حکمران غصے میں ہیں… با ادب ہوشیار

آپ پاکستان میں بھی یہ قانون بنا دیں کہ عدالتیں کرپشن کرنے والے کو پھانسی کی سزا دیں۔


مزمل سہروردی January 10, 2019
[email protected]

بزرگوں سے سنا ہے کہ جھکے ہوئے درخت کو ہی پھل لگتا ہے ۔خدا عزت دیتا ہے تو اس کو سنبھالنے کی توفیق دے۔حکمرانوں کو عوام کے ساتھ عزت سے پیش آنا چاہیے۔ سیاسی مخالفین کو گالی نہیں نکالنی چاہیے۔ اختلاف تہذیب کے دائرے میں رہ کر کرنا چاہیے۔ اخلاق کے دامن کو نہیں چھوڑنا چاہیے۔ تاہم اس وقت پاکستان میں ایسا کچھ بھی نہیں ہو رہا۔ ایسا لگ رہا ہے کہ حکمران غصہ میں ہیں۔ گالم گلوچ کا کلچر پروان چڑھ رہا، جھکے ہوئے درخت کی بجائے کسی بداخلاق درخت پر پھل لگ گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے جنھیں عزت سے نوازا ہے ان سے سنبھل نہیں رہا۔ اخلاقیات کا تو جنازہ ہی نکل گیا ہے۔

مجھے سمجھ نہیں آرہی حکمرانوں کو غصہ کس بات کا ہے۔ اپوزیشن چور ہے اس بات میں غصے والی کیا بات ہے۔ آپ حکمران ہیں چور کو پکڑنا آپ کا کام ہے۔ لیکن اصولی بات تو یہ بھی ہے کہ جہاں چور کو پکڑنا آپ کا کام ہے۔ وہاں چور کو گالی نکالنا ، منہ کالا کر کے گلی میں چکر لگوانا آپ کا کام نہیں۔ آپ چور پر چوری کا الزام لگا سکتے ہیں۔ اس نے چوری کی ہے کہ نہیں یہ فیصلہ عدالت نے کرنا ہے۔ آپ اپنا کام کریں عدالت کو اپنا کام کرنے دیں۔ آپ کو چین کا یہ قانون بہت پسند ہے کہ کرپشن کرنے والے کو پھانسی پر لٹکا دیا جائے۔

آپ پاکستان میں بھی یہ قانون بنا دیں کہ عدالتیں کرپشن کرنے والے کو پھانسی کی سزا دیں۔آپ کی قومی اسمبلی میں اکثریت ہے ۔ آپ سادہ اکثریت سے یہ قانون بنا سکتے ہیں۔ جہاں تک مسئلہ ہے کہ یہ قانون سینیٹ سے نہیں پاس ہو گا۔ تو اگر سینیٹ سے مسترد ہونے کے بعد دوبارہ یہی قانون قومی اسمبلی پاس کر دیتی ہے ۔ تو سینیٹ کے مسترد کرنے کی کوئی حیثیت نہیں رہے گی اور قانون بن جائے گا۔ اگر بہت جلدی ہے اور پھانسیوں میں تاخیر برداشت نہیں تو صدر مملکت سے کہہ کر ایک آرڈیننس لے آئیں کہ کرپشن کی سزا موت ہو گی۔ اللہ نے آپ کو حکومت دی ہے۔ آپ تو یہ قانون بھی بنا سکتے ہیں کہ کرپشن میں جن کو اب تک سزائیں ہو چکی ہیں وہ تمام سزائیں بھی منسوخ اور اس کی جگہ انھیں موت کی سزا دی جاتی ہے۔ لیکن غصہ کرنے والی کونسی بات ہے ۔

حکومت کا رویہ تو پولیس کے تھانیدار جیسا ہوگیا جو قانون کے مطابق کارروائی کرنے کی بجائے بس صرف گالیاں ہی نکالتا ہے۔تھرڈ ڈگری کااستعمال کرتا ہے۔آپ دیکھیں چاہے ملزم چور ہو ڈکیت ہو قاتل ہو لیکن پولیس کو نہ تو اسے گالیاں نکالنے کی اجازت ہے اور نہ ہی تھرڈ ڈگری استعمال کرنے کی اجازت ہے۔ بلکہ حکومت اور قانون نافذ کروانے والے اداروں کو ایک مہذب ملک میں ملزمان کے حقوق کا بھی تحفظ کرنا ہوتا ہے۔

پاکستان میں بہت جابر حکمران بھی گزرے ہیں۔ لوگوں کو جمہوریت کی پاداش میں سر عام ننگے جسم پر کوڑے بھی مارے گئے ہیں۔ آج تو ملٹری کورٹس صرف دہشت گردوں کے مقدمات سن رہی ہیں۔ پاکستان میں ایسا بھی دور رہا ہے جب سیاسی کارکنوں اور عام مقدمات کی سماعت بھی عام کورٹس میں نہیں کی جاتی تھیں۔ لوگوں کو اپیل کا حق نہیں تھا اور بنیادی انسانی حقوق تھے۔ لیکن شائد وہ حکمران بھی اپنی گفتگو اور لہجہ میں شائستہ رہے ہیں۔یہاں وہ دور بھی رہے جب میڈیا پر ننگی سنسر شپ رہی ہے۔ لیکن تب بھی اخلاقیات کا خیال ضرور رکھا جاتا تھا۔ شائد سوال کرنے پر سر عام اس طرح گالیاں تب بھی نہیں دی جاتی تھیں۔ یہاں ایسے حکمران بھی رہے ہیں جنہوں نے سیاسی قیادت کو جلا وطن کیا ۔ لیکن وہ بھی بظاہر اخلاقیات کو خیال رکھتے تھے۔

مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ حکومت کے لہجے میں غصہ اور الفاظ میں اتنی سختی کیوں ہیں۔ حالیہ دنوں میں دو وزراء نے صرف سوال کرنے پر اتنا برا منایا ہے کہ سب حیران ہیں۔ کیا چاہتی ہے یہ حکومت، کیا سوال کرنے کی آزادی بھی نہیں دینا چاہتی ہے۔ مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ کیا سوال کرنا بھی کرپشن تو نہیں قرار دے دیا جائے گا۔ اور کہا جائے گا سب چور اور لٹیرے سوال کر رہے ہیں۔ ان چوروں کی یہ جرات کہ یہ اب ہمیں سوال کریں ۔ سوال کرنے کو بھی کرپشن قرار دیکر انھیں موت کی سزا دے دی جائے۔

اب آپ دیکھ لیں عدالت نے اعظم سواتی کا معاملہ ایف بی آر کے حوالے کر دیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں بہت درست اور ٹھیک فیصلہ ہے۔ اگر کوئی کرپشن ہوئی ہے تو اس کا پتہ حکومتی اداروں نے ہی چلانا ہے۔ ان کی تفتیش بھی حکومت نے ہی کرنی ہے۔ اب ہر معاملہ پر سول و عسکری اداروں کی جے آئی ٹی تو نہیں بن سکتی۔ جے آئی ٹی تو صرف اپوزیشن کے مقدمات میں بنتی ہے کیونکہ حکومت اپوزیشن کے لوگوں کی تفتیش نہیں کر سکتی۔ اس لیے ان کے مقدمات میں جے آئی ٹی بنا دی جاتی ہے۔ لیکن ا عظم سواتی کا معاملہ تو سادہ ہے۔اس لیے اس میں نہ تو کسی جے آئی ٹی کی ضرورت ہے۔ وہ حکومت کے رکن ہیں۔ انھوں نے بے شک وزارت سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ لیکن ابھی بھی ان کا نام حکومتی ویب سائٹ پر بطور وزیر موجود ہے۔ کوئی بات نہیں۔ حکومت غصہ میں ہے اور غصہ میں ایسی چھوٹی موٹی غلطیاں ہوتی رہتی ہیں۔ برا نہیں منانا چاہیے۔

ایک دوست سوال کر رہا ہے کہ کیا اعظم سواتی کے معاملے کی انکوائری ایف بی آر سے کروانے کا مطلب بھی یہ نہیں ہے کہ دودھ کی رکھوالی بلی کو بٹھا دیا گیا ہے۔ لیکن میں نے اپنے دوست کو بہت سختی سے جھڑک دیا ہے۔ بلکہ اس کو حکمرانوں کے انداز بیان میں ڈانٹا ہے۔ شرم دلوائی ہے۔ گالیاں دی ہیں کہہ اس نے ایسی بات سوچ بھی کیسی لی۔ یہ بات صرف قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف کے لیے ہے۔ صرف ان کے معاملے میں یہ کہنے کی اجازت ہے کہ دودھ کی رکھوالی بلے کو بٹھا دیا ہے۔ غلط ضرب المثل کو غلط موقعے پر استعمال کرنے سے نہ صرف اس کا مطلب ختم ہوجاتا ہے بلکہ وہ اپنا مطلب کھو بھی دیتی ہے۔حکومت کو اپنا احتساب خود کرنے کی مکمل آزادی ہونی چاہیے۔ یہی حق حکمرانی ہے۔ اگر انھیں حق حکمرانی ہی نہیں دیا جا ئے گا تو ایسی حکمرانی کا کیا فائدہ۔

یہ درست ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت نے پاکستان کی سیاست کو ایک نیا کلچر دیا ہے۔ لوگوں کو شعور دیا ہے کہ کیسے گالی دینی ہے۔ لیکن یہ کوئی نیا نہیں ہے۔نوے کی دہائی میں ن لیگ اور پی پی پی بھی ایسے ہی ایک دوسرے کو گالیاں دیتے تھے۔ پھر وقت نے انھیں یہ سبق سکھایا کہ اس طرح گالیاں دینے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ اس لیے انھوں نے ایک دوسرے کے ساتھ اخلاقیات اور ادب سے پیش آنے کا طریقہ سیکھ لیا۔ لیکن تحریک انصاف نہ تو اس معاہد ہ کی حصے دار ہے اور نہ ہی وہ دونوں جماعتوں کے درمیان باہمی رواداری کا ہونے والا کوئی معاہدہ مانتی ہے۔ اس لیے ہو کھل کر کھیل رہی ہے۔

تحریک انصاف میں یہ کلچر کوئی نیا نہیں ہے۔ ایک ٹی وی شو میں تحریک انصاف کے لیڈر نے اپنے مخالف کو تھپڑ مار دیا۔ بعد میں اس لیڈر کا یہ بھی دعویٰ تھا کہ انھیں ان کے لیڈر کی جانب سے اس پر شاباش دی گئی ہے۔ اس طرح یہ تاثر بھی موجود ہے کہہ کہیں نہ کہیں بدتمیزی اور غصہ کو سیاسی آشیر باد بھی حاصل ہے۔

لیکن دوستو !پریشان ہونے کی کوئی بات نہیں ہے۔ اس ملک میں سر عام کوڑے مارنے والوں کا کوئی نام و نشان نہیں رہا۔ یہاں جلاء وطن کرنے والے جلاء وطن ہوئے بیٹھے ہیں۔ یہاں کئی آئے کئی گئے۔ اس لیے اگر وہ نہیں رہے تو یہ کیسے رہ سکتے ہیں۔ لیکن پھر بھی اگر جان کی مان مل جائے تو یہ عرض ضرور کرنا چاہتا ہوں کہ حکمرانی آپ کا حق ہے۔ ہم عوام ہیں۔ ہم نے تو جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق پہلے بھی کہا ہے اب بھی کہہ رہے ہیں۔ لیکن آپ تاریخ میں کیسے یاد رکھے جائیں گے یہ آپ نے خود طے کرنا ہے۔ غصے والے حکمران کوئی اچھی پہچان نہیں ہے، باقی آپ کی مرضی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں