2019ء افغانستان کے لیے ایک اور مشکل سال

ایران نے بھی مہاجرین کے سیلاب کو روکنے کے لیے حکمتِ عملی بنانی شروع کردی ہے۔


فرحین شیخ January 09, 2019

آخر امریکا نے افغانستان میں گھٹنے ٹیک ہی دیے اور ان کے ساتھ مذاکرات کی میز پر آبیٹھا جن کوکچھ عرصے پہلے تک بھی وہ کسی قسم کی بات چیت کے قابل نہ سمجھتا تھا ۔ ٹرمپ کا افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کا اعلان نہ تو غیرمتوقع تھا اور نہ ہی کوئی سر پرائز۔ وہ اپنے انتخابی منشور میں اس بات کا اعلان کر چکے تھے کہ تمام جنگی خطوں سے امریکی فوج واپس بلا لیں گے۔

اب ٹرمپ نے باقاعدہ ٹوئیٹر کے ذریعے اعلان کر دیا ہے کہ ''ISISکے خلاف تاریخی فتح کے بعد وقت آگیا ہے کہ ہمارے جوانوں کو گھر واپس لایا جائے'' یہ تو معلوم نہیں کہ کس فارمولے کے تحت انھوں نے افغانستان میں امریکی فتح کو ثابت کیا ہے، بہرحال اس اعلان کے بعد ایک طرف پوری دنیا میں کھلبلی مچی ہے تو دوسری جانب خود ٹرمپ کے '' سب سے پہلے امریکا '' میں بھی اس فیصلے کے خلاف متضاد رویے سامنے آرہے ہیں ۔

سیکریٹری دفاع جم میٹس تو ناراض ہوکر استعفٰی ہی تھما گئے۔ ریپبلکن اور ڈیموکریٹ تقریباً سب ہی اس فیصلے کو آڑے ہاتھوں لے رہے ہیں، لیکن ٹرمپ کو ہمیشہ کی طرح کسی کی پروا نہیں ۔ وہ اپنے گِنے چُنے حامیوں کے جلوے میں بہت مطمئن اور مسرور نظر آنے کی بودی سی کوششیں کر رہے ہیں ۔ امریکا اپنا کروفر اور جلال فراموش کرکے طالبان کے ساتھ مذاکرات کی میز پر کیسے بیٹھ گیا ؟ اس پر سب کو ہی حیرت ہے، لیکن یہ بھی سچ ہے کہ اس کی ایک اہم وجہ روس کا افغانستان میں قیام ِ امن کے لیے طالبان کی طرف ہاتھ بڑھانا تھا ۔ امریکی حکومت روس کے اس قدم پر ہوشیار ہوگئی اور یوں وہی امریکا جہاں سے بار بار آواز بلند ہوئی کہ طالبان دہشتگرد ہیں، دہشتگردوں سے مذاکرات نہیں ہوتے، اب وہیں سے زلمے خلیل زاد کا طالبان کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھنا کتنے ہی چہروں پر طنزیہ مسکراہٹ سجا چکا ہے ۔

امریکی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق اس وقت شام میں دو ہزار امریکی دستے جب کہ افغانستان میں چودہ ہزار امریکی فوجی تعینات ہیں۔ افغانستان میں موجود فوجیوں کی بڑی تعداد لاجسٹک اور افغان فوج کو تربیت فراہم کرنے کی ذمے داری پر مامور ہے، جب کہ جنگی کارروائیوں میں حصہ لینے والے فوجیوں کی بھی ایک بڑی تعداد موجود ہے۔ رپورٹ کے مطابق اس سال مختلف معرکوں میں اٹھارہ امریکی فوجی جان سے گئے، جب کہ 2001ء سے اب تک سوا دو ہزار امریکی فوجی جاں بحق اور بیس ہزار زخمی ہوئے۔ گزشتہ تین سال میں اٹھائیس ہزار سے زائد افغان فوجی بھی طالبان کی جانب سے ہونے والے مختلف حملوں میں ہلاک ہوئے۔

افغانستان میں دہشتگردی کے خلاف شروع کی جانے والی جنگ میں دنیا جہاں کے جدید اسلحے اور تربیت یافتہ افواج کے باوجود اس بات کو جھٹلایا نہیں جاسکتا کہ پہلے سے کہیں زیادہ علاقے طالبان کے کنٹرول میں جا چکے ہیں۔ اس تمام صورتحال میں اگر امریکا عزت بچاتے ہوئے اپنے قدموں کو واپس پیچھے کی طرف دھکیل رہا ہے تو حیرت کس بات کی؟ جنگ کے تحفظ کے لیے دو ٹریلین ڈالر جھونکنے والے اور پینتالیس ہزار بلین ڈالر سالانہ افغان مشن پر خرچ کرنے والے امریکا کو اب اس خطے سے معاشی مفادات کی بھی آس نہیں۔ اہم سوال تو یہ ہے کہ امریکی افواج کے انخلا کے بعد افغانستان میں ہو گا کیا؟ جس کا صرف ایک ہی جواب ہے اور وہ ہے خانہ جنگی ۔ اس خانہ جنگی کے اثرات صرف افغانستان کے اندرونی معاملات کو ہی بری طرح متاثر نہیں کریں گے بلکہ پورے خطے میں عدم استحکام بڑھ جائے گا۔ افغانستان کے پڑوسی ممالک کو خانہ جنگی کے نتیجے میں سب سے زیادہ خوف مہاجرین کے سیلاب کا ہے۔ افغانستان کی سرحد پاکستان ، ایران ، ترکمانستان ، ازبکستان ، تاجکستان اور چین سے ملتی ہے۔ افغانستان کا بارڈر اقوامِ متحدہ کی نظر میں مہاجرین کی آمد کے اعتبار سے دنیا کا دوسرا بڑا بارڈر ہے۔

اقوام ِ متحدہ کے مطابق پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم افغانوں کی تعداد1.4ملین جب کہ ایران میں 1.2ملین ہے۔ ایران میں حالیہ مچنے والی سیاسی اور معاشی ہلچل کے نتیجے میں ایران سے بڑی تعداد میں افغان واپس چلے گئے، لیکن امریکا کے انخلا کے بعد اگر خانہ جنگی شروع ہوتی ہے تو اس بات کے قوی امکانات ہیں کہ پاکستان اور ایران پر افغان مہاجرین کا سیلاب ایک بار پھر یلغار کردے۔ پاکستان نے اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے افغانستان کے ساتھ اپنی ڈھائی ہزارکلومیٹر طویل سرحدکے ساتھ نہ صرف باڑ لگانے کا کام مکمل کر لیا ہے بلکہ 233 سرحدی چوکیاں بھی قائم کردی ہیں، مزید 144چوکیوں پرکام جاری ہے، ساتھ ہی افغان سرحد پر پچاس ہزار پیرا ملٹری فورس بھی تعینات کردی ہے۔ ایران نے بھی مہاجرین کے سیلاب کو روکنے کے لیے حکمتِ عملی بنانی شروع کردی ہے۔

ترکی سے افغانستان کی سرحد براہِ راست تو نہیں ملتی لیکن ایران کے راستے جانے والی افغانوں کی ایک بڑی تعداد ترکی میں بھی موجود ہے۔ یہاں سے بہت سے افغان یورپ کی طرف نقل مکانی کر جاتے ہیں۔ ترک حکام کا کہنا ہے کہ2018ء میں انھوں نے نوے ہزار افغانوں کا راستہ روکا جو انسانی اسمگلر تھے یا جعلی دستاویزات کے ذریعے ترکی میں داخلے کی کوشش کر رہے تھے۔

اگرچہ ڈونلڈ ٹرمپ نے ابھی تک پینٹاگون کو افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کا حکم نامہ جاری نہیں کیا ہے ، لیکن انتظامیہ کو یقین ہے کہ ایسا جلد ممکن ہے۔ امریکا کے اس فیصلے سے روس، ایران اور پاکستان میں وہ شکوک تو جھاگ کی طرح بیٹھ گئے جن میں اظہار کیا جارہا تھا کہ امریکا جنوبی ایشیا میں مستقل فوجی اڈے بنانے کا ارادہ رکھتا ہے اور یہاں سے کبھی واپس نہیں جائے گا۔ گویا واپسی کے فیصلے کی امریکا سے توقع ہی نہ تھی لیکن ساتھ یہ بھی سچ ہے کہ سفارتکار اور بین الاقوامی امورکے ماہرین اس اچانک امریکی فیصلے سے پریشان بھی بہت ہیں، کیونکہ افغان ملٹری اس قابل نہیں کہ وہ طالبان کے زور کا مقابلہ کرسکے۔

یہ ماننا پڑے گا کہ2019ء افغانستان کی سیاست کے لیے ایک دل چسپ اور خطرناک سال ہوگا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں