچل سرمستؒ کے مزار پر آتے اور اس کی دلکشی و روحانی آسودگی کا لطف لیتے ہیں۔
یہاں حکومت سندھ نے ایک لائبریری بھی قائم کی ہے جس میں ہر نوع کی کتب موجود ہیں۔ صوفی ازم میں تحقیق کی غرض سے طلبا یہاں آتے اور کتب سے استفادہ کرتے ہیں۔
سچل سرمستؒ کئی زبانوں کے شاعر تھے۔ اردو، فارسی، سرائیکی اور ہندی میں ان کا کلام آج بھی موجود ہے۔ سندھی روایات کے مطابق انہیں 'سچل سائیں' بھی کہا جاتا ہے، حالانکہ ان کا اصل نام خواجہ حافظ عبدالوہاب فاروقیؒ تھا۔ آپ خیرپور کے ایک گاؤں میں 1739 میں پیدا ہوئے۔ سچل سرمست ابھی کم عمر ہی تھے کہ والدین کا سایہ سر سے اُٹھ گیا۔ چچا نے پرورش کی اور وہی ان کے معلم بھی رہے۔ قرآن حفظ کرنے کے ساتھ ساتھ عربی، فارسی اور تصوّف کی تعلیم چچا ہی سے حاصل کی۔ گھر میں صوفیانہ ماحول تھا، اسی میں ان کی پرورش ہوئی اور یہی ساری زندگی ان کے رگ و پے میں بسا رہا۔ ان کی صاف گوئی دیکھ کر لوگ انہیں سچل یعنی ''سچ بولنے والا'' کہنے لگے۔ بعد میں ان کی شاعری کے شعلے دیکھ کر انہیں سرمست بھی کہا گیا۔
سچل سرمست کی پیدائش سندھ کے روایتی مذہبی گھرانے میں ہوئی مگر انہوں نے اپنی شاعری میں اپنی خاندانی اور اس وقت کی مذہبی روایات کو توڑ کر اپنی محفلوں میں ہندو مسلم کا فرق مٹادیا۔ ان کے عقیدت مندوں میں کئی ہندو بھی شامل ہیں۔ سچل سرمست تصوف میں وحدت الوجود کے قائل تھے۔ شاہ عبداللطیف بھٹائی اور سچل سرمست کی زندگیوں میں ستر برس کا فاصلہ ہے۔ سچل ستر برس بعد جب صوفیانہ شاعری میں آئے تو ان کا وجدان بھی منفرد تھا۔ ان کے ساتھ صوفی ازم کی موسیقی نے بھی سرمستی کا سفر کیا اور شاہ بھٹائی کے نسبتاً دھیمے لہجے والے فقیروں سے سچل کے فقیروں کا انداز بیان منفرد اور بیباک تھا۔ سچل سرمست نے سندھ کے کلہوڑا اور تالپور حکمرانوں کے ایسے دور اقتدار میں زندگی بسر کی جب مذہبی انتہا پسندی اپنے عروج پر تھی۔ انہوں نے اپنے آس پاس مذہبی نفرتوں کو دیکھ کر سندھی میں کہا:
''مذہبن ملک میں ماٹھو منجھایا، شیخی پیری بیحد بھلایا''
اس کا سادہ ترجمہ یوں ہے کہ مذہبوں نے ملک میں لوگوں کو مایوس کیا اور شیخی، پیری نے انہیں بھول بھلیوں میں ڈال دیا ہے۔
سچل سرمست عادتاً خاموش طبع اور نیک طبیعت تھے۔ شریک حیات جوانی میں ہی انتقال کرگئی تھیں۔ پھر ان کی کوئی اولاد بھی نہیں تھی اس لیے زیادہ تر تنہا اور ویرانوں میں دن گزارتے تھے۔ سچل سرمست نوّے برس کی عمر میں 14 رمضان 1242 ہجری میں وفات کر گئے۔ سچل سرمست کا کلام سندھی، اردو، عربی، فارسی اور سرائیکی میں موجود ہے۔ انہیں اور ان کا کلام سنانے والے فقیروں کو سندھ میں ایک منفرد مقام اس لیے بھی حاصل ہے کہ کسی بھی محفل میں جب بھی مذہبی انتہا پسندی کو للکارا جاتا ہے تو آج بھی سہارا سچل کا لیا جاتا ہے۔ سچل سرمست نے سندھ کے لوگوں کو اپنی شاعری میں بہت سے پیغامات دیئے جن میں بھائی چارہ اور ایک دوسرے کی عزت کا سبق ہے۔
وہ رات ہم نے ایک دوست کے مرشد کے ہاں گزاری تو وہاں ایک سو سالہ درویش سے ملاقات ہوئی۔ درویش نے بتایا کہ سچل کا فیض سرحدوں کا محتاج نہیں۔ اس فیض نے سندھ کو امن، سچائی اور محبت کا درس دیا۔ سندھ میں سب سے زیادہ والدین اپنے بچوں کے نام سچل رکھتے ہیں تاکہ وہ ہمیشہ سچ کا ساتھ دے۔ روایت ہے کہ سچل نام رکھنے سے بچے بیمار بھی کم ہوتے ہیں اور بیماریوں میں مرتے بھی کم ہیں۔ ہمارے کئی دوستوں نے اپنی اولادوں کا نام سچل اس لیے بھی رکھا ہے۔
ہم ایک ہوٹل پر چائے پینے کےلیے رکے تو چائے کا گلاس دیکھ کر حیران ہوئے۔ لمبا سا گلاس تھا جو مکمل بھرا ہوا تھا۔ اوپر بادام تیر رہے تھے۔ زبردست چائے تھی۔ دودھ کی خالص چائے۔ فی کپ ساٹھ روپے۔ مگر چائے اتنی اچھی تھی کہ اس کا ذائقہ ابھی تک تازہ ہے، سچل سرمست کے کلام کی طرح سچا اور لب سوز۔
ہم سچل سرمست کے مزار سے نکل کر شاہ عبدالطیف بھٹائی کے مزار کی طرف چل پڑے۔ راستے میں کوہلیو کی چھوٹی چھوٹی بستیاں ہمیں الوداع کہہ رہی تھیں۔ ہم شاہ صاحب کے مزار پر جب پہنچے تو اس وقت راگ چل رہا تھا۔ یہ راگ صدیوں سے ہر روز چلا آرہا ہے۔ یہ راگ کی محفل کسی بھی عظیم شخصیات کے وفات پر بھی بند نہیں ہوتی؛ اس راگ کی محفل کو کاش گنیز بک ورلڈ ریکارڈ میں شامل کیا جائے تاکہ دنیا کو پتا چلے کہ راگ کی محفل کیسے صدیوں سے جاری ہے۔ ہم تھکے ہارے اس راگ کے رنگ میں بیٹھ گئے۔
مجھے اس روز طنبورے کی تاروں سے الاپ پیدا کرنے والے شاہ لطیف کے ان فقیروں سے ملنا تھا جو برسوں سے بھٹ شاہ کو اپنی آواز کے جادو سے آباد کیے ہوئے ہیں۔ جب وہ شاہ سائیں کا کلام گاتے ہیں اور طنبورے کے تاروں کو چھیڑ کر الاپ پیدا کرتے ہیں، تو وہ کانوں میں رس گھولنے لگتا ہے۔
مزار کے اندر مختلف مقبروں پر نہایت ہی خوبصورت نقش و نگار کندہ ہیں۔ ہر سال ہزاروں لوگ، عقیدت مند اور دنیا کی رنگینیوں سے بیزار انسان یہاں آتے ہیں اور دلی سکون پاتے ہیں۔ شاہ صاحب نے مرد کے بجائے اپنے کلام کے اظہار کےلیے عورتوں کا انتخاب کیا ہے، تاکہ معاشرے کو اس بات کا احساس دلایا جاسکے کہ عورت جسے ہم کمتر سمجھتے ہیں، وہ کسی بھی طرح کمتر نہیں۔ بلکہ ہمت، حوصلے، رومان اور مشکلات کا سامنا کرنے کی علامت ہے۔
کچرے کے ڈھیر میں اپنے لیے کچھ تلاش کرتے بچے: خیرپور کا ایک عام منظر
سندھ میں درگاہیں ہی ایسے مقامات ہیں جہاں عورت اپنے آپ کو آزاد محسوس کرتی ہے، جہاں اس کے رقص کو بدپیشہ نہیں سمجھا جاتا جہاں اس کے دھمال کو ایک خراج سمجھا جاتا ہے۔ شاہ عبداللطیف بھٹائی کے مزار سے ہزاروں افراد کا روزگار بھی جڑا ہوا ہے۔ مزار جانے کےلیے گلی کے اندر پہنچے تو رنگین دکانیں دکھائی دیں جن پر مختلف قسم کی مٹھائیاں، چادریں، پھول پتیاں نہایت ہی سلیقے سے سجا رکھی گئی تھیں اور دکانوں پر موجود ہر فرد کی یہ کوشش تھی کہ گلی میں اندر آنے والا ہر فرد ان کی دکان سے کچھ نہ کچھ خریداری کرے۔ شاہ عبدالطیف بھٹائی نے اپنی شاعری میں ماہی گیروں، لوہاروں، چرواہوں، کسانوں، سنیاسوں کا خصوصی ذکر کیا۔
آپ نے سندھی زبان، ادب، ثقافت، رومانوی داستانوں اور ثقافتی پہلوؤں کو اسلامی سانچے میں بڑی خوبصورتی سے ڈھالا ہے۔ وہاں کے مقامی فنکاروں کے بقول، شاہ جو رسالو میں روایتی طور پر تیس سُر ہیں۔ شاہ جو رسالو میں محبت کی سات داستانیں ہیں جو مارئی، مومل، سسی، نوری، سوہنی، سورٹھ اور لیلا نامی خواتین کے کرداروں کی جرأت، بہادری، ہمت، پیار، اخوت اور وطن سے محبت کے جذبے کو احسن طریقے سے بیان کرتی ہیں۔
شاہ عبداللطیف بھٹائی کی شاعری میں بلوچوں کی بہادری، جواں مردی کا خوب ذکر کیا، اِن سُروں میں انہوں نے بلوچی زبان کے الفاظ کثرت سے استعمال کیے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جب کیچ اور بھنبھور کے تعلق، میر عالی ہوت کے بیٹے پنّوں کے عشق اور سسی کی چاہت، محبت، عشق اور جدائی کے لمحات کی آہ وزاری اور تکالیف کو بیان کرتا ہے، وہ کہتے ہیں:
لے گئے میرے پریتم کو، وہ ظالم دیور جام
دیا تھا آن کے ہوت پنہل کو ''آری'' کا پیغام
سب نے ایسی کی تھی سازش، ڈالا تھا اک دام
دھوکے سے وہ لے گئے سکھیو! میرا ہوت وریام
ظلم کےلیے ہرگام اٹھایا، ان شہہ زور جتوں نے
(شاہ جو رسالو)
شاہ بھٹائی، شاہ جو رسالو میں بلوچستان کے پہاڑوں، پہاڑی چوٹیوں، آب و ہَوا اور ماحول کا دلکش انداز میں ذکر کرتے ہیں۔ بھٹ شاہ کے شہر کی خاص بات یہ ہے کہ پاکستان کی ثقافت کو دنیا بھر میں روشناس کرانے والے کمہاروں کی ایک بڑی تعداد اس شہر میں موجود ہے جن کے ہاتھ سے بنے مٹی کے برتن یہاں کے ماہر کاریگروں کی محنت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ ہم نے شاہ بھٹائی کی دھرتی کو رات کے اندھیرے میں الوداع کہا اور حیدرآبار کی طرف چل پڑے جہاں کچھ اور دوست ہمارے انتظار میں تھے۔
جاری ہے
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔