کوئی بھی معاشرہ یا ملک اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتا جب تک اس کے شہری اپنی ذات سے ہٹ کر نہ سوچیں، اور قومی و اجتماعی مفادات کو ذاتی مفادات پر مقدم نہ رکھیں۔ پاکستان کے بھی مسائل اور تنزلی کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ وطنِ عزیز کا قریباً ہر شہری ذاتی مفادات اور دولت کے حصول کے لیے اپنے ملک اور ہم وطن شہریوں کے نقصان کی بھی پرواہ نہیں کرتا، جس سے مجموعی طور پر ہم اور ہمارا ملک مسائل اور تنزلی کا شکار ہیں۔ ذیل میں ان مسائل کی کچھ وجوہات اور مختلف شعبوں/اداروں سے تعلق رکھنے والے کچھ ایسے افراد کا ذکر ہے:
سرکاری ملازمین و افسران
ہمارے ملک کے قریباً سارے سرکاری ملازمین و افسران ایمانداری سے اپنے فرائض سرانجام نہیں دیتے۔ فرائض سے غفلت برتنا، سرکاری فنڈز ہڑپ کرنا، رشوت خوری، سفارش کلچر اور اقربا پروری ان میں عام پائی جاتی ہے۔ مثلاً ہمارے اساتذہ کرام طلبہ کو خلوصِ نیت اور فرض شناسی سے تعلیم نہیں دیتے، ان کو ایک اچھا انسان اور ایک اچھا شہری بنانے کی تربیت بھی نہیں کرتے۔ ڈاکٹرز اپنے اسپتالوں میں تو کسی حد تک ہمدرد ہوتے ہیں، مگر سرکاری اسپتالوں میں (جہاں وہ ملازمت کرتے ہیں) غفلت برتتے ہیں۔ مریض چاہے ان کی غفلت کی وجہ سے مر ہی کیوں نہ جائیں۔
سرکاری دفاتر میں کام کرنے والے ملازمین، کلرک وغیرہ سمجھتے ہیں کہ شاید وہ فارغ بیٹھنے کی تنخواہ لیتے ہیں۔ سائلین کا کام کرنے کی بجائے ان کو دفاتر کے چکر لگواتے ہیں، اور پھر اگر کام کرتے بھی ہیں تو رشوت لے کر۔ قانون کے رکھوالے وکلا ہی قانون کی دھجیاں اڑاتے نظر آتے ہیں۔ اگر پولیس یا کوئی اور ان کو ایسا کرنے سے روکے تو اس کو مارنا پیٹنا اپنا حق سمجھتے ہیں۔ پولیس والے اور افسران رشوت لے کر، سفارش کی وجہ سے یا پروموشن کی خاطر طاقتور، کرپٹ اور جرائم پیشہ افراد کے دستِ راست بنے ہوئے ہیں۔ افسران ایمانداری سے کام کرنے کی بجائے سرکاری خزانہ لوٹ کر اپنا بینک بیلینس بڑھانے میں لگے ہوئے ہیں۔ سادگی اختیار کرنے کی بجائے سرکاری پیسے پہ عیاشیاں کرتے ہیں۔ حالانکہ یہ سب ملازمین و افسران عوام کے ٹیکس سے تنخواہیں اور مراعات لیتے ہیں۔ عوام کی خدمت ان کا فرض ہے، مگر ان کو اس بات کا کوئی احساس ہی نہیں ہے۔ کیونکہ یہ جانتے ہیں کہ اس ملک میں ان کا احتساب کرنے والا کوئی نہیں ہے۔
علما کرام
ہمارے اکثر علما کا مقصد صرف اپنے مسلک کو ''اسلام کے عین مطابق'' ثابت کرنا یا پیسہ کمانا ہے۔ اس کےلیے بعض اوقات وہ دینِ اسلام کو توڑ مروڑ کر بھی پیش کرتے ہیں۔ یا دین کا صرف وہ حصہ پیش کرتے ہیں، جو ان کے مسلک کے عقائد و نظریات سے مطابقت رکھتا ہو، تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ ان کے مسلک یا فرقہ کو صحیح سمجھیں اور اس میں شامل ہوں۔ انہیں اس بات کی پرواہ نہیں ہے کہ کوئی صحیح معنوں میں اسلام پہ عمل کر رہا ہے یا نہیں، اُسے بس ان کے مسلک کی پیروی کرنی چاہیے۔
علمائے کرام سے گزارش ہے کہ برائے مہربانی ذاتی مفادات، نفرتوں اور فرقہ واریت سے ہٹ کر لوگوں کو محبت، امن اور صحیح اسلام کا درس دیں اور ملکی مسائل حل کرنے میں اپنا کردار ادا کریں تاکہ ایک اسلامی فلاحی ریاست تشکیل دی جا سکے۔
حکمران اور سیاستدان
ہمارے ہاں زیادہ تر سیاست کا شعبہ اپنے کاروبار کو وسعت دینے، قانون کی پکڑ سے بچنے، سرکاری خزانہ لوٹنے، اقربا پروری اور سرکاری پروٹوکول کے مزے لوٹنے کےلیے اختیار کیا جاتا ہے، نا کہ ملک و قوم کی خدمت کےلیے۔ حکمرانوں اور سیاستدانوں کو ملک و قوم سے زیادہ اپنے اقتدار اور پارٹی کی فکر ہوتی ہے۔ ٹکٹ، وزارت یا کسی عہدے کے حصول کے لیے پارٹی سربراہ کا ہر جائز و ناجائز حکم مانتے ہیں، چاہے وہ ملک و قوم کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔ ان سے التجا ہے کہ اگر عوام آپ کو حکومت کے لیے منتخب کرتے ہیں تو خدارا ان پہ رحم کریں۔ اپنی دولت اور جائدادیں بڑھانے کےلیے ان کو زندگی کے بنیادی حقوق اور سہولیات سے محروم نہ کریں۔ حکمرانی ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے، اور روزِ محشر اس کا حساب بھی اتنا ہی بڑا ہوگا۔
مختصر یہ کہ ہم سب اپنے اپنے مفادات اور دولت کے حصول کی خاطر ایک دوسرے کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ نتیجتاً ہمارا ملک مسلسل دھشتگردی، کرپشن، مہنگائی، چوری، ڈاکہ زنی، ریپ اور دیگر جرائم و مسائل کا شکار ہے۔ یہ سب کچھ اب ختم ہونا چاہیے۔ کیونکہ قیامِ پاکستان سے اب تک ہم اس کا بہت زیادہ خمیازہ بھگت چکے ہیں۔ اب ہم مزید نقصان کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ یہ سب کچھ صرف حکمرانوں ہی کی وجہ سے نہیں، بلکہ اس کے ذمہ دار ہم سب ہیں۔ اس صورتحال کو بدلنے کےلیے ہم میں سے ہر شہری خواہ اس کا تعلق کسی بھی شعبے یا ادارے سے ہو، اپنے فرائض و ذمہ داریوں کا احساس کرنا ہوگا اور ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر ملکی ترقی و خوشحالی کےلیے کام کرنا ہوگا، تاکہ ایک ایسا معاشرہ تشکیل پائے جہاں کسی کی جان، مال اور عزت کو کس دوسرے سے کوئی خطرہ نہ ہو۔
اس کےلیے ہر ایک کو اپنے گریبان میں جھانکنا ہوگا کہ اس کے اقوال و اعمال کی وجہ سے کسی دوسرے کو کوئی نقصان تو نہیں ہو رہا؟ کیا وہ ملک و قوم کے خلاف کسی سرگرمی میں ملوث تو نہیں ہے؟ پاکستان سے کرپشن ختم کرنے اور ملکی ترقی و خوشحالی کےلیے وہ کتنا کردار ادا کر رہا ہے؟ مطلب، ہمیں پاکستان اور ملکی مفادات کو ذاتی مفادات پر مقدم رکھنا ہوگا۔ اسی طریقے سے ہم ایک حقیقی تبدیلی لا سکتے ہیں۔ اللہ تعالٰی ہمیں یہ سب کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارے ملک و قوم کا حامی و ناصر ہو۔ آمین۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔