وہ ہمیں حال ہی میں چھوڑگئے

وہ دن جلد آنے والا ہے، جب تخت گرائے جائیں گے، تاج اچھالے جائیں گے


Zuber Rehman December 30, 2018
[email protected]

ISLAMABAD: ویسے تو اس دنیا سے روزانہ سیکڑوں لوگ ہمیں چھوڑ جاتے ہیں، مگر ان میں سے ایسے بھی لوگ ہیں، جو اپنی زندگی کوکسی مقصد کے لیے وقف کردیتے ہیں، میں پاکستان میں ان چند لوگوں کا ذکرکروں گا، جوکئی ہفتے ہوئے ہمیں چھوڑگئے، انھوں نے اپنی ساری زندگی محنت کشوں، پیداواری قوتوں، محکوم لوگوں اور شہریوں کے لیے تج دی تھی۔

ان ہی میں سے ایک فانوس گوجر تھے، جنھیں میں ذاتی طور پر تقریبا تیس برس سے جانتا ہوں، وہ زمانہ طالب علمی میں ڈی ایس ایف میں سرگرم رہے ۔ پھر بائیں بازوکی مختلف جماعتوں میں سرگرم رہے اور عوام کی رہنمائی کرتے رہے۔کئی جماعتوں میں میں نے اور انھوں نے ایک سا تھ کام کیا۔

خاص کر پاکستان عوامی پارٹی میں فانوس گوجر صدر تھے اور میں جنرل سیکریٹری تھا۔ ہم دونوں نے ایک ساتھ بنگلہ دیش کا دورہ کیا۔ بنگلہ دیش کے بائیں بازوکی سات جماعتوں کے اتحاد نے کمیونسٹ پارٹی آف بنگلہ دیش کے دفتر میں ہمیں ایک استقبالیہ دیا ۔ فانوس گوجر نے اردو میں تقریرکی تھی اور میں نے بنگلہ زبان میں ترجمہ کیا تھا۔ جنرل ضیا الحق کی آمریت میں ان پر اتنا جسمانی تشدد ہوا کہ وہ اپنے ایک گردے سے محروم ہوگئے۔دوسرے گردے کا ٹرانس پلانٹ اسی سال ہوا تھا،اس سے وہ جانبر تو ہوگئے مگر چند ماہ بعد ہی ہم سے جدا ہوگئے۔آخری ایام میں وہ پاکستان ورکرز پارٹی کے صدر تھے۔ اسلام آباد میں جب ان کا ٹرانس پلانٹ ہو رہا تھا تو میں نے ان کی زندگی پر ایک مضمون بھی لکھا تھا ۔

دوسری ساتھی انقلابی شاعرہ اور ادیبہ فہمیدہ ریاض ہم سے جدا ہوگئیں ۔ انھیں بھی میں تیس سال سے زیادہ عرصے سے جانتا تھا ، وہ اپنی شاعری اور فن کے ذریعے محنت کش عوام کے خون کوگرماتی رہیں۔کمیونسٹ نظام پر ان کا پرعزم یقین تھا کہ ایک روز اس سرمایہ داری کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں گے ۔ نہ جانے کتنے نوجوانوں، مزدوروں، خواتین اورکسانوں نے ان کی انقلابی نظموں سے شعور اور آگہی حاصل کی اور انقلابی دھارے میں جڑگئے۔ان کی تحریریں ہمارے لیے آج بھی مشعل راہ ہیں۔

تیسرے ساتھی مستانہ اقبال بلوچ بھی ہم سے بچھڑگئے ۔ وہ پہلے دائیں بازوکے نظریے سے قریب تر تھے لیکن اسمٰعیل بروہی مرحوم اور بابو لادوکی قربت سے کمیونسٹ نظریے کے حامی بن گئے۔ وہ کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے کارکن رہے، محنت کشوں کی بستی ماڑی پور میں رہائش پذیر تھے۔ ان کا بیٹا اکرم آج بھی اپنے والدکے نظریے پر قائم ہے۔ مستانہ اقبال بلوچی، براہوی ، سرائیکی، پنجابی، فارسی اور اردو روانی سے بولتے تھے۔ بیک وقت درزی ، سی مین ، الیکٹریشن ، پلمبر، راج مستری بھی تھے ۔ اردوکے نئے دریافت شدہ الفاظ اردو ڈکشنری بورڈ کو پہنچاتے تھے۔اقبال کی محنت کش عوام کے لیے خدمات کوکبھی بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا ہے۔ چوتھے ساتھی شفیع الدین اشرف ہیں، جنھیں راقم الحروف چالیس سال سے جانتا ہے، وہ کمیونسٹ پارٹی کے کارکن بھی رہے ۔

میری پہلی ملا قات تب ہوئی جب وہ روزنامہ ڈان میں پروف ریڈر تھے ۔ صحافت میں وہ عبدالقدوس کے شاگرد تھے۔ پہلے توکارکن کے طور پر صحافیوں کے حقوق کے لیے کام کرتے رہے، بعد ازاں ہیرالڈ ورکرز یونین کے جنرل سیکریٹری منتخب ہوئے۔ ہیرالڈ کی یونین میں ان کی جوڑی خورشید تنویرکے ساتھ ایک عرصے تک رہی ۔ یہ دونوں ساتھی مشرقی پاکستان سے کراچی آئے تھے۔آخری وقت تک وہ صحافیوں اورکارکنوں کی ملک گیر تنظیم ایپنک کے چئیرمین رہے۔کبھی بھی سمجھوتہ نہیں کیا۔ ان کے داماد آصف رفیق بھی ترقی پسند کارکن ہیں اور ایک جامعہ میں افسر ہیں۔

میرا ان سے رشتہ ذاتی کم اور سیاسی زیادہ تھا ۔ پانچواں ساتھی بنگلہ دیش کا ہے جس نے تقریبا چار سو فلموں کی کہانیاں لکھی ہیں ، وہ ہے جہانگیر حسین خان مکتا، فلمی نام جوسیف شوتابدی ۔ وہ طالبعلمی کے زمانے میں نکشال باڑی تحریک سے متاثر تھے بعد ازاں بنگلہ دیش ورکرز پارٹی کے ہمدرد بن گئے۔ ساری عمرعوام کی زندگی کو مثبت اور بہتر پہلو میں بدلنے کی کوشش میں فلمی کہانیاں لکھتے رہے اور تادم مرگ انھیں کاوشوں کے دوران ہی ان کی موت ہوئی۔ بنگلہ دیش کے بائیں بازوکی جماعتوں، مزدوروں،کسا نوں، خواتین اور طلبہ میں غم کی لہر دوڑگئی، چونکہ ہم نویں جماعت سے بارہویں جماعت تک ساتھ پڑھے تو غم کا بوجھ کچھ زیادہ ہی ہونا، ایک فطری عمل ہے۔

چھٹے ساتھی شاہجہاں کا تعلق ملیر سے تھا، وہ بھی گزشتہ دنوں انتقال کرگئے۔ ساری زندگی ترقی پسندی اور انقلاب کے لیے جدوجہد کرتے رہے ۔ساتویں ساتھی مقتدا منصور روزنامہ ایکسپریس کراچی کے معروف کالم نویس تھے۔ان کی ابتدائی زندگی درس تدریس سے شروع ہوئی ، بعد ازاں پائیلر میں ملا زمت کی اور پھر ایکسپریس میں بڑی سنجیدگی سے کالم لکھتے رہے ۔ وہ ہمیشہ ترقی پسند ادیب کی حیثت سے کالم نویسی کرتے رہے۔ ان کی انقلابی خدمات کو محنت کش اور صحافی کبھی بھی فرا موش نہیں کرسکتے۔ یہ ایسے انقلابی ہیں جو شاید بہت زیادہ معروف نہ ہوں مگر محنت کشوں ، صحافیوں ، کارکنوں اور مزدوروں میں ضرور جا نے جاتے ہیں ۔ انقلابی عمل ان ہی طبقات میں ہوتا ہے ۔

باقی سارے طبقے اپنے مفادات کے لیے بھیڑچال ہوتے ہیں۔ تحریک انصاف کی جا نب سے کراچی پریس کلب کے جلسے میں شفیع الدین اشرف نے شکاگوکے شہیدوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ '' گلے میں سونے کی چین، ہاتھوں میں گولڈ لیف کا سگریٹ اور پجیرو میں سفرکرنے سے مزدوروں کی حقیقی جدوجہدکا ساتھی نہیں بنا جا سکتا۔ان کا ساتھی بننے کے لیے ان کی بستی میں رہنا ہوگا، ان کے دکھوں اور غموں میں شریک کار ہونا ہوگا '' اس بات پر حاضرین نے تالیاں بجا کر داد ی، لیکن شاید لیڈران خوش نہ ہوئے ہوں بلکہ بعد میں تحریک انصاف نے یکم مئی پر جلسہ کرنا ہی چھوڑ دیا ۔اس سے قبل لانڈھی مجید کالونی میں یکم مئی پر تحریک انصاف نے شاید غلطی سے (بلکہ عزیزالحسن کی کوششوں سے ) مجھ سے بھی خطاب کروایا تھا۔

اس وقت بائیں بازوکے رہنما معراج محمد خان بھی اسٹیج پر برا جمان تھے۔ بہرحال یہ طبقاتی لڑائی صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں جاری ہے۔ حال ہی میں میکسیکو میں بائیں بازوکا صدر منتخب ہوا ہے۔ انڈیا میں پانچ صوبوں میں بی جے پی کو شکست ہوئی ہے۔ برطانوی سرکار اور امریکا کے ٹرمپ کی نیہ ڈانواں ڈول جارہی ہے۔ فرانس کے عوام مہنگائی کے خلاف حکومت کا باجا بجا دیا ہے، برازیل کے تین کروڑ مزدوروں نے ہڑتال کی، اردن میں ٹیکس بڑھانے اور بے روزگاری کے خلاف عوام نے زبردست مظاہرہ کیا، بارسلونا اور سوڈان میں مہنگائی اور روٹی کی قیمت بڑھنے کے خلاف عوام نے زبردست مظاہرے کیے۔

پاکستان میں بائیں بازو کے قومی اسمبلی میں صرف دو اراکین کے منتخب ہونے پر حکمران بکھلائے ہوئے ہیں ۔ وہ علی وزیر اور محسن داوڑ کو کبھی الحمرہ اورکبھی دبئی جانے سے روک دیتے ہیں ، مگرکب تک ۔ وہ دن جلد آنیوالا ہے، جب تخت گرائے جائیں گے، تاج اچھالے جائیں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔