پانی کی کہانی
ایسا کیسے ممکن ہے کہ ایک ہی علاقے کا ایک حصہ مکمل پانی سے محروم رہے جب کہ دوسرا حصہ پانی سے فیض یاب رہے
پاکستان کے کئی علاقوں میں پانی کی کمی کے باعث مسائل بڑھتے جا رہے ہیں ، بلوچستان اور صوبہ سندھ میں یہ صورتحال خاصی گمبھیر ہو چکی ہے۔ ان حالات میں ادارے کس طرح کی کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں، یہ سوال بہت اہم ہے ۔
حال ہی میں ایک رپورٹ سامنے آئی جس کے مطابق قطب شمالی اور قطب جنوبی میں برف کے ذخائر پگھل رہے ہیں۔ تیزی سے پگھلتے یہ گلیشیئرز جو بڑے بڑے پہاڑوں کی صورت میں تھے، گویا زمین کے لیے میٹھے پانی کے ذخائر تھے۔ یہ میٹھے پانی کے بڑے اسٹور ہاؤس اب گلوبل وارمنگ کے باعث اپنی ہیئت کھو کر پتلے ہوتے جا رہے ہیں۔ ان کا پانی دریاؤں کے راستے بہہ کر سمندر میں چلا جاتا ہے اس وجہ سے زمین میں قدرتی طور پر میٹھے پانی کے ذخائرکم ہوتے جا رہے ہیں ۔ یہ کمی واضح طور پر محسوس کی جا رہی ہے جس کا اثر ہم پچھلے چند برسوں سے زیادہ دیکھ رہے ہیں ۔
کراچی میں پانی کی کمی ایک دیوہیکل مسئلہ بن چکا ہے۔ اس میں کون کون سے عوامل شامل ہیں جو اس مسئلے کے وجود میں مستقل اضافہ کر رہے ہیں اسے ہم جانتے ہیں لیکن حل کے لیے ہمارے پاس کچھ بھی نہیں سوائے گلہ کرنے کے۔
مثلاً کراچی کا ایک ایسا علاقہ ہے جہاں آبادی تیزی سے بڑھتی جا رہی ہے، پانی کی کمی کا مسئلہ یہاں اول دن سے ہی رہا ہے۔ لیکن یہاں مختلف بلاکس میں پانی کی صورتحال حیران کن ہے۔ ایک ہی بلاک کے ایک حصے میں پانی کمیاب ہے تو دوسرے حصے میں فراوانی ہے۔ پتہ چلا یہاں یہ کارگزاری ہمارے اپنے محکمے کے لوگوں کی بدولت ہے جنھیں ماہانہ تنخواہ تو سرکار دیتی ہے لیکن اس کے علاوہ بھی ایک خطیر رقم ملتی ہے کیونکہ وہ اس علاقے کے مخصوص بلاک میں پانی کی فراوانی کو ممکن بناتے ہیں۔ جب کہ ایک ہی گلی کے فاصلے پر پانی کی تنگی کے باعث کنوئیں کھو دے جا رہے ہیں یا مجبور لوگ بھاری قیمت پر پانی کے ٹینکرز ڈلوا رہے ہیں۔ یہ صورتحال کسی ایک مخصوص جگہ پر نہیں ہے بلکہ کئی مقامات پر یہ کام جاری ہے۔
''ہمارے یہاں پہلے پانی کی بہت تنگی تھی یونین کو ٹینکرز ڈلوانے پڑتے تھے لیکن اب شکر ہے کہ میٹھا پانی لائن کا آ رہا ہے۔''
''کیا پانی کی نئی لائن ڈلوائی ہے؟''
''ارے نہیں بلکہ اسی ہزار روپیہ مہینہ دے رہے ہیں یونین والے۔''
''اسی ہزار روپے مہینہ۔۔۔۔۔پر کیا ہر مہینے؟''
''ہاں ہر مہینے۔۔۔۔ظاہر ہے اتنے فلیٹ ہیں۔''
ذرا حساب لگائیے اگر ہر دوسرے تیسرے روز پانی کے ٹینکرز ڈلوائے جائیں تو رقم اسی ہزار روپوں سے کہیں تجاوز کر جائے، ایسے میں اسی ہزار روپے کم نہیں ہیں آخر ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ یہ کون کر رہا ہے؟ ان سوالوں کے جواب کیا بہت مشکل ہیں لیکن اس کا حل ہمارے پاس نہیں ہے۔
بڑھتی ہوئی آبادی اور تعمیرات کے شور میں پانی بجلی اور گیس جیسی ضروریات خاصی قابل توجہ ہیں لیکن چائنا کٹنگ کی مانند یہاں بھی کچھ ایسی ہی صورتحال ہے۔ حال ہی میں کراچی میں سپریم کورٹ کی جانب سے بلند تعمیرات کے حوالے سے ایک اچھی خبر بلڈرز حضرات کے لیے آئی ہے۔ وہیں پانی بجلی اور گیس کی منصفانہ تقسیم پر بھی سوال اٹھ رہے ہیں کہ کیا ایسے پروجیکٹس کو ضروریات زندگی کی سہولیات حاصل کرنے میں آسانی رہے گی؟
کراچی کے ایک زون کے اس علاقے میں پانی کی شدید قلت کا مسئلہ تھا۔ علاقہ مکینوں کے مطابق چند برسوں پیشتر یہ کمی نہ تھی لیکن بتدریج کم ہوتے ہوتے پانی آنے کا سلسلہ ہی منقطع ہو گیا جب کہ پانی کے بل مستقل کی بنیاد پر ماہانہ گھروں پر ڈالے جا رہے ہیں۔ اس گمبھیر صورتحال پر متعلقہ اداروں سے احتجاج کیا گیا لیکن جب کچھ حاصل نہ ہوا تو اپنی مدد آپ کے تحت کام کروانے کی سوچی گئی اور کھدائی کروائی گئی تو پتہ چلا کہ اس علاقے کی پانی کی فراہمی کے پائپ کو باقاعدہ مخصوص قسم کے ٹیپ سے بند کیا گیا تھا جسے کھولنے کے بعد پانی کا سلسلہ شروع ہو گیا۔
اس پانی کی کہانی میں بہت سے کردار ملوث ہیں لیکن انھیں بے نقاب کرنے اور جرم عائد کر کے سزا سنانے والے ابھی پردہ سیمیں پر نہیں نظر آ رہے ہیں۔ لیکن صورت حال یہ ہے کہ گلیاں اور محلے پانی کے بڑے بڑے ٹینکرز کی آمد و رفت کے باعث خطرناک ہو گئے ہیں۔ سڑکوں پر گٹروں کے ڈھکن ٹوٹ رہے ہیں لوگوں کی شکایات ہیں کہ طویل قطاروں میں لگ کر ٹینکر بک کروانے کے بعد بھی اس کے آنے کا کوئی وقت مقرر نہیں ہوتا۔ خاص کر تنگ گلیوں میں بڑے بڑے پانی کے ٹینکرز کا داخل ہونا علاقے کے لوگوں کے لیے سخت اذیت کا باعث ہوتا ہے۔ کئی لوگ شکایت کرتے نظر آتے ہیں کہ پانی کے ٹینکر نے ان کی کھڑی اسکوٹر یا گاڑی کو ٹکر مار دی۔
ایسا کیسے ممکن ہے کہ ایک ہی علاقے کا ایک حصہ مکمل پانی سے محروم رہے جب کہ دوسرا حصہ پانی سے فیض یاب رہے۔ کہیں مہینوں نلکے خشک رہیں تو کہیں دوسرے تیسرے دن ہی مشینیں پانی بہاتی رہیں۔ پانی کے اس مسئلے کا کیا حل ہے؟ پانی کے بلوں کی ادائیگی کے باوجود لوگ والو مین کی جانب امید سے تکتے رہے کہ کب آئے اور والو کھولے، کرپشن کی کوئی کہانی کدھر سے پھوٹتی ہے اور کیا رنگ دکھاتی ہے۔ ترقی کے اس سفر میں کیسی کیسی تراکیب کیسے کیسے حربے ہیں عوام کو اذیت دینے کے خدا ہم سب کو نیک ہدایت دے ۔(آمین)۷