ایک فسانہ ایک حقیقت
اس افسانے کا خلاصہ کچھ یوں تھا کہ گاؤں میں ایک کسان ہوتا ہے، جس کی بیوی فوت ہوچکی ہے
QUETTA/
PESHAWAR/
ISLAMABAD/
لاہور/
KARACHI:
کوئی لکھاری جب کوئی تحریر لکھنے کا قصد کرتا ہے تو اس وقت وہ لکھاری یہ دعویٰ ہرگز نہیں کرسکتا کہ وہ جو لکھنے جا رہا ہے، یہ اس کی یادگار یا شاہکار تحریر ہوگی ۔ البتہ اس تحریرکے معیار کا اس وقت فیصلہ ہوتا ہے جب وہ تحریر تمام مراحل سے گزر کرکسی قاری کے ذوق مطالعہ کی تسکین کرتی ہے ۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ اس تحریرکے معیار کا فیصلہ ناقدین کئی برس بعد کرتے ہیں ، البتہ یہ بھی ایک صداقت ہے کہ بہت کم تحریریں ہوتی ہیں جوکہ ذہن پر دیرپا یا تاحیات اپنے نقوش چھوڑ جاتی ہیں چنانچہ ایسی ہی ایک تحریر میں نے آج سے کوئی 39 برس قبل ایک اخبارکے ادبی صفحے پر پڑھی تھی یہ ضرور تھا کہ وہ تحریر پنجابی زبان میں تحریرکردہ افسانہ تھی جوکہ آج بھی طویل عرصے بعد میرے ذہن پر نقش ہے۔
اس افسانے کا خلاصہ کچھ یوں تھا کہ گاؤں میں ایک کسان ہوتا ہے، جس کی بیوی فوت ہوچکی ہے، البتہ دو بیٹیاں اپنے شوہرکے پاس چھوڑ جاتی ہے ، وہ کسان مقدور بھر اپنی بیٹیوں کی تربیت کرتا ہے اور پھر عہد شباب میں قدم رکھنے پر اپنی بڑی بیٹی کی شادی دورکے کسی گاؤں میں کردیتا ہے۔ وقت کی رفتار جاری رہتی ہے، اس کسان کی بیٹی کے ہاں چار بچوں کی ولادت ہو جاتی ہے جب کہ دوسری جانب اس کی چھوٹی بیٹی بھی عہد شباب کی عمرکو چھو لیتی ہے البتہ اس وقت حالات یہ کروٹ بدلتے ہیں کہ اس کسان کی بڑی بیٹی وفات پا جاتی ہے اس وقت مسئلہ یہ درپیش ہوتا ہے کہ اس کسان کے چار پھول سے نواسوں کی تربیت کیسے ہو پائے گی چنانچہ وہ کسان اپنی برادری کے مشاورت سے یہ فیصلہ کرتا ہے کہ وہ اپنی چھوٹی بیٹی کا نکاح اپنے داماد سے کردے گا۔
اگرچہ اس کسان کی چھوٹی بیٹی اس بے جوڑ رشتے سے کسی طور خوش نہیں ہوتی مگر اپنے باپ کی خواہش کے سامنے سر تسلیم کردیتی ہے یوں وہ کسان بھی مطمئن ہوجاتا ہے کہ اب اس کے نواسوں کی بہتر تربیت ہو پائے گی آخر ان بچوں کی تربیت ان کی سگی خالہ جو کرے گی چنانچہ انھی حالات میں اس کسان کی چھوٹی بیٹی اپنے شوہر و سابقہ بہنوئی کے گھر آ مقیم ہوتی ہے۔ وقت کا پنچھی محو پرواز رہتا ہے اور ایک روز وہ کسان اپنی بیٹی کے گھر آتا ہے اور اس کسان کے ہمراہ ایک بچھیا بھی ہوتی ہے۔
چنانچہ وہ بیٹی اپنے کسان باپ سے دوران گفتگو دریافت کرتی ہے کہ بابا یہ تمہارے ساتھ بچھیا کیوں ہے؟ اپنی بیٹی کے بچھیا کے بابت سوال پر جواب دیتا ہے کہ بیٹی مسئلہ یہ درپیش ہے کہ میرا ایک بیل مرگیا ہے اور میں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ صبح مویشی منڈی جاکر یہ بچھیا فروخت کرکے جو رقم حاصل ہوگی اس رقم میں مزید رقم ڈال کر ایک بیل خرید لاؤں گا تاکہ دونوں بیل برابر کے ہوجائیں گے تو میرے کھیتوں میں بہتر طریقے سے ہل چلا پاؤں گا ۔ کسان باپ جب اپنی بات ختم کرتا ہے تو اس کسان کی بیٹی اپنے باپ سے کہتی ہے '' بابا کیا یہ مناسب نہ ہوتا کہ اس بچھیا کو بیل کے ساتھ ہل میں جوت لیتے'' اپنی بیٹی کی بات پر وہ کسان جواب میں کہتا ہے ''بیٹی تو بھی پگلی ہے بھلا یہ بچھیا اس بیل کے برابر کیسے چل پائے گی، کیا یہ ظلم نہ ہوگا کہ ایک بچھیا کو ایک کڑیل بیل کے برابر ہل میں جوت دیا جائے ہل تو تبھی ٹھیک سے چلتی ہے جب دونوں جانور مساوی قوت کے حامل ہوں گے۔''
اپنے باپ کے منہ سے یہ بات سن کر وہ اس سوچ میں پڑجاتی ہے کہ اس بات کا تو خیال رکھا جاتا ہے کہ دونوں جانور برابر کے ہوں تو ہل بہتر طریقے سے چلایا جاسکتا ہے ،کاش انسانوں کے ازدواجی رشتے قائم کرتے وقت بھی دونوں انسانوں کی مساوی عمر کو مدنظر رکھا جائے، اسی کے ساتھ اس کی آنکھوں سے اشک رواں ہوجاتے ہیں۔
بلاشبہ یہ ایک افسانہ ہے اب ایک حقیقت کا بھی تذکرہ ملاحظہ فرمالیں وہ ایک بزاز تھا جوکہ کپڑوں کا گٹھہ سائیکل پر رکھ کر گاؤں گاؤں گلی گلی کپڑے فروخت کرتا اور اپنے اہل وعیال کے گزر بسر کا سامان کرتا ،چنانچہ اسی سلسلے میں ایک گاؤں میں کپڑا فروخت کرنے کے لیے آوازیں لگا رہا تھا کہ ایک گھر سے ایک خاتون نے اسے اپنے گھر بلایا اور کپڑے کا گٹھہ رکھنے کے لیے ایک چارپائی بچھا دی، اس بزاز نے کپڑے کا گٹھہ چارپائی پر رکھا اور گٹھان کھول کر کپڑے کے تھان اس خاتون کے سامنے رکھنے لگا گھر کی اور پاس پڑوس کی خواتین کی آمد شروع ہوگئی جیسے کہ اس وقت کی روایت تھی البتہ آواز دے کر اپنے گھر بلانے والی وہ خاتون کسی اور ہی خیال میں گم ہوچکی تھی۔ چنانچہ اس خاتون نے اس بزاز سے سوال کر ڈالا کہ بزرگوار ایک سوال کا جواب دیں گے؟
اس بزاز سے اجازت پاکر اس خاتون نے بزاز سے پوچھا کہ کیا یہ سچ ہے کہ آج سے کوئی 30 برس قبل آپ کی کوئی بیٹی گم ہوگئی تھی؟ اس خاتون کا یہ دریافت کرنا تھا کہ وہ بزاز گویا تڑپ اٹھا اور پلٹ کر اس خاتون سے سوال کر ڈالا کہ ''تم نے کیوں یہ سوال کیا آخر تمہارا مقصد کیا ہے؟'' اس خاتون کے اصرار پر اس بزاز نے یہ تفصیلات بیان کیں وہ یہ تھیں کہ آج سے کوئی 30 برس قبل کا ذکر ہے جب میں سسرال دوسرے گاؤں جا رہا تھا تو میری ایک چھ سالہ بیٹی جب کہ دوسری تین سالہ بیٹی میرے ساتھ ضد کرنے لگیں کہ ہم بھی نانی کے پاس جائیں گے میں دونوں کو اپنے ساتھ گلی کے کونے تک اپنے ساتھ لایا اور بہلانے کے لیے دونوں کو دکان سے چیز دلائی اور یہ تلقین کی کہ اب تم دونوں گھر چلی جاؤ یہ کہہ کر میں اپنی سائیکل پر سوار ہوا اور سسرال گاؤں روانہ ہوگیا حسب روایت سسرال میں خوب آؤ بھگت ہوئی تین روز خوب مہمان داری سے لطف اندوز ہوا ۔
بالآخر تین روز بعد گھر واپس آیا تو میری بیوی نے مجھے دیکھتے ہی یہ سوال کردیا کہ بچیاں کیا ننھیال میں رک گئیں جو تمہارے ساتھ نہیں آئیں یہ سننا تھا کہ میرے پاؤں کے نیچے سے گویا زمین نکل گئی میں نے گھبراہٹ کے عالم میں کہا کہ میں تو بچیوں کو اپنے ساتھ لے کر ہی نہیں گیا بلکہ دونوں بچیوں کو چیز دلا کر گلی کے کونے پر یہ تلقین کرکے چھوڑ گیا تھا کہ سیدھی گھر جانا۔ اس کے بعد میرے گھر میں تو کیا گویا پورے شہر میں ایک کہرام مچ گیا کہ آخر میری دونوں بچیاں زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا۔ بہت تلاش کیا مگر ناکام رہا تمام روئیداد سننے کے بعد اس خاتون نے اس بزاز کو پوری قوت سے ''ابو'' کہا اور اس سے لپٹ گئی پورے شہر میں یہ خبر خوشگوار حیرت کے ساتھ سنی گئی کہ بزاز کی ایک گمشدہ بیٹی مل گئی ہے۔
البتہ اس وقت تین برس کی عمر میں گم ہونے والی اپنی بہن کے بارے میں اس بزاز کی بیٹی کچھ بھی بتانے سے قاصر تھی، پورا گھرانہ خوش تھا کہ چلو ایک گمشدہ بیٹی تو مل گئی ملاقاتوں کا سلسلہ جاری تھا کہ ایک روز وہ بزاز اپنے گھر آئی بیٹی سے یوں مخاطب ہوا کہ ''بیٹی تم میرے گھر نہ آیا کرو کیونکہ تمہاری شادی غیر برادری میں ہوچکی ہے اور تمہارا ایک بیٹا بھی ہے ٹھیک ہے کہ تمہارے سسرال والوں نے ہی تمہاری پرورش کی ہے مگر میں پسند نہیں کرتا کہ غیر برادری کا آدمی میرے گھر میں داماد کی حیثیت سے آئے'' یہ سن کر 30 برس بعد اپنے والدین سے ملنے والی بیٹی اپنے والد کے گھر سے اشک بار آنکھوں سے روانہ ہوگئی۔
لمحہ فکریہ ہے کہ کب تک بے جوڑ شادیاں ہوتی رہیں گی کب تک ذات برادری قبائلی نظام کی آڑ میں اپنی ہی بچیوں پر ظلم و جبر کرتے رہیں گے۔ کب تک؟