جنوبی پنجاب صوبہ تو نہیں اجلاس حاضر ہے
آج کا بہاولپور، اس کے ساتھ کبھی بہتا ہوا ستلج دریا اور وسیع و عریض چولستان بھی کئی تہذیبوں کا امین ہے
چلیے اس بہانے جنوبی پنجاب کی ایک اور بڑی محرومی دور ہو گئی، بقول وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار صوبے کی ستّر سالہ تاریخ میں پہلی بار پنجاب کابینہ کا اجلاس لاہور سے باہر کسی شہر میں منعقد ہوا۔ اپنی 46 رکنی کابینہ، مشیران، معاونین خصوصی، چیف سیکریٹری اور دیگر اعلیٰ حکومتی مشینری عہدیداروں سمیت انھوں نے تین گھنٹے طویل کابینہ اجلاس بہاولپور میں منعقد کیا۔ خدا جانے بہاولپور میں سرکاری دفاتر میں اس اجلاس کے لیے مناسب جگہ موجود نہ تھی یا اس طرح انھوں نے جنوبی پنجاب میں کابینہ اجلاس تک کے لیے مناسب جگہ نہ ہونے کا علامتی ثبوت پیش کیا، یہ اجلاس اسلامیہ یونیورسٹی اولڈ کیمپس کے کانفرنس ہال میں منعقد کیا گیا۔
تین گھنٹے کے اس اجلاس کے لیے پوری حکومتی مشینری کو ایک دن کے لیے بہاولپور میں حاضر کرنے پر اخراجات کا ذکر انھوں نے کیا نہ سادگی کے مارے کسی اور نے پوچھا۔ جنوبی پنجاب کی اپنے تئیں ایک تاریخی محرومی دور کرنے کے بعد وزیر اعلیٰ اس مشن کو صوبے کے دیگر ڈویژنوں تک پھیلانے پر کمر بستہ ہیں۔ بقول ان کے اگلا اجلاس سرگودھا اور پھر ملتان میں ہوگا۔ وزیر اعلیٰ کے اس علامتی اقدام کو البتہ اپوزیشن نے دکھاوے کا ہی نام دیا، ثبوت یہ پیش کیا کہ اس اجلاس میں جنوبی پنجاب سے متعلق تو کوئی اہم فیصلہ ایجنڈے میں شامل ہی نہ تھا۔
سیاست کہئے یا نیرنگیء سیاست، اپنی اپنی سیاسی ضرورت ہوتی ہے تو سبھی سیاسی جماعتیں جنوبی پنجاب کے صوبہ بنانے کی حمایت میں علم اٹھا لیتی ہیں۔ ادھر سیاسی ضرورت پوری ہوئی ادھر انھوں نے یہ علم لپیٹا اور طاق ِ نسیاں پر رکھ دیا۔چند ہفتے قبل قومی اسمبلی کے اجلاس میں جنوبی پنجاب بنانے کا ذکر ہوا لیکن پھر اپنی اپنی سیاسی مصلحتیں اور نئے سیاسی ہنگامے کام آئے اور یوں ایک بار پھر یہ موضوع ٹھپ ہو گیا۔ بہرحال علامتی ہی سہی وزیر اعلیٰ نے ڈویژن وار اجلاس منعقد کرنے کے سلسلے کو بہاولپور سے شروع کیا تو اچھا کیا۔
یادش بخیر، کوئی دس ماہ قبل بدلتے الیکشن کی آمد آمد کے موسم میں جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے آٹھ ارکان کو اچانک احساس ہوا کہ جنوبی صوبہ نہ بنایا تو سیاست میں کیا کِیا؟ سو ایک جنوبی پنجاب صوبہ محاذ قائم کر دیا گیا جو بعد ازاں پی ٹی آئی میں اس شرظ پر شامل ہوگیا کہ نیا صوبہ بنانا نئی حکومت کی پہلی ترجیح ہو گی۔ الیکشن کے بعد کا منظر نامہ ہمارے سامنے ہے۔ عددی نمبر شماری مرکز اور صوبے میں ایسی تھی کہ مرکز اور پنجاب میں پی ٹی آئی کی حکومت ہی خدا خدا کرکے بنی۔ ایسے میں جنوبی پنجاب صوبہ پہلی ترجیح کا وعدہ حکومت سازی کی بھول بھلیوں میں گم گشتہ ابھی تک راستہ ڈھوند رہا ہے۔
قیافہ شناس قیافے لگاتے رہ گئے کہ شاید اس جنوبی پنجاب صوبہ محاذ سے کوئی نوجوان وزیر اعلیٰ بن کر نیا صوبہ بنانے کی راہ ہموار کرے گا اور اس دوران اس علاقے کی کچھ محرومیاں بھی دور کرے گا۔ اس محاذ کے کے کسی لیڈر کی بجائے مگر عمران خان نے تونسہ کے ریگزار سے سردار عثمان بزدار کو ڈھونڈ نکالا۔ قابلیت ان کی یہ بتائی کہ ان کا تعلق جنوبی پنجاب کے ایک پسماندہ ترین علاقے سے ہے اور یہ کہ ان کے گھر بجلی بھی نہیں۔ محرومیوں کے شناسا ایسے وزیر اعلیٰ کو اس خطے بلکہ پورے پنجاب کی محرومیاں دور کرنے کا کتنا درد ہوگا ،اسی درد کا اندازہ لگانے کے لیے انھیں وزیر اعلیٰ بنانے کا خیال عمران خان کے ذہن میں آیا۔
تاریخ بھی بڑی دلچسپ شے ہے، کہاں یہ کہ ایک ہزار سال قبل آج کا تخت لاہور راوی کنارے بقول ایک سفر نامہ نگار مچھیروں کی چھوٹی سی ایک بستی تھی جب کہ اس دور میں ولایت ملتان کا طوطی پشاور تک بولتا تھا، دوسری طرف ٹھٹھہ تک اسی ولایت ملتان کا اثر و نفوذ تھا۔ ملتان کی تاریخ پانچ ہزار سال قدیم ہے، 11ویں اور 12 ویں صدی میں کئی عظیم صوفیاء کرام کی آمد سے اس شہر کی شہرت شہرِ صوفیا کے طور پر پھیلی۔
آج کا بہاولپور، اس کے ساتھ کبھی بہتا ہوا ستلج دریا اور وسیع و عریض چولستان بھی کئی تہذیبوں کا امین ہے۔ بہاولپور ریاست کا قیام عباسی خاندان کے ہاتھوں 1802ء میں ہوا۔ متحدہ ہندوستان میں یہ ایک نمایاں ریاست تھی۔ ہمارے والد مرحوم چالیس کی دِہائی میں اس ریاست کے مکین اور اس کی سرائیکی زبان کی محبت کے اسیر ہوئے۔ وہ کچھ عرصہ بہاول نگر، ڈیرہ حازی خان اور بعد ازاں رحیم یار خان کی قصبے خان پور میں سکونت پذیر ہوئے۔ ہیڈ پنجند کی نہروں کے جال نے ریاست بہاولپور کی زرعی زمین کی آباد کاری کا ایک نادر موقع فراہم کیا۔ بے آباد زمینوں کی آباد کاری اور زمینداری ان کا پیشہ ٹھہری۔
بچپن کے حافظے میں کاونی، معین آباد اور بستی نیاز کی آبادکاری کا ذکر ان سے بار بار سنا اور شعور کی آنکھ بھی ان ہی بستیوں میں کھلی۔ سرائیکی زبان کی شیرینی سے بھی ہمیں والد مرحوم نے ہی آشنا کیا۔ بعد ازاں پروفیسر علامہ اللہ بخش ازہری اور چند کلاس فیلوز نے اس زبان کی شاعری کی لطافتوں سے مزید سرشار کیا۔ خواجہ غلام فریدؒ کی شاعری اور روہی کے ہزار رنگ کا سحر آج بھی روح کو معطر کر جاتا ہے۔۔۔پِیلو پکیاں نی وے آ چنوں رَل یار
والیِ ریاست بہاولپور کی خانپور میں شکار گاہیں تھیں۔ وہ کبھی کبھار خانپور آتے تو دربار بھی لگاتے اور شکار بھی کھیلتے تھے۔ والیِ ریاست کی باپردہ خواتین کے ریلوے اسٹیشن آمد کے موقعے کا منظر بیان کرتے ہوئے والد مرحوم بتایا کرتے کہ کس طرح تمام سیکیورٹی اسٹاف دم سادھے اپنا رخ مخالف سمت رکھتے تا وقتیکہ کہ شاہی خاندان اسٹیشن سے روانہ ہو چکا ہوتا۔ والیئِ ریاست کے شکار کے بھی دلچسپ قصے سنے، ان کی سادگی کے بھی اور کرّو فر کے بھی، اورمقامی افراد کے والیِ ریاست کی توجہ حاصل کرنے کے مضحکہ خیز واقعات کے بھی۔ یہ ریاست 1955ء میں پاکستان میں ضم کر دی گئی۔ عباسی خاندان اور ان کے محلات دھیرے دھریے تاریخ کے حافظے میں اترتے گئے۔ اب اسی ریاست کے صدر مقام بہاولپور کو وزیر اعلیٰ اور ان کی کابینہ نے تین گھنٹے کے اجلاس کے انعقاد کا شرف بخشا ہے، کہاں تاریخ کا وہ باب اور کہاں فقط ایک اجلاس کے انعقاد پر محرومیوں کے ازالے پر شادیانے !