محنت کشوں کے مسائل جوں کے توں
1973ء کے آئین میں یہ فیصلہ ہوا کہ خواتین کو وراثت کا حق قانونی طور پر منظورکیا جا تا ہے
آج کل سب سے زیادہ مسائل سے دوچار مزدور ہیں، پورٹ قاسم بندرگاہ 1981ء سے آپریشنل ہوئی ہے اور پہلے دن سے ڈاک ورکرز یہاں پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ان کی انگنت قربانیوں کے طفیل آج یہ بندرگاہ بام عروج پر پہنچ چکی ہے لیکن یہاں کے مزدوروں کو دن بدن پستی اور تنزلی کی جانب دھکیل دیا گیا ہے۔
آج کوئی بھی ڈاک ورکرزکی حیثیت اور حقیقت تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہے۔ ان کے جائز حقوق غصب کر لیے گئے ہیں اور ان سے چھٹکارا پانے کی سازشیں کی جا رہی ہیں۔ ڈاک ورکرز (ریگولیشن آف ایمپلائمنٹ ) ایکٹ 1974حاصل شدہ تحفظ اور حقوق کو پامال کیا جا رہا ہے۔ لیبر قوانین پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں ۔ ڈاک ورکرزکو دیوار سے لگانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
ڈاک ورکرزکے کام کرنے کے استحقاق کو باقاعدہ ایک یاد داشت کی صورت میں وزیر پورٹ اینڈ شیپنگ اور چیئرمین پورٹ قاسم اتھارٹی نے تسلیم کیا ہے اور اس کے بعد آنے والی چینی کمپنی کے ساتھ ہونے والا معاہدہ ڈاک ورکرز کے حق روزگارکی وضاحت کے لیے کافی ہے مگر اس کے باوجود ڈاک ورکروں کو برتھ نمبر 3 اور 4 سے بے دخل کرنے کی سازشیں اورکوششں زوروشور سے جاری ہیں ۔ 1751ڈاک مزدوروں نے ان ناانصافیوں کے خلاف پر امن احتجاج 25 ستمبر 2018 سے شروع کیا ، جس کو 100دن پورے ہوگئے ہیں۔
اس دوران ڈاک مزدوروں کے مسئلے کو قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا، سینیٹ میں بھی اس پر بحث ہوئی۔ وزیر اعظم نے دو بار نوٹس بھی لیا جو پرنٹ اورالیکٹرانک میڈیا کی زینت تو بنا مگر اس پرکوئی عملدرآمد نہ ہوسکا، مختلف ٹاک شوز میں بھی اس مسئلے پر بحث ہوتی رہی ہے اور خبریں بھی چلتی رہیں مگرکوئی نتیجہ برآمد نہ ہوسکا۔وزارت میری ٹائم زبانی کلامی وعدوں پر احتجاج ختم کروانے کی کوشش کی، مگرکوئی ٹھوس حل نہیں نکالا۔
ڈاک مزدوروں کا مسئلہ اتنا پیچیدہ اورمشکل نہیں ہے بلکہ نہایت ہی آسان اور سادہ سی بات ہے۔ چینی کمپنی جو پہلے ہی ڈاک مزدوروں سے معاہدہ کرچکی ہے اور اسی معاہدے کے تحت ڈاک مزدورآج بھی ٹرمینل پرکام کر رہے ہیں ۔ اس معاہدے پر نظرثانی ، باہمی مشاورت سے کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے جب کہ 1751ڈاک مزدوروں میں سے تقریبا 1500 ڈاک مزدوروں کے پاس کارڈ مو جود ہیں جب کہ صرف 250 مزدوروں کوگیٹ پاس جا ری کرنے کا مطالبہ ہے، ڈاک ورکرز ریگولیشن آف ایمپلائمنٹ ایکٹ 1974پر عمل درآمد کرکے تمام ٹرمینل پر ڈاک مزدوروں کو حق روزگار دیا جاسکتا ہے ۔
اس پر حکومت پرکوئی مالی بوجھ نہیں پڑے گا بلکہ حکومت کو انصاف کرنے اور ڈاک مزدوروں کے جائزحقوق کا تعین کرنا ہے بلکہ موجودہ قوانین پر عمل درآمد کروانا ہے تاکہ پرائیوٹ ٹرمینل اورکمپنیاں ڈاک مزدوروں کا حق روزگار تسلیم کرکے انہیں ان کے جائزحقوق کی ضمانت دیں ۔ ورکرز یونین آف پورٹ قاسم سی بی اے نے جنرل باڈی کے اجلاس میں یہ فیصلہ کیا کہ اگر حکومت نے 10جنوری 2019 ء تک مسائل حل نہ کیے تو تمام ڈاک مزدور قومی اسمبلی کے دروازے پر تادم مرگ بھوک ہڑتال کریں گے ، جان دے دیں گے مگر اپنے جائز حقوق سے دستبردار نہیں ہوں گے۔ اس اعلان کی حمایت نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن سمیت تمام فیڈریشنوں نے کی ہے۔
1988ء میں میڈیا پر آکر آئی ایس آئی کے سابق ڈائریکٹر حمیدگل نے کہا تھا کہ '' ہم نے بینک سے رقم لے کر آئی جے آئی ( اسلامی جمہوری اتحاد) کو جتوانے اور پاکستان پیپلز پارٹی کو ہروا نے کے لیے استعمال کی تھی'' اس کے بعد 2017 ء میں ٹی وی پر آکر اسد درانی ، حمیدگل اور مرزا اسلم بیگ اور انڈس بینک کے سربراہ یونس حبیب نے کہا تھا کہ '' جی ہم نے 12 کروڑ رو پے بینک سے لے کر آئی جے آئی کو دیے۔
عمران خان نے خود نواز شریف کے دور حکومت میں کہا تھا کہ'' آئی ایس آئی کے حمیدگل، درانی، مرزا اسلم بیگ اور نواز شریف نے مل کر آئی جے آئی میں رقم بانٹی، اس کی تحقیق ہونی چاہیے اور یہ غیر قانونی کام کیونکر ہوا '' اور آج وہی عمران خان اس مقدمے سے دستبردار ہو رہے ہیں۔ جہاں تک ایف آئی اے نے سپریم کورٹ کو درخواست دی ہے کہ اب یہ مقدمہ پرانا ہوگیا ہے،گواہان نہیں رہے، اس لیے اسے ختم کیا جائے، جب کہ ایف آئی اے حکومت کا ماتحت ادارہ ہے،کوئی خود مختار ادارہ نہیں ہے ۔
اب ایک نظر پولیس آفیسر راؤ انوارکی جانب ۔ وہ گرفتار ہوا، مقد مہ درج ہوا ،گواہان آئے، پورے ملک اور میڈیا میں کہرام مچا ۔اسے ملیر چھاؤنی کے اپنے گھرمیں نظربند رکھا گیا ہے۔ اب تو اسے ملازمت سے بھی ریٹائرڈ کردیا گیا۔ مگر نقیب اللہ محسود کے والد کو انصاف نہیں ملا ۔
کچھ یہی صورتحال مشال خان کی ہے ۔ جنھوں نے اسے قتل کیا، ان کے خلاف جے آئی ٹی نے رپورٹ دی کہ مشال خان نے توہین رسالت نہیںکی، قاتلوں کوگرفتارکیا گیا۔اصل قاتل عارف مردان جس کا نام ای سی ایل میں بھی ڈالا گیا تھا ، اسی نے گولی چلائی تھی، اسے ملک سے فرارکروایا گیا ۔ 26افراد پر مقدمہ چل رہا تھا، انھیں عدالت نے رہا کردیا۔
ابھی تک قاتلوں کوگرفتارکیا گیا اور نہ کوئی سزا ہوئی، مشال خان ، ولی خان یونیورسٹی انتظامیہ کی کرپشن پر تنقیدکرتے تھے اور ان کے خلاف میڈیا کو انٹرویو بھی دیے تھے،کرپٹ انتظامیہ کے لوگوں پرکوئی مقدمہ چلا اور نہ تحقیقات ہوئی۔ سب سے بڑا مقدمہ ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف پر ہے ، وہ ملک سے باہر ہے۔ اس نے ملک کے آئین کو توڑا ۔ اسے بڑی شان سے حکومتی عہدے سے رخصت کیا گیا ۔
بے نظیر بھٹو نے کہا تھا کہ '' مجھے اگر قتل کیا گیا تو اس کا ذمے دار جنرل پرویز مشرف ہوگا '' دو وزرائے اعظم کو شہیدکیا گیا ، تین وزرائے اعظم کو سزا ہوئی جب کہ آئین توڑنے والوں کو آئین توڑنے پرکوئی سزا نہیں ہوئی۔ یہ ہے سرمایہ دارانہ نظام کا انصاف اور فیصلے۔ اسی طرح یہاں آئین میں دیے گئے شقوں اور فیصلوں پر بھی عمل درآمد نہیں ہوتا ہے۔
1973ء کے آئین میں یہ فیصلہ ہوا کہ خواتین کو وراثت کا حق قانونی طور پر منظورکیا جا تا ہے، لیکن بیشتر مواقعے پر ایسا نہیں ہو رہا ہے ۔ باپ یا بھائی، بہنوں اور بیٹیوں کو بہلا پھسلا کر یا ڈرا دھمکا کر یا ان کو دھوکا دے کر انگوٹھا لگوا کر ان کے وراثت کے حق پر ڈا کا ڈالا گیا اور جارہا ہے ۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ بیٹیوں کے وراثت کے حق پہ عمل درآمد کروائے اور خاص کرکے دیہی علاقے میں زمین کی وراثت کے حق ، جس سے بہنوں یا بیٹیوں کو محروم کیا گیا ہے،اس کی تحقیق کرکے انھیں ان کا حق دلوایا جائے۔