قائد کے سامنے

ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ جس جس نے جو جو اور جب جب اور جتنا کچھ اچھا کیا ہے


Amjad Islam Amjad December 27, 2018
[email protected]

ابھی ابھی میں ایک ٹی وی ٹاک شو میں بذریعہ فون شامل تھا جس کا موضوع ''قائد نے ہمیں کیا دیا اور ہم نے اس کی کیسے قدر کی یا نہیں کی'' قسم کا تھا۔ اس سے ملتے جلتے پروگرام تقریباً ہر چینل پر پیش کیے گئے کہ 2018 کا یہ 25 دسمبر قائداعظم محمد علی جناح کا 143 واں یوم پیدائش تھا۔ اتفاق سے آج اپنے الفلاح انشورنس والے برادرم نصر الصمد قریشی کی بیٹی کی شادی میں جس میز پر بیٹھنا ہوا وہاں بھی یہی بات قدرے مختلف تناظر میں چل رہی تھی۔

کینیڈا سے آئے ہوئے ان کے کچھ عزیز بتارہے تھے کہ وہ جب بھی پاکستان آتے ہیں یہاں کے ماحول، مسائل، عوام کے اجتماعی طرز عمل اور سیاست کی پست سطح دیکھ کر ان کا دل اور زیادہ گھبرانے لگتا ہے اور وہ یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ یہ وہ پاکستان نہیں جس کا خواب قائد نے دیکھا تھا اور یہ کہ یورپ اور امریکا میں رہنے والے پاکستانیوں کو اس صورت حال سے نہ صرف بہت تشویش ہوتی ہے بلکہ انھیں یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ ہم اس تیز رفتار دنیا میں آگے بڑھنے کے بجائے مسلسل پیچھے کی طرف ہٹتے جارہے ہیں اور یہ سب کیا دھرا ہمارے سیاستدانوں کا ہے جنہوں نے قائد کی فکر اور وژن سے نہ صرف یہ کہ کچھ سیکھا نہیں بلکہ الٹا ان کے اعتماد کو دھوکا دیا ہے۔ میں نے عرض کیا اگر ایسا ہے تو پھر ہم سب کے سب سیاستدان ہیںکیونکہ یہ کام تو ہماری قومی زندگی کے ہر شعبے میں ہوا ہے فرق صرف اتنا ہے کہ سیاستدانوں پر اس کی ذمے داری براہ راست پڑی اور باقیوں نے اپنے لیے کوئی نہ کوئی آڑ تراش لی۔

اس میں شبہ نہیں کہ ہم نے بحیثیت قوم اس کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کیا جوکہ قائد کے وژن پر عمل کرنے کی صورت میں ممکن تھا لیکن یہ عمل اتنا سادہ نہیں ہے کہ اس کے Stake Holders میں ہمارے علاوہ ہماری تاریخ، جغرافیہ، دور اور نزدیک کے ہمسائے، تعلیم کی کمی، مذہبی قضیے اور انتہائی تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا کے مسائل بھی شامل ہیں۔ یہ نہیں کہ قائد کو اس بات کا ادراک نہیں تھا۔ ان کی نہ صرف تاریخ عالم پر بہت گہری نظر تھی بلکہ انھیں اس بات کا بھی غیر معمولی شعور اور احساس تھا کہ یورپی ملکوں کے درمیان ہونے والی نو آبادیات پر قبضے کی کشاکش، تجارتی مفادات اور تیسری دنیا کے غلام ممالک میں آزادی کی تحریکوں کی وجہ سے دنیا ایک نئے دور میں داخل ہونے والی ہے۔ ایک ایسی دنیا جس کے معیارات بھی اس کی طرح نئے اور مختلف ہوں گے۔

وہ یہ بھی بخوبی جانتے تھے کہ جس ملک کے قیام اور آزادی کے لیے وہ جدوجہد کررہے ہیں اس کو کس کس طرح کے مسائل پیش آسکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اپنی 11 اگست والی مشہور تقریر کے علاوہ بھی آزادی فکر و عمل، آزادیٔ رائے، انصاف، متوقع کرپشن اور انسانی حقوق کے بارے میں بہت کھل کر باتیں کیں۔ بدقسمتی سے ان کے بعد آنے والوں نے (اور ان بعد میں آنے والوں میں زندگی کا ہر شعبہ شامل ہے) کچھ اصلی اور کچھ غیر متوقع وجوہات کے باعث اس طرف بروقت توجہ نہیں دی اور یوں ہم ایک ایسے رستے پر چل پڑے جہاں محنت، ایثار، قربانی اور احساس ذمے داری کی جگہ بے عملی، تعصب، خود غرضی اور الزام تراشی نے لے لی اور اسی عالم میں ستر برس گزرگئے لیکن ایسا بھی نہیں کہ ان ستر برسوں میں ہم نے کچھ بھی اچھا اور ٹھیک نہ کیا ہو۔

ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ جس جس نے جو جو اور جب جب اور جتنا کچھ اچھا کیا ہے اس کو تسلیم کرتے ہوئے انصاف کے ساتھ ہر ایک کا جائز حق اس کو دیا جائے اور ''اچھائی'' کے ان بے ترتیب واقعات کو ایک رواں دواں اور زندگی آموز کہانی کا تسلسل دیا جائے۔ قائد کی نمایاں ترین خصوصیات میں امید، انصاف، اچھی سوچ، منصوبہ بندی اور اپنے آپ پر اعتماد کرنا شامل تھا۔ سو آج کے دن کے حوالے سے ہمیں ان کا دیا اور اپنا بھولا ہوا یہی سبق یاد کرنے کی ضرورت ہے۔ بہت کچھ بگڑنے کے باوجود ابھی سب کچھ نہیں بگڑا اور جو بگڑا ہے وہ بہت حد تک درست ہوسکتا ہے۔ مگر اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم قائد کی طرف واپس جائیں، ان کے سامنے دو زانو ہوکر بیٹھیں اور دیکھیں کہ وہ کس بات پر مسکراتے ہیں اور کہاں ان کے چہرے کا رنگ بدل جاتا ہے۔ چند برس قبل اس سے ملتا جلتا ایک تجربہ مجھے زیارت ریذیڈنسی میں کچھ وقت گزارنے کے درمیان ہوا تھا جو بعد میں ایک نظم کی شکل میں ڈھل گیا۔ آئیے ایک نظر اس نظم کے توسط سے اس پاکستان کو دیکھیں جو قائداعظم نے سوچا، دیکھا اور بنانا چاہا تھا۔

یہیں کہیں تھی وہ خوشبو کہ جس کے ہونے سے

ہمیں بہار کے آنے کا اعتبار آیا

یہیں کہیں تھا وہ بادل کہ جس کے سائے میں

نجانے کتنی ہی صدیوں کے دھوپ کھائے ہوئے

ہر ایک دل کو، ہر اک جان کو قرار آیا

یہیں کہیں تھا وہ بستر کہ جس کی ہر سلوٹ

گماں میں رینگتے خدشوں کی اک گواہی تھی

وہ دیکھتا تھا انھی کھڑکیوں کے شیشوں سے

سنہری دھوپ کے دامن میں جو سیاہی تھی

وہی فضا، وہی منظر ہے اور وہی موسم

پھر آج جیسے ستاروں سے بھرگئی ہے رات

اتر رہی ہے تھکن، بے جہت مسافت کی

مہک رہی ہے سماعت میں اس کی ایک اک بات

ابھر رہی ہے کہیں دور سے وہی منزل

کہ جس کو بھولے ہوئے ہم کو اک زمانہ ہوا

یہیں کہیں پہ وہ لمحہ کھڑا ہے بارِ دگر

کہ جس نے بھیڑ کو اک قافلے کی صورت دی

پھر اس کے سائے میں وہ کارواں روانہ ہوا

کروں میں بند جو آنکھیں تو ایسا لگتا ہے

کہ جیسے رکھا ہو اس نے دل حزیں پر ہاتھ

یہیں کہیں پہ جو اس کے لبوں سے نکلی تھی

اُسی دعا کا اثر چل رہا ہے میرے ساتھ

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔