حقیقت کیا ہے
مسلم ممالک میں اٹھنے والی مخالفتوں کی تحاریک ایک عام ذہن کے انسان کو سوچنے پر مجبور کردیتی ہے
مدائن دریائے دجلہ کے مشرقی کنارے پر آباد تھا، دریا پار کیے بنا وہاں تک پہنچنا ممکن نہ تھا، یہ وہی جگہ ہے جہاں اب بغداد آباد ہے، حضرت سعدؓ بن ابی وقاص کی سربراہی میں فوج دریا کے کنارے پہنچی، سامنے دریا اور اس کے پار پروردگار کے ناشکرے انسان۔ حضرت سعدؓ بن ابی وقاص نے اپنے پروردگار کا نام لیا اور گھوڑا دریائے دجلہ میں ڈال دیا۔
باقی تمام فوجیوں نے اپنے سردار کو آگے بڑھتے دیکھا اور ان کی تقلید میں دریا میں گھوڑے ڈال دیے اور پوری فوج پل کے بغیر دریا پارکرگئی جب کہ دشمن یہ سمجھتے تھے کہ مسلمان پل کے بغیر دریا پار ہی نہیں کرسکتے اور جب ایسا ہوگیا تو ان کے ہاتھ پاؤں خوف سے پھول گئے اور ایسے ڈرے کہ ''دیو آگئے۔۔۔۔ دیوآگئے۔۔۔'' کہتے ہوئے بھاگ کھڑے ہوئے اور مسلمانوں نے ان کے دارالسلطنت مدائن پر باآسانی قبضہ کرلیا اور شاندار کامیابی پر نماز شکرانہ ادا کی اور جمعہ کی نماز یسریٰ کے شاہی محل میں ادا کی۔
یہ تھا مسلمانوں کا یقین، اعتماد اور بھروسہ، اپنے رب العزت پر کہ جس نے انھیں دور دراز بڑی بڑی شاندار اور عظیم سلطنتوں کو زیر کرنے کی طاقت سے نوازا۔ دین کی بنیاد ہی اﷲ تعالیٰ کی ذات پر یقین اور محبت ہے جس کے بغیر مسلمان، مسلمان نہیں، یہ یقین اتنا پائیدار ہوتا ہے کہ بڑے بڑے تختوں کی چولیں ہلاسکتا ہے۔ مسلمان تو اپنے رب پر یقین کے جذبے سے آشنا ہیں ہی لیکن اس یقین کی طاقت پر سے شاید اب اعتماد اٹھتا جارہا ہے، لیکن اسلام کے مخالفین مسلمانوں کی اس طاقت کی عظمت سے بخوبی واقف ہیں اس لیے کہ ماضی میں ہونے والی شکستوں کو جو انھیں اس طاقت کی بدولت نصیب ہوئی ہیں بھولے نہیں ہیں۔
مسلم ممالک میں اٹھنے والی مخالفتوں کی تحاریک ایک عام ذہن کے انسان کو سوچنے پر مجبور کردیتی ہے کہ آخر ایسا کیا ہے جو مسلمان ممالک چیخ پڑے، توڑپھوڑ، نعرے، دھرنے۔۔۔۔ ریلیاں یہ کیا ہورہا ہے ان ممالک میں۔ ذرا قریب سے مطالعہ کریں تو بہت کچھ واضح نظر آنے لگتا ہے۔ بحرین، شام، ترکی، بنگلہ دیش اور اب مصر۔۔۔۔ ایک لہر ہے جو ادھر سے ادھر تک چپکے سے ابھرتی ہے اور دنیا بھر میں اشتہارات لگادیتی ہے کہ یہ ظلم ہے۔ اس کی حقیقت سے کون کون واقف ہے، اسے رہنے دیں، لیکن مسلمان ممالک میں عوام پر ظلم ہورہا ہے۔۔۔۔ جبر ہورہا ہے، یہاں تک کہ میڈیا جس میں سوشل میڈیا بھی مصروف عمل ہے اس کی خاصی تشہیر کررہا ہے، لیکن جو اصل ہے وہ دھندلا سا دکھانے کی کوشش کی جارہی ہے۔
ترکی میں طیب اردگان کے خلاف جو احتجاج کی لہر اٹھی تو شور مچ گیا کیونکہ اتاترک کی اس وقت کی حکمت عملی نے اس وقت کے ترکی کو ایک نئی زندگی تو دی تھی لیکن اس انقلاب کے ساتھ ہی مغربیت پرستی اور مذہب سے دوری کا رجحان اسے مسلم ممالک کی فہرست میں تو شمار رکھتا تھا لیکن اس کا طرز عمل اس روش سے خاصا دور ہوچکا تھا، اس سردردی پر جیسے طیب اردگان نے ایک ارتعاش سا پیدا کیا تھا جسے ہوا دینے بہت سے منفی رجحانات سر اٹھانے لگے اس میں وہ ناسمجھ نوجوان مسلم نسل بھی شامل تھی جسے اپنی زندگی میں اسلام کو قریب سے دیکھنے کا بھی موقع نہ ملا تھا۔
وہ نہیں جانتے تھے کہ کیوں شراب نوشی پر سختی عائد کی جارہی ہے۔ کلبوں پر پابندی عائد کی جارہی ہے، کھلے پن اور مغربیت نوازی کے جس راستے پر چلتے وہ آرہے تھے طیب اردگان نے اسے تنگ کرنے کی کوشش کی تھی، گویا ایک بار پھر ترکی کو اس کی جڑوں سے ملانے کی کوشش کی جو اہل ترکی سے زیادہ دوسری طاقتوں کو ناگوار گزر رہے تھے، رنگا رنگ شور و
مستی کے جس نشے میں چور ترکی کے بپھرے ہوئے نوجوان ڈوب چکے تھے اس سے نکلنا ان کے لیے تو محال نہ تھا لیکن اسے اس دھندے سے نکلتے دیکھنا بہت سے بڑے ہاتھیوں کے لیے تکلیف دہ امر ہے کیونکہ وہ اچھی طرح سے واقف ہیں کہ اگر مسلمان اپنے رب العزت کی ذات پر یقین کی طاقت سے آگاہ ہوجائے تو کیا کیا انقلاب رونما ہوسکتے ہیں اور وہ ایسا پھر سے ہونے نہیں دینا چاہتے۔ ابھی ترکی عالم دنیا کی نظروں سے ذرا ٹھنڈا ہوا تھا کہ مصر کی جانب سے ایک شور اٹھا۔ محمد مرسی کی مخالفت کے لیے جیسا ایک طوفان بپا ہوگیا، یہ وہی محمد مرسی تھے جو عوام کے ووٹوں سے جمہوریت کی علمبرداری کرتے اس عظیم عہدے پر فائز ہوئے تھے۔ اخوان المسلمون ایک بڑی جماعت ہے جسے شکست دینا اتنا آسان نہیں ہے۔ اس جماعت نے بڑی آزمائشوں اور دقتوں کا سفر طے کیا تھا۔
ایک عام ناظر بہت سی حقیقتوں سے ناواقف ہوتا ہے، الیکٹرانک میڈیا ہی اسے حقائق سے آگاہ کرتا ہے، لیکن ہم نے اپنے ملک میں بھی مرسی اور کرسی کے درمیان جس تضحیک آمیز انداز میں خبریں سنیں اور جس مزے سے اسے بیان کیا گیا گویا وہ ایک دلچسپ لطیفہ ہو ، خاصا تکلیف دہ تھا۔ یہ وہی محمد مرسی ہیں جنہوں نے اقوام متحدہ میں بڑی جوانمردی سے بیان دیا تھا کہ جو میرے آقا حضرت محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا احترام کرے گا وہی ہمارے لیے احترام کے لائق ہے اور جو گستاخی کرے گا اس کا احترام نہیں کیا جائے گا۔ ابھی زیادہ عرصہ تو نہیں گزرا اس بات کو۔
یہ ایک کھلا اعلان تھا جو محمد مرسی نے عالم دنیا کے سامنے کیا تھا ، ایک وارننگ تھی کہ اس طرح کی شرارتیں بار بار برداشت نہیں کی جائیں گی، اس کھلی وارننگ سے بہت سے لوگ خبردار ہوگئے کہ محمد مرسی اپنی حدوں کو پار کر رہے ہیں، وہ خاموشی وہ چپ بے اثر نہ تھی اور پھر اخبارات، ٹی وی چینلز پر سرخیاں ابھرنے لگیں، سوشل میڈیا حرکت میں آگیا، محمد مرسی کی شخصیت اور ان کی حکومت کو غلط رنگ میں پیش کرنے کی بھرپور کوششیں کی گئیں، احتجاج کرنے والے جدیدیت کے قائل اور بے باکی کے سفیر بنے ہوئے تھے۔ سرکاری اور نجی عمارات کی توڑپھوڑ کے علاوہ خواتین کی بے حرمتی جیسے شرمناک واقعات اس احتجاج کے پس منظر سے ابھرے۔ محمد مرسی اپنی جگہ پر اٹل تھے۔ انھوں نے ایسا کیا کردیا تھا جس پر مصر میں ایک طوفان کھڑا کردیا گیا ؟ درحقیقت یہ ان کی سزا کا ایک مرحلہ تھا جسے ان پر تھوپا گیا تھا۔
خدا گواہ ہے کہ حال میں اس سے کہیں بدتر حالات پاکستان میں رہے، لوگوں میں انتشار و اضطراب ابھرا اور ڈوب بھی گیا لیکن فوج نے نہ کسی کو اتارا نہ بٹھایا لیکن وہ کون سی طاقت ہے جس نے اس مختصر ترین دورانیے میں ملک میں ایسا عذاب نازل کیا کہ راتوں رات محمد مرسی کی حکومت کو فوج نے معزول کردیا۔ دھڑا دھڑ اخوان المسلمون کے اراکین اور کارکنوں کی گرفتاریاں عمل میں آئیں۔ محمد مرسی کے حق میں عوام کی ایک خاصی بڑی تعداد قاہرہ کی سڑکوں پر امنڈ آئی، انھیں فوجی بغاوت نامنظور تھی۔ اخوان المسلمون کی سیاسی شاخ فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی کی بہت سی اہم شخصیات کو حراست میں لے لیا گیا۔ صرف یہی نہیں دنیا کو باخبر رکھنے کے لیے مشہور ٹی وی چینل الجزیرہ کے عملے کو بھی قاہرہ میں چھاپہ مار کر فوج نے حراست میں لے لیا۔
یعنی حقیقت اور سچائی کے لب سلب کرنے کی ایک مذموم کوشش کی گئی جس کی انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے مذمت کی اور چینل کی بندش کو اظہار رائے کی آزادی کے لیے دھچکا قرار دیا۔ افریقی یونین نے مصر کی رکنیت معطل کردی، لیکن حال ہی میں ایک مختصر دورانیے کا ویڈیو سوشل میڈیا پر ابھرا جس نے محمد مرسی کے خلاف ہونے والی بغاوت کا بھانڈا پھوڑ دیا، اس ویڈیو میں ایک ہجوم تھا جو چیخ رہا تھا، شور مچا رہا تھا اور اس کے نعرے عالم اسلام کو جھنجھوڑنے اور عالم دنیا کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی تھے، ان کا کہنا تھا کہ وہ عیسائی انقلاب اور صلیب کی روح کے لیے خون کی قربانی دیں گے۔ کاش! میرے وہ عیسائی بھائی سمجھ جائیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنی جان کی قربانی جس مقصد کے لیے دی تھی خدا کی قسم وہ یہ ہرگز نہیں ہے۔