تحریک انصاف کے ہزاروں فعال کارکنوں کیلئے سیاسی عہدے دستیاب

حکومت بننے کے بعد تحریک انصاف کی تنظیمی صورتحال پر ترس آنے لگا ہے


رضوان آصف January 09, 2019
حکومت بننے کے بعد تحریک انصاف کی تنظیمی صورتحال پر ترس آنے لگا ہے

تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان 2 دہائیاں گزر جانے کے باوجود تحریک انصاف کو ایک منظم، فعال اور موثر سیاسی جماعت بنانے کا اپنا خواب پورا نہیں کر پائے ہیں، مجموعی طور پر آج بھی تحریک انصاف سیاسی جماعت کی بجائے وار لارڈز کا کنسورشیم معلوم ہوتی ہے جبکہ حکومت بننے کے بعد تحریک انصاف کی تنظیمی صورتحال پر ترس آنے لگا ہے کیونکہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اب اس کا والی وارث ہی کوئی نہیں ہے۔

وفاق اور صوبوں میں حکومت بنے چار ماہ سے زائد عرصہ گزر چکا ہے لیکن تحریک انصاف کی تنظیمی بہتری اور توسیع کیلئے کوئی قابل ذکر اقدامات دکھائی نہیں دیئے بلکہ تحریک انصاف کے رہنما اور کارکن خود کو پہلے سے زیادہ بے بس اور تنہا محسوس کر رہے ہیں جس کی سب سے بڑی وجہ ارباب اقتدار کی اپنے تنظیمی ساتھیوں سے مکمل بے اعتنائی ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت سے مایوسی صرف تحریک انصاف کے اندر نہیں ہے بلکہ وہ لکھاری، فنکار، کاروباری اور دیگر عوامی شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد جو الیکشن سے قبل برسوں تک بنا کسی لالچ اور مطالبہ کے دل و جان کے ساتھ عمران خان کی حمایت میں از خود مہم چلاتے تھے آج وہ بھی سخت مایوس دکھائی دے رہے ہیں۔

سوشل میڈیا پر بھی تحریک انصاف کے ٹائیگر پہلے کی طرح چیختے چنگھاڑتے اودھم مچاتے دکھائی نہیں دے رہے جبکہ گلی محلوں میں الیکشن سے قبل ہمہ وقت متحرک رہنے والے حقیقی کارکن بھی گوشہ تنہائی میں چلے گئے ہیں کیونکہ جب ان کے کہنے پر معمولی سے معمولی سرکاری کام بھی نہیں ہونا اور مقامی ایم پی اے اور وزیر نے ملاقات کا وقت بھی نہیں دینا تو وہ کس طرح سے لوگوں کا سامنا کریں، صورتحال کی سنگینی اس لئے بھی بڑھتی جا رہی ہے کہ شدید معاشی بحران، کاروباری مندے اور بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بے روزگاری نے عوام میں تحریک انصاف کے خلاف شدید غم وغصہ بھر دیا ہے جس کا سامنا کرنا موجودہ صورتحال میں تو تحریک انصاف کے رہنماوں اور کارکنوں کے بس میں نہیں ہے ۔ تحریک انصاف کی حکومت بنی تو سیاسی حلقوں کو امید تھی کہ اب تحریک انصاف اپنی تنظیمی صورتحال کو بہتر بنانے اور پارٹی کو مضبوط بنانے کیلئے خصوصی توجہ دے گی لیکن اب تک ایسا کچھ بھی ہوتا دکھائی نہیں دیا ہے۔

تحریک انصاف کے نئے سیکرٹری جنرل ارشد داد کو بھی اپنے کارکنوں اور رہنماوں کی توقعات اور مایوسیوں کا بخوبی علم ہوگا لیکن ارشد داد کو ملک بھر کے کارکنوں اور رہنماوں کیلئے اپنی دستیابی بڑھانے کی اشد ضرورت ہے، ارشد داد کا زیادہ وقت اسلام آباد میں گزارنے سے دور دراز علاقوں کے رہنما اور کارکن اپنی تنہائی کو زیادہ محسوس کرتے ہیں۔

عمران خان کو یہ ادراک ہونا چاہئے کہ وہ بہت ہی نازک صورتحال سے گزر رہے ہیں، سب کو معلوم ہے کہ انہیں حکومت ''دی'' گئی ہے انہوں نے خود حاصل نہیں کی ہے، دینے والوں نے ''کنٹرولنگ ٹولز'' کے تحت کمزور حکومت دی ورنہ بقول اپوزیشن جماعتوں کے جنہوں نے تحریک انصاف کو 60 سے زائد قومی اسمبلی کی نشستیں''ارینج'' کر کے دی ہیں وہ چاہتے تو 15/20 نشستیں مزید دلوا کر مضبوط حکومت بنوا سکتے تھے لیکن دانستہ طور پر ایسا نہیں کیا گیا کیونکہ عمران خان کے بارے ''انہیں'' یہ یقین نہیں ہے کہ کپتان ہمیشہ ''ان کنٹرول'' رہے گا۔ ایک تھیوری یہ بھی پیش کی جا رہی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے اگر اپنا کوئی سیٹ اپ لانا ہے تو اس کیلئے پہلے ایک باری عمران خان کو دینا ضروری تھا کیونکہ نواز شریف اور آصف زرداری سے مایوس عوام کی اکثریت کو عمران خان سے بہت امیدیں وابستہ تھیں اگر عمران خان کو حکومت دیئے بغیر کوئی سیٹ اپ لایا جاتا تو اسے عوام مسترد کر دیتے لہذا عمران خان کو ایک کمزور حکومت دی گئی اور خود عمران خان نے ایک متنازع اور کم استعداد رکھنے والے افراد پر مشتمل وفاقی و صوبائی کابینہ بنا کر اپنے مسائل میں اضافہ کیا۔

اس وقت وفاقی وزراء کی اکثریت نظام حکومت چلانے اور اپنی وزارتوں میں انقلابی تبدیلیاں لا کر عوام میں حکومت کی ساکھ بہتر بنانے کی بجائے صرف پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) کے ساتھ محاذ آرائی اور بیان بازی پر تمام وقت اور توانائیاں خرچ کر رہی ہے۔ عوام کو بھی معلوم ہے کہ نواز شریف اور آصف زرداری کے خلاف نیب کیسز میں بہت کچھ حقیقت ہے لہذا حکومت کو اب اپنی کارکردگی کے ذریعے عوام میں تحریک انصاف کو ان دونوں جماعتوں سے بہتر ثابت کرنے پر توجہ دینا چاہیے لیکن فی الوقت تو یہ صورتحال ہے کہ تحریک انصاف حکومتوں کی ناقص کارکردگی اور نا اہلی کی وجہ سے عوام کی اکثریت ن لیگ اور پیپلز پارٹی سے کہیں زیادہ مایوس اور خوفزدہ تحریک انصاف سے ہے۔ مایوسی کے اس گہرے تاثر کو توڑنے کیلئے تحریک انصاف کی قیادت کو سب سے پہلے خود اپنے کارکنوں اور رہنماوں کی مایوسی کو ختم کرنا ہوگا ۔

کہا جاتا ہے کہ مسلم لیگ(ن) نے صرف پنجاب کے اندر مختلف سرکاری محکموں اور اداروں میں ہزاروں سیاسی تعیناتیاں کررکھی تھیں جو آج بھی برقرار ہیں، تحریک انصاف کی قیادت نے اس حوالے سے رپورٹس بھی تیار کروائی ہیں جبکہ ایک تنظیمی کمیٹی بھی تشکیل دی گئی ہے جو پنجاب بھر میں ایسے متحرک رہنماوں اور کارکنوں کی فہرستیں تیار کر رہی ہے جنہیں الیکشن میں ٹکٹ نہیں ملا تھا اور اب انہیں محکموں اور اداروں میں تعینات کیا جائے گا۔کارپوریشن کمیٹیاں، مارکیٹ کمیٹیاں، زکوۃ کمیٹیاں، امن کمیٹیاں، پرائس کنٹرول کمیٹی، سی پی ایل سی، اتھارٹیز وغیرہ ایسے محکمے اورا دارے ہیں جہاں تحریک انصاف کے کارکنوں کو اکاموڈیٹ کیا جائے گا۔

اس حوالے سے تحریک انصاف کی قیادت اور بالخصوص ارشد داد کی سربراہی میں قائم کمیٹی پر مزید ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ شفافیت اور میرٹ کے ساتھ اپنی سفارشات تیار کریں، اقربا پروری، دھڑے بندی اور پسند و ناپسند کو بالائے طاق رکھ کر تحریک انصاف کے بہترین مفاد میں لوگوں کو منتخب کیا جائے۔ تحریک انصاف کی قیادت کو اس بارے بھی غور کرنا چاہیے کہ بہت سے ایسے ٹکٹ ہولڈرز ہیں جو مختلف شعبوں میں حکومت کیلئے بہترین خدمات سر انجام دے سکتے ہیں ، انہیں بھی سرکاری محکموں اور اداروں میں تعینات کرنا چاہئے جبکہ ابھی تک تحریک انصاف کی خواتین رہنماوں اور کارکنوں کو بری طرح سے نظر انداز کیا گیا ہے، ان تعیناتیوں میں خواتین کا قابل ذکر شیئرہونا چاہئے اور یہ بھی ملحوظ خاطر رکھا جائے کہ جو ''کارنامہ'' خواتین کی مخصوص نشستوں کی تیاری کے وقت انجام پایا تھا ویسا دوبارہ نہ ہونے پائے۔ معلوم ہوا ہے کہ تحریک انصاف کی قیادت نے پنجاب میں تحریک انصاف کے ریجنل صدور ختم کر کے ڈویژنل اور ڈسٹرکٹ صدور بنانے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ پنجاب کی سطح پر ایک صوبائی صدر اور جنرل سیکرٹری ہوگا۔ یہ عمدہ فیصلہ ہے اور اس سے بہت سے شکوے شکایات بھی ختم ہو جائیں گے بالخصوص عمر ڈار کو سنٹرل پنجاب کا صدر بنائے جانے پر تحریک انصاف کے اندر جو ری ایکشن دیکھنے میں آیا تھا اس کے پیش نظر مجوزہ نظام زیادہ بہتر ہوگا،عمرڈار کو گوجرانوالہ ڈویژن کا صدر بنایا جائے تو سنٹرل پنجاب کے دیگر رہنماوں کو اعتراض نہیں ہوگا۔اب مزید کسی تاخیر کے بغیر تحریک انصاف کی تنظیمی صورتحال کو بہتر اور فعال بنانے پر توجہ دینا ناگزیر ہو چکا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں