گنا…اور گناہ
سائنسی نظریہ بگ بینگ میں بھی ایک انڈا نما ذرہ ہی زور سے ٹھپا تھا۔ہر بیج بھی گول ہوتا ہے
آپ خود ہی انصاف سے کہیے جب مرغی پر نگاہ ہو تو انڈے کی کیا حیثیت ہے، یہ ہم پرانے زمانے کی بات کررہے ہیں ورنہ آج کل تو انڈا کم ازکم اپنے ملک میں مرغی سے بھی زیادہ اہمیت اختیار کرچکا ہے،کیونکہ ایک ماہر''معاشیات'' واقتصادیات وریاضی نے کہا ہے کہ جس طرح''ہندسے'' بغیر صفر کے کچھ بھی نہیں کرسکتے ہیں اسی طرح معاشیات کی بنیاد بھی''انڈا''ہے دونوں نہ صرف ہم شکل ہیں بلکہ بقول مرشد
ہم مشرب وہم وہمراز ہے میرا
''انڈے'' کو براکیوں کہو اچھا میرے آگے
ہندی دیومالا میں جب برہما دیوتا پیدا ہوا تو اس کے پیٹ میں ایک انڈا تھا''گرنیہ گرھ'(سنہرا حمل) تھا جس سے اس نے یہ کائنات بنا دی۔ اسی لیے کائنات کو ''برہمانڈ'' یعنی برہما کا انڈا کہاجاتاہے۔ یونانیوں کے مطابق جب سیاہ پروں والی''رات'' نے ہوا سے ملاپ کیا تو ''اری بس'' کے رحم میں ایک رولیلی انڈا دیا، قرنوں کے بعد اس انڈے سے عجوبہ پیدا ہوا جس کے پر طلائی اور سرچار تھے یہ محبت کا دیوتا''ایروز'' تھا۔
سائنسی نظریہ بگ بینگ میں بھی ایک انڈا نما ذرہ ہی زور سے ٹھپا تھا۔ہر بیج بھی گول ہوتا ہے، ہر مائع کا قطرہ بھی گول ہوتا ہے مطلب یہ کہ ہر چیز کی بنیاد''انڈا''ہے۔ انڈا جو صفر ہے،اور صفر جو انڈا ہے۔آپ یقین کریں کہ ہم تو اسی ایک بات پر اپنے عمران خان کے فین گرویدہ عاشق اور قدردان ہوگئے۔حالانکہ ہم انھیں ''یونہی''سا سمجھتے تھے۔لیکن انھوں نے انڈے کو معیشت کی بنیاد کہہ کر ہمارے دل کو چھو لیا۔''ایسی چنگاری بھی یا رب اپنے خاکستر میں تھی'' ہمارا تو خیال تھا کہ یہ سارے لیڈر صرف ایک دونا دونے اور دو دونے چار ہوتے ہیں لیکن ان میں تو ایک سے بڑھ کرعالم فاضل بھی ہوتاہے۔
موصوف کے بارے میں بھی ہم یہی سمجھتے تھے کہ آئیڈیا انھوں نے کرکٹ کی گیند سے اخذ کیا ہے،لیکن اب جتنا جتنا سوچتے ہیں انڈے اور گولائی کے اسرار ہم پر کھلتے جا رہے ہیں۔ آپ نے سوچا ہے؟ کہ یوٹرن بھی دراصل آدھا انڈا ہوتاہے۔لیکن بہت زیادہ متاثر ہم اس لفظ''گناہ'' سے ہوگئے جس کے ساتھ بھی یہ انڈے جیسی(ہ) لگی ہوئی ہے اور یہ کمال اس انڈے جیسی(ہ) کا ہے ورنہ اس کے بغیر تو یہ ''گنا'' ہوجاتاہے۔بلکہ آپ سے کیا پردہ، ہم جب یہ ''گناہ ٹیکس'' کا لفظ لانچ ہوا تو اسے گنا ہی سمجھ بیٹھے تھے اور اس کی دو وجوہات تھیں ایک تو یہ کہ آج کل گنے کا سیزن ہے، ہمارا تعلق بھی''گنے'' والے علاقے سے ہے اور دوسری وجہ یہ کہ خیبرپختون خوا کے ساتھ اکثر یہ(ہ) دیکھ دیکھ کر اسے نظرانداز کرنے کی عادت سی پڑگئی ہے کیونکہ صحیح لفظ ''پختون خوا'' یعنی بغیر انڈے کے ہوتا ہے یہ فارسی کا خواہ مخواہ والی ''خواہ'' نہیں ہے بلکہ پشتو کی ''خوا' ہے جس کے معنی طرف سمت اور علاقہ کے ہوتے ہیں۔
بہرحال ''پختون خواہ''پڑھتے پڑھتے اور اس سے ''خوا'' کا مطلب لیتے لیتے آنکھوں میں اس انڈے یا صفر جیسی(ہ) کے کوئی جگہ ہی نہیں رہی، اس لیے ہم نے جب''گناہ ٹیکس'' پڑھا تو اسے گناٹیکس سمجھ بیٹھے کہ ہو نہ ہو یہ شوگرملوں والوں کو عوام کا مزید رس نکالنے کے لیے کوئی نئی تدبیر کی گئی ہو۔یا ایک اور خیال بھی آیا تھا لیکن اس کو ہم نے مسترد کردیا کیونکہ اس کا علم صرف ایک پشتو بولنے والے کوہوسکتا ہے عمران خان بھی اگرچہ خود کو نیازی پختون کہتے ہیں لیکن اس ''گنا بیس'' محاورے کا تعلق نسل سے نہیں ''لسان'' سے ہے۔اور ثبوت ایک ٹپے میں ہے کہ
مادرتہ وے پیغلہ وادہ کڑہ
پیغلہ''گنے'' دے بند پہ بند خواگہ پریگدینہ
ترجمہ اس کا یہ ہے کہ، میں نے تجھ سے کہا تھا کہ کنواری نوجوان عورت سے شادی کرلو کنواری نوجوان عورت ایک ''گنے'' کی طرح ہوتی ہے جو ہر بند کے ساتھ اور میٹھی اور میٹھی ہوتی چلی جاتی ہے۔
یہ کسی ایسے شاعر یا عاشق کی تخلیق ہے جو ''گنے'' سے خوب واقف تھا اور عورتوں سے بھی بلکہ ہر کیٹیگری کی عورت سے شادی کرنے کا چمپئین رہا ہوگا اب پتہ لگانا تو مشکل ہے کہ اس نے یہ''مشورہ'' کسی اور کو دیا تھا یا خود ہی اپنے آپ کو اپنی غلطی پر لعنت ملامت کررہا تھا۔گنے کے بارے میں سارے گنے والے جانتے ہیں کہ اسے چوستے یا کھاتے ہوئے ابتدا اوپر سے جڑ کی طرف جاتی ہے پہلے نسبتاً پھیکے بند اور پھر ہربند کے ساتھ مٹھاس میں اضافہ۔
لیکن دنیا میں طرح طرح کے لوگ پائے جاتے ہیں ہمارا ایک چچازاد بھی اس تسلیم شدہ''گناچوسی''سے اختلاف کرتاتھا وہ گنے کو جڑ کی طرف شروع کرتا تھا ہم اکثر اس کا مذاق اڑاتے تھے، دلیل کے لیے مذکورہ ''ٹپہ'' بھی سناتے تھے لیکن اس کے پاس بھی بڑی زبردست دلیل تھی۔ کہتا تھا اگر میں پھیکے والے حصے سے شروع کروں اور اچانک درمیان میں کوئی اور شخص آجائے جس سے انکار کرنا ممکن نہ ہو اور باقی کا گنا اسے دینا پڑجائے تو؟ گویا پھیکا پھیکا میرے حصے میں اور میٹھا میٹھا اس کے حصے میں آجائے گا۔اس لیے بہتر ہے کہ میں خود ہی میٹھا میٹھا چوس لوں۔جب ہم اعتراض کرتے کہ پھر پھیکے حصے کا تو مزا ہی نہیں رہے گا تو کہتا، جہاں مجھے لگا کہ پھیکا پن آگیا ہے تو اسے پھینک کر دوسرا''گنا'' توڑ لوں گا۔
اب یہ ایسا فلسفہ ہے جسے یا تو گنا چوسنے والے سمجھتے ہیں یا ہر کیٹیگری کی عورت سے شادی کرنے والے۔اس لیے فل اسٹاپ۔
اور اصل بات پر آتے ہیں جو اب ہماری سمجھ میں آگئی جب ہم نے''گنا'' کی جگہ گناہ ٹیکس پڑھا۔ جہاں تک اس لفظ ''گناہ'' کا تعلق ہے جس پر اکثر لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ ٹیکس سے گناہ اگر کم ہوسکتا تو پاکستان کے ہر شہر میں روزانہ کباڑیوں کو شراب کی خالی بوتلیں کیوں ملتیں۔کسی حد تک یہ درست بھی ہے کہ ممانعت ایک طرح کی ترغیب ہوتی ہے، بقول مرشد
پاتے نہیں جب راہ تو چڑھ جاتے ہیں نالے
رکتی ہے میری طبع تو ہوتی ہے رواں اور
لیکن پھر بھی ہم اس لفظ گناہ ٹیکس کے حق میں ہیں اور اس کے لیے ہمارے پاس ٹھوس دلیل بھی ہے ریاست مدینہ،خلافت عمر ؓ صادق وامین جیسی اصطلاحات جہاں مروج ہوں وہاں''سگریٹ' کو ''گناہ'' کا ٹائٹل دینا بھی غلط نہیں ہے۔ جب مقصد بھی''گناہ''روکنا...نہ ہو بلکہ تاجروں کا مفاد ہو۔ ویسے آخر میں ہم صرف ایک سوال آپ سے کرتے ہیں کہ لوگ منشیات کو استمعال کیوں کرتے ہیں جانتے بوجھتے موت کو گلے کیوں لگاتے ہیں، غربت پریشانی بے کسی بے بسی کے دشمن سے فرار ہونے والا یہ نہیں دیکھتا کہ آگے کنواں ہے یا کھائی ؟