معاشی تباہی کے ذمے دارکون
چیف جسٹس ثاقب نثار نے اتنے اہم سوموٹو نوٹس لیے کہ جس سے قوم کے بنیادی مسائل حل ہوئے
سابق چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف نے جے آئی ٹی کا تصور پیش کیا ، جے آئی ٹی نے پاناما کیس کے بارے میں تفتیش کی اور اس کے نتیجے میں پاکستان کی سب سے زیادہ مقبول سیاسی شخصیت آج دوسری سزا میں سات سال کی قید کاٹنے پر مجبور ہے، یہ احتساب آگے بڑھ رہا ہے۔
موجودہ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمرجاوید باجوہ نے پاکستان کے اندرونی خلفشارکو ختم کرنے میں بڑا اہم کردار ادا کیا ہے ۔ آج پاکستان کے شہروں میں خاص طور پرکراچی میں جو امن بحال ہوا اس کا کریڈٹ پاکستان رینجرز (سندھ) اور پاک آرمی کو جاتا ہے۔ اب پاکستان کی ترقی کا پہیہ حرکت میں آچکا ہے، نئی حکومت جو عمران خان کی قیادت میں وجود میں آئی ہے وہ بھی بڑی دلجمعی کے ساتھ ملک کی معاشی اوراقتصادی حالات کو بہترکرنے میں کوشاں ہے اور امیدکی جاسکتی ہے کہ مستقبل میں ملک معاشی اور اقتصادی طور پر ترقی کرے گا،اس کام کے مثبت نتائج آنے میں کم ازکم ایک سال کا عرصہ لگے گا۔
اگر ہم اپنے وطن کے معاشی اوراقتصادی حالات کا جائزہ لیں تو ہمارے سامنے قومی اداروں سے ہونے والی آمدنی آہستہ آہستہ خسارے کی طرف جانے لگی،اس وقت یہ قومی ادارے705بلین کا خسارہ تین سال میں دیکھ رہے ہیں، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ گزشتہ2007ء سے2013ء تک پی پی پی اور2013ء سے2018ء تک مسلم لیگ نوازکی حکومت رہی، اس دوران پارلیمنٹ بھی چلتی رہی اور سینیٹ بھی مگر کسی وقت بھی اس قومی خسارے سے پر توجہ نہیں گئی حالانکہ اگر ان اداروں کو خسارے سے بچانے کے اقدامات بروقت کر لیے جاتے تو پاکستان اتنا غریب نہ ہوتا، جتنا آج ہے۔
چیف جسٹس ثاقب نثار نے اتنے اہم سوموٹو نوٹس لیے کہ جس سے قوم کے بنیادی مسائل حل ہوئے، انھوں نے بڑی ایمانداری اور غیر جانبداری سے قومی مسائل پر نوٹس لیا، لیکن میں ان کی توجہ اس مسئلے پر دلانا چاہتا ہوں کہ وہ ایک کمیشن ایسا بنوائیں جو ملک میں قومی اداروں کے خسارے میں آنے کے ذمے داروں کا تعین کریں، ان اداروں میں پی آئی اے، اسٹیل مل، ریلوے،گیس کمپنیاں اور پاور پروجیکٹ شامل ہیں۔ یہ ا دارے کیوں خسارے میں آئے یا لائے گئے، کیونکہ ایک زمانے تک ہر حکومت اس میں جنرل پرویز مشرف کی حکومت بھی شامل ہے۔
اس سے پہلے کی بھی حکومت اور اس کے بعد کی بھی ملک میں PRIVITAZATION کے ذریعے اپنے خزانے میں اضافہ کرتی تھیں۔ کسی ادارے کو پرائیوٹائز کرنے کے لیے اس خسارے میں دکھانا ضروری ہوتا ہے، کہیں ایسا تو نہیں ان اداروں کو اقتصادی اور مالی طور پر تباہ کرنے میں یہ اصول اپنایا گیا ہو جو کہ اسے پہلے خسارے میں لایا جائے، کیونکہ پوری دنیا میں معمولی سا کاروبار بھی خسارے میں نہیں آتا ۔ یہ قومی ادارے اس ملک میں معاشی اور اقتصادی ستون ہیں ،انھیں کسی قیمت پر فروخت نہ کیا جائے بلکہ ان اداروں کے لیے ایک بورڈ بنایا جائے جن کے ماتحت ان کی مالی معاملات کی نگرانی بھی ہو اور اسے بہتر سے بہتر بنانے کی کاوشیں بھی، احتساب کا سلسلہ کہیں نہ روکنا چاہیے، جتنے ادارے احتساب کررہے ہیں چاہے ایف آئی اے ہو، یا ایف بی آر، نیب ہو یا اینٹی کرپشن، ان سب کو خاص طور پر احتساب کا پہلا قدم کہ ملزم کے خلاف ناقابل تردید ثبوت جمع کرنا ہوں گے، کیونکہ اب جو احتساب ہورہا ہے اس میں عدالتیں بھی آزاد ہیں اور نیب بھی اور تمام متعلقہ ادارے بھی۔
عوام کو وزیر اعظم عمران خان پربہت اعتماد ہے کیونکہ ان کی سیاسی فکرکی بنیاد اینٹی کرپشن پر ہے، ان سے امید ہے کہ وہ کسی دباؤکے بغیر احتسابی معاملے کو جاری اور ساری رکھیں گے، یہ پہلی دفعہ ہے کہ احتساب کا آغاز بڑی شخصیتوں سے ہوا ہے جن کو قانون کی گرفت میں لانا، بہت مشکل ہے خاص طور پر جب وہ سیاستدان ہو اور ممبر پارلیمنٹ بھی ہوں۔ موجودہ حکومت کے وزیر قانون فروغ نسیم بہت باصلاحیت قانون دان ہیں، انھیں اصلاحی قوانین بنانے کے لیے فری ہینڈ دیا جائے تاکہ تمام احتسابی اداروں میں اصلاحات لائی جائیں، خاص طور پر نیب جس پرہر روز ذمے داری کا بوجھ بڑھ رہا ہے۔
اس لیے بہتر ہے کہ 20کروڑ سے کم بدعنوانی کے مقدمے میں نیب کے بجائے اینٹی کرپشن کے ذریعے حل ہوں تاکہ نیب کو اربوں اورکھربوں کے معاملات پر توجہ دینے میں آسانی ہو۔ اس وقت پولیس کے محکمے میں اصلاحات بہت ضروری ہیں تمام پولیس اسٹیشن کو عوام دوست بنانا ہوگا اور ایس ایچ او اور آئی اوکا تعین کم سے کم گریجویٹ اور لاء کی تعلیم رکھنے والوں کو دیا جائے، پولیس کے محکمے میں ایک نگراں ڈپارٹمنٹ ہو جو اپنی پولیس فورس کی بدعنوانی کی خفیہ نگرانی کرے جس کی رپورٹ چیف سیکریٹری اور آئی جی کو دی جائے، عوام کی شکایت پر ایف آئی آر سے پہلے صرف پرچہ درج ہوسکے جس کی مدت20سے25 دن ہو، پھر ایف آئی آر لکھی جائے اور ایف آئی آر کی کاپی متعلقہ مدعی اور مدعا علیہ کو اسی وقت دی جائے، ہر تھانے میں وکیلوں کو عزت واحترام دیا جائے۔
یہ ہر شکایت کنندہ کا حق ہے کہ وہ قانونی معاملات میں وکیل کرسکے اور تفتیش کا طریقہ کار سائنسی ہونا چاہیے نہ کہ تشدد، کیونکہ تشدد کی اجازت نہ اسلام دیتا ہے نہ پاکستان کا قانون ، تشدد سے جو بیانات لیے جاتے ہیں وہ نوے فیصد جھوٹے ثابت ہوتے ہیں اور عدالتوں میں ایسے لوگ رل جاتے ہیں جو اس جرم کے شریک بھی نہیں ہوتے۔ سندھ کے موجودہ آئی جی ڈاکٹرکلیم امام ایک پڑھے لکھے، سمجھدار اور تجربہ کار شخص ہیں اور پولیس میں ڈی آئی جی، ایس ایس پی اور ایس پی کی سطح پر اچھے لوگ کام کر رہے ہیں مگر ڈی ایس پی سے لے کر عام ہیڈکانسٹیبل تک میں بہت بدعنوانی اور بے جا اختیارات کے استعمال کا دخل ہے۔ ہمیں امید ہے کہ عمران خان وزیر اعظم پاکستان کے تصور کو عملی جامہ پہنایا جائے گا کہ پولیس کو آزاد ادارہ بنانا ہے۔
تمام اثرو رسوخ سے دور رکھنا ہے، یہ اقدام اس لیے ضروری ہے کہ پٹواری سے لے کرکمشنر تک کے عہدیداروں پر سیاستدانوں، زمینداروں کا بہت بڑا اثر ہے وہ سارے فیصلے ان کے دباؤ میں کرتے ہیں۔ اس کو ہماری تاریخ میں فیوڈل سسٹم کہتے ہیں، اسی سسٹم کو توڑنا بہت ضروری ہے اور موجودہ حکومت کے لیے ایک چیلنج بھی ہے اسی سسٹم کی یہ خرابی ہے کہ ووٹرز آزاد نہیں ہیں اور سیاستدان اور عوام میں ہمدردی کا رشتہ نہیں بلکہ سیاستدان اور رعایا کا رشتہ ہے۔ ہمیں عوام کو خاص طور پر دیہی عوام کو یہ شعور دینا ہوگا کہ وہ رعایا نہیںہیں بلکہ اس ملک کے آزاد شہری ہیں جس طرح22سال میں عمران خان نے کرپشن کے خلاف موثر آواز اٹھائی ۔ اسی طرح اب پی ٹی آئی کو سندھ اور پنجاب،بلوچستان اور خیبرپختون خوا کے دیہی علاقوں میں سیاست کو متحرک کرنا ہوگا ورنہ پھر وہی ملک کو لوٹنے والے دوبارہ نئی سیاسی قوت کے ساتھ مسلط ہو جائیں گے۔