جمہوریت کا تسلسل
گزشتہ چھ دہائیوں کے دوران پاکستان کی سیاست نے نشیب و فرازکے کئی مراحل طے کیے اس عرصے میں طلاطم خیز۔۔۔
گزشتہ چھ دہائیوں کے دوران پاکستان کی سیاست نے نشیب و فرازکے کئی مراحل طے کیے اس عرصے میں طلاطم خیز واقعات بھی رونما ہوئے اور بعض سبق آموز سانحات نے بھی آنے والے حکمرانوں کے لیے غوروفکر کے کئی باب رقم کیے۔ اگرچہ پاکستان اور ہندوستان نے برطانوی سامراج سے ایک ساتھ ہی آزادی کی نعمت حاصل کی لیکن پاکستان کے مقابلے میں ہندوستان میں ابتداء ہی سے سول ملٹری تعلقات کے حوالے سے افہام و تفہیم کا ایسا مربوط، مستحکم اور پر اعتماد رشتہ قائم ہوا کہ وہاں سیاستدانوں کی ہزارہا کمزوریوں اور خامیوں کے باوجود کسی ہندوستانی جرنیل نے جمہوریت کا بوریا بستر گول کرنے کے بارے میں سوچا تک نہیں جب کہ پاکستان میں قائد اعظم اور لیاقت علی خان کی وفات کے بعد سارا منظرنامہ ہی تبدیل ہوگیا۔
سیاسی وعسکری حلقوں کے درمیان اعتماد کا جو فقدان پیدا ہوا اس کے نتیجے میں ہر فریق کے مابین کشمکش اور طاقت آزمائی کا کھیل شروع ہوگیا جس نے ملک میں پہلے مارشل لاء کو جنم دیا۔ایک عشرے پر محیط جنرل ایوب خان کے آمرانہ دور میں جمہوریت، آئین اور سیاستدانوں کے ساتھ بڑے سنگین مذاق کیے گئے۔ ایبڈو جیسے کالے قوانین بناکر ملک کے معروف سیاستدانوں کے مستقبل کو تباہ کردیا گیا۔ بعدازاں جنرل ایوب ہی کے معتمد خاص جرنیل یحییٰ خان نے انھیں رخصت ہونے پر مجبور کردیا اور اقتدار پر قابض ہوگئے۔ ان کے آمرانہ اقدامات کے نتیجے میں ملک دولخت ہوگیا۔
سانحہ سقوط بنگال کے بعد ایوبی آمریت کے خلاف توانا آواز بلند کرنے والے ملک کے مقبول سیاستداں ذوالفقار علی بھٹو نے باقی ماندہ پاکستان کی قیادت کا بارگراں اٹھا لیا اور خستہ حال پاکستان اور مایوس و شکست خوردہ قوم کے اندر پھیلتی مایوسی کو روشن مستقبل سے بدلنے کا بیڑہ اٹھایا۔ بھٹو بہت جلد ملک کے کروڑوں غریبوں، کسانوں، ہاریوں، طالب علموں، دانشوروں اور پسماندہ طبقات کے دلوں کی آواز بن گئے۔ انھوں نے وطن عزیز کو دنیا کی پہلی اسلامی ایٹمی قوت بنانے میں بنیادی کردار ادا کیا، قادیانیوں کا 90 سال پرانا مسئلہ حل کروایا۔
لاہور میں پہلی اسلامی سربراہی کانفرنس کا انعقاد کرایا، بھٹو صاحب کا سب سے بڑا اور اہم کارنامہ 1973 کے متفقہ آئین کی تشکیل تھا جس پر اس وقت کی تمام سیاسی قوتوں نے اتفاق رائے کے بعد دستخط کیے۔ بھٹو شہید پاکستان کو دنیا میں ایک باوقار قوم کے طور پر متعارف کرانا اور ترقی کی شاہراہ پر بہت آگے تک لے جانا چاہتے تھے۔ لیکن بدقسمتی سے 5 جولائی 1977 کو محمد ضیا الحق نے بھٹو حکومت کا خاتمہ کر دیا۔ اس پہ مستزاد تمام تر عالمی دباؤ کے باوجود بھٹو جیسے مقبول عوامی لیڈر کو تختہ دار تک پہنچا دیا۔
ضیاء الحق نے 90 دنوں میں عام انتخابات کرانے اور اقتدار نئے منتخب نمایندوں کے حوالے کرنے کی یقین دہانیاں کرائیں لیکن پوری قوم نے دیکھا آمروں کے 90 دنوں کا وعدہ 11 سالوں تک پھیل گیا اور 17 اگست 1987 کو ان کی موت کے ساتھ ہی ان کا وعدہ بھی اپنی موت آپ مرگیا۔ 12 اکتوبر 99 کو مشرف نے 5 جولائی کی تاریخ دہراتے ہوئے منتخب حکومت کا تختہ الٹ دیا۔
پاکستان پیپلز پارٹی ہر سال 5 جولائی کو یوم سیاہ کے طور پر مناتی ہے۔ اس دن کی مناسبت سے پی پی پی کے رہنما و جیالے کارکن ماضی کے المناک واقعات کی تاریخ کو دہرا کے ملک میں جمہوریت کی بحالی و استحکام کے لیے بھٹو خاندان کی جانی قربانیوں کے تسلسل کو اپنے خون سے آگے بڑھانے کے عزم کا اظہار کرتے ہیں۔ ضیاء الحق نے جمہوریت کی بحالی اور آمریت کے خاتمے کے لیے جدوجہد کرنے پر بھٹو خاندان اور پی پی پی کے جیالے کارکنوں کے ساتھ تقریباً 10 سال تک جو ناروا سلوک کیا وہ سب تاریخ کا حصہ ہے۔
ضیاء الحق کی دلی خواہش کے باوجود پیپلزپارٹی کے وجود کو ختم نہیں کیا جاسکا۔ بھٹو کے بعد ان کی بہادر بیٹی بے نظیربھٹو نے اپنے والد کی سیاسی میراث کا پرچم تھاما اور جان ہتھیلی پر رکھ کر بحالی جمہوریت کے لیے کٹھن، صبرآزما اور طویل جدوجہد کی اور ان گنت مشکلات، مصائب اور مسائل کا سامنا کیا، قیدوبند اور جلاوطنی کی صعوبتیں برداشت کیں، حتیٰ کہ اس قوم، ملک اور جمہوریت کے لیے 27 دسمبر 2007 کو بھٹو خاندان کی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے،اپنی جان کا نذرانہ بھی پیش کردیا۔ بی بی شہید کے بعد ان کے شوہر آصف علی زرداری نے پیپلزپارٹی کی قیادت کا بارگراں اپنے کاندھوں پر اٹھالیا اور ملکی تاریخ میں پہلی بار مفاہمت کی سیاست کی بنیاد رکھی۔ ان کی رہنمائی میں پی پی پی کی حکومت نے ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ 5 سالہ آئینی مدت پوری کی۔
سازشوں کے باوجود صدر زرداری بھی اپنی پانچ سالہ آئینی ٹرم پوری کرلیں گے۔بھٹو اور بی بی شہید کے بعد پارٹی میں موجود بعض ابن الوقت قسم کے رہنماؤں نے پارٹی سے اس امید پر اپنے راستے جدا کرلیے کہ اب پی پی پی کے عروج کا دور گزرگیا۔ بڑے بڑے جید سیاستداں پیپلزپارٹی کا پلیٹ فارم چھوڑ کر اپنی علیحدہ پہچان بنانے کی کوششوں میں مصروف ہوگئے، تاریخ شاہد ہے کہ ایسے لوگوں کو نہ کہیں امان ملی اور نہ ہی پہچان اور وقت کے ساتھ ساتھ وہ تاریخ کے کوڑے دان کا رزق بن گئے۔ لیکن جو رہنما مشکل وقت میں پیپلزپارٹی کے ساتھ کھڑے رہے وہ آج بھی قومی سیاست میں اپنی شناخت اور اعتبار رکھتے ہیں۔
5 جولائی کو یوم سیاہ کے موقعے پر پی پی پی کے بعض رہنماؤں اور جیالوں نے بی بی شہید کے ساتھ رہنے والے بعض سیاستدانوں کی کارکردگی کو ہدف تنقید بنایا۔یہ سیاستدان اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بناکر صدر زرداری، بلاول بھٹو زرداری اور پیپلزپارٹی کو نہیں بلکہ خود کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ بہرحال قوم کو یہ کوشش اور دعا کرنی چاہیے کہ ملک میں آمریت کی سیاہ رات کی تاریخ آیندہ نہ دہرائی جائے اور جمہوریت کا سورج چمکتا رہے۔