زندگی اب تِری رفتار سے ڈر لگتا ہے
مستقبل کے معماروں کو بھی اپنے گزرے اور حالیہ ملکی سربراہوں کے کیے کی سزا بھگتنی پڑے گی
برسوں بعد ''کم بچے خوشحال گھرانہ'' کا سلوگن یا نعرہ ہمارے ملکی منظرنامے پر دیکھنے اور سننے کو مل رہا ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان اور وزیر اعظم بھی بڑھتی ہوئی آبادی کی روک تھام کی نشاندہی کر چکے ہیں۔ گو ہمارے ہاں عموماً یہ کہا جاتا ہے کہ جس ذی روح نے دنیا میں آنا ہے، اس نے اپنا رزق بھی ساتھ لانا ہے۔
بے شک اس سے انکار ممکن نہیں لیکن انسان تدبیرکا پابند ہے اسے یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ وہ اپنی ذمے داری سے بطریق احسن عہدہ برآ ہوسکے گا اور اگر نہیں تو کیا اولاد کے معاملے میں کوتاہی پر اس کی پکڑ نہیں ہوگی؟ پاپولیشن کے حوالے سے یہ حقیقت بھی اپنی جگہ اٹل ہے کہ پہلے ایک باپ کم اور محدود وسائل کے باوجود آٹھ دس بچے باآسانی پال لیتا تھا لیکن اب دس بچے مل کر بھی ماں باپ کو پالنے یا ان کی کفالت کرنے سے قاصر ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ پہلا تو ہمارا ٹکڑے ٹکڑے ہوتا معاشرتی یا گھریلو نظام ہے جس میں رشتوں ہی نے رشتوں کو نگل لیا ہے۔ اس کے بعد حدوں کو تجاوزکرتی یا بے محابہ مہنگائی ہے جس سے عام انسان کے جسم و جاں کا رشتہ قائم رہنا اب ناممکن ہوگیا ہے۔
فن موسیقی یا نغمات سے دلچسپی رکھنے والے موسیقار ناشاد کے نام سے ضرور واقف ہوں گے۔ ان کے منہ اور ان کے ہارمونیم سے موسلا دھار بارش کی طرح دھنیں (موسیقی) برسا کرتی تھیں اور ناشاد کا اپنا ایک الگ انداز اور رنگ تھا۔ میلوڈی ان کی موسیقی کی نمایاں خصوصیت ہوا کرتی تھی یہی وجہ ہے کہ ان کے بنائے ہوئے نغمے، گیت یا غزلیں دل میں اتر جاتی تھیں اور آج بھی اسی طرح لطف دیتے ہیں ان کے بنائے ہوئے گیت بھی۔ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ ناشاد کثیرالعیال آدمی تھے۔ جب ہمیں پہلی بار معلوم ہوا کہ ناشاد ماشااللہ 14 بچوں کے باپ ہیں تو حیران رہ گئے۔ پوچھا ''بیویاں کتنی ہیں؟'' بڑے فخر سے بولے۔ ''ارے میاں اللہ کے فضل سے ایک ہی بیگم ہیں، ہم دوسری شادی کے قائل نہیں ہیں۔''
اس ضمن میں یاروں نے ایک لطیفہ بھی سنایا تھا۔ ہوا یہ کہ موسیقار سہیل رعنا ماڈرن نوجوان تھے، ہر وقت سجے بنے، اچھے لباس میں، لیکن ناشاد کو کبھی کسی نے سفید کرتے پاجامے کے علاوہ کچھ پہنے نہ دیکھا۔ کسی دوست نے ناشاد سے کہا ''استاد اپنا حلیہ تو درست رکھا کرو، سہیل رعنا کو دیکھو وہ بھی تو میوزک ڈائریکٹر ہے۔'' ناشاد بولے ''چپ کرو یار۔۔۔۔موسیقی کا حلیے سے کیا تعلق ہے؟'' وہ کتنا ویل ڈریس رہتا ہے اور ایک تم ہو سدا سے پاجامہ اور چپل پہنے پھرتے ہو۔'' استاد کہنے لگے ''بھئی اس کا کیا ہے۔ وہ تو بیچلر آدمی ہے۔
ایک بیوی اور دو بچے۔ ہمارے تو اللہ کے فضل سے 14 بچے ہیں۔'' مشہور شاعر تسلیم فاضلی کی ناشاد سے بے تکلفی تھی۔ ایک دن انھوں نے ناشاد کو چھیڑنے کے لیے کہا ''ناشاد صاحب آپ کیسے باپ ہیں کہ آپ کو اپنے بچوں کی تعداد بھی معلوم نہیں ہے۔'' ناشاد بگڑ کر بولے ''فضول باتیں مت کرو، مجھے سب معلوم ہے۔'' ''اچھا تو پھر بتائیے کتنے بچے ہیں اور ان کے نام بھی بتا دیں اور اگر آپ صحیح ترتیب سے اپنے تمام بچوں کے نام بتا دیں تو یہ سو کا نیا نوٹ آپ کا، ورنہ آپ سو روپے مجھے دیں گے۔''مختصر یہ کہ ناشاد کوشش کے باوجود چند بچوں کے نام سے زیادہ نہ بتا سکے اور شرط ہار گئے۔
ناشاد کے حوالے سے ایک لطیفہ یہ بھی ہے کہ ایک بار وہ نئی گاڑی خرید کر گھر لے گئے تو محلے کے ڈھیر سارے بچوں نے گاڑی کو گھیر لیا۔ کوئی ہاتھ لگا کر دیکھ رہا ہے، کوئی اوپر چڑھنے کی کوشش میں اور کوئی شیشوں پر لکیریں کھینچ رہا ہے۔ ناشاد کو بہت ناگوار گزرا۔ غصے سے بولے ''ارے بھئی تم سب اپنے اپنے گھر کیوں نہیں جاتے، گاڑی کو خراب مت کرو۔'' ایک بچہ بولا ''ابا میں تو آپ ہی کا بچہ ہوں۔'' ''ٹھیک ہے تم ادھر آجاؤ۔'' ''اور میں بھی آپ کا بیٹا ہوں ٹوٹو۔'' ''تم بھی ادھر آؤ۔'' پتا چلا کہ سب ہی ناشاد کے بچے تھے۔ ناشاد صاحب اس قسم کے لطیفوں پر خود بھی ہنسا کرتے تھے، اور کہتے تھے ''یار خدا کا خوف کرو، اللہ کی دین ہیں، اس کی نعمت ہے کیوں مذاق اڑاتے ہو؟''
لیکن یہ مذاق نہیں کہ ہمارے اور آپ کے ہاں یا اس ملک میں جو بچے پیدا ہو رہے ہیں وہ سبھی ''مقروض'' بچے ہیں اور ہر بچہ وطن عزیز کا ایک لاکھ اکیس ہزار روپے کا مقروض ہے۔ والدین ورطہ حیرت میں ڈوب کر بے ساختہ یہ پوچھنے پر مجبور ہیں کہ ہم نے تو کسی سے قرض لیا ہی نہیں پھر ہمارے بچے مقروض کیوں؟ تو اس کا آسان جواب یہ ہے کہ یہ سب ہمارے پاکستان کے سربراہوں کی کرم نوازی کا شاخسانہ ہے جن کی ناقص حکمت عملی اور مال بناؤ، دوسرے ملک شفٹ کرو اور موقع پاتے ہی ملک سے فرار ہوکر لندن یا دبئی میں عیش کرو کوئی ایکشن نہیں حد یہ کہ ''سوموٹو ایکشن'' بھی نہیں۔ یعنی کرے داڑھی والا اور پکڑا جائے مونچھ والا کہ یہاں طاقتور سب سے بالاتر ہے اور کمزور سب سے تہی دست یا کمزور ۔
ترقی پذیر اور غریب ملکوں کی کرنسیوں کی قدر میں کمی واقع ہوتی رہتی ہے لیکن پاکستانی روپے کی قدر جس تیزی سے کم ہوئی ہے، اس کی مثال دنیا میں بہت کم ملے گی ۔ یہ بات اپنی جگہ بہت تشویش ناک ہے۔ مسئلہ صرف ڈالر مہنگا ہونے کا نہیں ہے، دیگر بہت سے عوامل ہیں جو پاکستان کی معیشت کو ہولناک اور خطرناک بحرانوں سے دوچار کرسکتے ہیں اور اس کے پاکستان کی تاریخ، سیاست اور سماج پر حد درجہ گہرے منفی اثرات پڑ رہے ہیں۔
اس بات میں کوئی دو رائے نہیں ہوسکتی کہ پاکستان کے بیشتر مسائل کی وجہ آبادی میں ہونے والے بے مہار اضافے کو قرار دیا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ بڑھتی ہوئی آبادی ایک ایسا گمبھیر مسئلہ ہے جس پر ہماری حکومتوں نے کبھی خاطر خواہ توجہ نہ دی، نہ کوئی اقدامات ہوئے اور اگر ہوئے بھی تو محض اشتہاری طرز کے۔ حالیہ مردم شماری یہ ہولناک انکشاف سامنے لائی ہے کہ وطن عزیز آبادی کی درجہ بندی میں ترقی پاتے ہوئے چین، بھارت، امریکا اور انڈونیشیا کے بعد دنیا کا پانچواں سب سے بڑا زیادہ آبادی والا ملک بن گیا ہے اور سردست پاکستان کی آبادی بائیس کروڑ ہے اور اس آبادی کو بھی بنیادی سہولیات بہم نہیں۔ بالخصوص پانی، صحت، تعلیم، غذا وغیرہ کے ساتھ ساتھ بدنظمی و بدانتظامی جیسے بے شمار مسائل اسی بے ہنگم آبادی کا شاخسانہ ہیں۔
شہروں کی طرف نقل مکانی اور شہروں کی اپنی آبادی میں اضافے نے انھیں انتہائی غیر منظم انداز میں اور اس قدر پھیلا دیا ہے کہ شہر ایک دوسرے میں مدغم ہونے کو ہیں۔ اتنے وسیع و عریض شہروں میں جرائم کو کنٹرول کرنا اور ہر جگہ بنیادی سہولیات فراہم کرنا بھی مشکل ہے۔ اس کے باوصف شہروں کا پھیلاؤ روکنے کے اقدامات نہیں ہو رہے بلکہ نت نئی ہاؤسنگ اسکیمیں زرعی زمین کی کوکھ کو کچلتی جا رہی ہیں اور اگر یہی ہوتا رہا تو انسانوں کا پیٹ بھرنے والی زمین ناپید ہونے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا۔
ہماری سول سوسائٹی، میڈیا، اساتذہ اور علمائے کرام کو اس ضمن میں حکومت کے اہداف کو یقینی بنانے میں اپنا بنیادی کردار ادا کرنا ہوگا تاکہ ہماری آنے والی نسلیں بدترین حالات میں زندگی گزارنے پر مجبور نہ ہوں کیونکہ جس طرح ترکے میں ملی ہوئی پراپرٹی کے ساتھ کبھی کبھی باپ کے گناہوں کا قرض بھی حصے میں آجاتا ہے، اور افسوس کی بات یہ ہے کہ ایمان دار بچوں کو وہ قرض چکانا پڑتا ہے۔ بالکل اسی طرح ہمارے مستقبل کے معماروں کو بھی اپنے گزرے اور حالیہ ملکی سربراہوں کے کیے کی سزا بھگتنی پڑے گی۔