مصری فوج پس منظر میں کردار ادا کرے گی
مصر میں مرسی حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ وہاں پر بھی...
مصر میں مرسی حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ وہاں پر بھی بنگلہ دیشی طرز کی عبوری حکومت قائم ہوگئی ہے۔ اخوان نے اپنی حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد قاہرہ اور دوسرے شہروں میں بڑے مظاہرے اور بھرپور احتجاج کیا ہے۔ فوجی ہیڈ کوارٹرز کے سامنے مظاہرے پُر تشدد ہو گئے جہاں فوج نے مظاہرین پر گولیاں چلا دیں نتیجتاً بہت سے لوگ جاں بحق اور زخمی ہوئے۔ مرسی حکومت کا تختہ الٹنے پر سعودی عرب، قطر اور دوسری عرب بادشاہتوں نے خوشی اور اطمینان کا اظہار کیا۔ اس اطمینان اور خوشی کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اگر اخوان مصر میں کامیاب ہو جاتے تو پھر عرب بادشاہتوں کے عوام بھی جمہوریت کا مطالبہ کرتے۔
مصر میں فوج خود اقتدار میں نہیں آئی بلکہ وہ اپنا کردار پس منظر میں ادا کر رہی ہے۔ آنے والے وقت میں بھی وہ اپنا کردار پس منظر میں ادا کرتی رہے گی اور یہ کردار ایسا ہی ہو گا جیسا پاکستانی فوج پچھلے پانچ سال سے ادا کر رہی ہے۔ یعنی جمہوریت کی مضبوطی۔ سب جانتے ہیں کہ اگر پاک فوج کے سربراہ اپنا کردار ادا نہ کرتے تو سابق حکومت کے لیے اپنی مدت پورا کرنا ناممکن تھا۔ پاکستان کے تمام ادارے بشمول عدلیہ بھی اسی معاملے میں یکسو تھے۔ کہا جا سکتا ہے کہ اب نظریہ ضرورت ہمیشہ کے لیے دفن ہو چکا ہے۔ فوج اور عدلیہ نے اس معاملے میں بھرپور ہم آہنگی کا مظاہرہ کیا۔ اگر ہم پاکستان کی تاریخ کو مدنظر رکھیں تو حیرانی ہوتی ہے کہ یہ سب کیسے ہو گیا اور یہ انقلابی تبدیلی کیسے آ گئی۔ جب کہ ماضی میں سب کچھ الٹ تھا۔ فوج جب پاکستان میں کسی حکومت کا تختہ الٹتی تھی تو عدلیہ فوراً اس کی تائید اور توثیق کر دیتی تھی۔ یعنی بات وہی ہے کہ
یا الہی یہ عجب ماجرا ہو گیا
کہ جنگل کا جنگل ہرا ہو گیا
لیکن جو بات ہمیں یاد رکھنے کی ہے کہ یہ سب کچھ اچانک اور خود بخود نہیں ہو گیا، یہ حالات کے تقاضے اور ضرورتیں ہوتی ہیں جو پالیسی میں تبدیلی لاتی ہیں۔ ہمارے ملک میں یہ تبدیلی جنرل ضیاء دور میں آئی جب پاکستان میں کنٹرولڈ ڈیمو کریسی کا آغاز کیا گیا۔ یعنی محدود جمہوریت۔ پھر سوال پیدا ہو گا کہ اگر محدود جمہوریت ہے تو لامحدود جمہوریت بھی ہو گی۔ اس کا جواب یہ ہے کہ دنیا میں امریکا یورپ سمیت محدود جمہوریت ہی رائج ہے جسے ہم لامحدود جمہوریت سمجھتے ہیں لیکن مغربی ملکوں میں رائج جمہوریت بھی نظر کا دھوکہ ہے جس کا ثبوت بش جونیر اور الگور کے درمیان صدارتی الیکشن نے دے دیا، جب امریکی حکمران طبقے (اسٹیبلشمنٹ) نے سپریم کورٹ کے ذریعے الگور کو ہرا دیا۔ کیونکہ اس وقت انھیں ایک ایسے شخص کی ضرورت تھی جو دنیا کے امن کے نام پر دہشت گردی کی جنگ کے ذریعے تیل کے کنوئوں پر سامراجی قبضہ کرا سکے۔
جمہوریت کے ذریعے عوام کو یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ اقتدار کے حقیقی مالک وہ ہیں۔ جب کہ حقیقی اقتدار ان لوگوں کے پاس ہوتا ہے جو ملک کے وسائل اور دولت پر قابض ہوں۔ سیاسی پارٹیاں اور منتخب حکمران بھی انہی کے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں اور جب وہ ان کے مفادات کو بڑھاوا نہ دے سکیں تو ان کو ہٹا کر دوسروں کو لے آیا جاتا ہے۔ ایک پارٹی کے جانے اور دوسرے کے آنے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ عوام کے غیظ و غضب کا نشانہ صرف چند افراد بن جاتے ہیں اور استحصالی نظام اپنی جگہ محفوظ رہتا ہے۔ یہ وہ طریقہ واردات ہے جس سے سرمایہ دارانہ نظام کو طویل عرصے تک محفوظ رکھا جا سکتا ہے۔ عوام جوش و جذبے سے ووٹ ڈالنے کے لیے نکلتے ہیں تو وہ اپنے خیال میں انقلاب لا رہے ہوتے ہیں جب کہ جمہوری نظام کا مقصد ہی عوام کو انقلاب کے رستے پر جانے سے روکنا ہے۔ سرمایہ دارانہ جمہوریت میں ووٹ ڈال کر حقیقی تبدیلی کی توقع رکھنا اپنے آپ کو دھوکہ دینے کے سوا کچھ نہیں۔
ہمارا جمہوری نظام عالمی سرمایہ دارانہ نظام سے بندھا ہوا ہے۔ ہمارے ادارے اور میڈیا عالمی سامراجی مفادات سے بندھے ہوئے ہیں۔سرمایہ دارانہ نظام کا بحران جمہوریت کو ناکام کر سکتا ہے۔ جمہوریت ہونے کے باوجود اگر بے روز گاری، غربت، مہنگائی بڑھتی جائے تو عوام کا اس جمہوریت سے اعتماد اٹھنا شروع ہو جاتا ہے۔ عوام کسی متبادل نظام کی طرف دیکھنا شروع کر دیتے ہیں۔ اس وقت امریکا یورپ سمیت پوری دنیا میں بے روز گاری اور غربت اپنے عروج پر ہے جس نے پوری دنیا میں انارکی پیدا کر رکھی ہے۔ چنانچہ سرمایہ دارانہ نظام کے محافظوں نے اس نظام کو بچانے کے لیے دہشت گردی کی جنگ شروع کرا دی۔ فرقہ وارانہ مذہبی جنگیں اسی کا حصہ ہیں۔ اس کی شدت میں پچھلے تیس سال سے مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جس میں وقت کے ساتھ اضافہ ہوتا جائے گا تا کہ عوام اپنے اصل دشمنوں سے جو وسائل پیداوار پر قابض ہیں لڑنے کے بجائے مذہب کے نام پر ایک دوسرے کا خون بہاتے رہیں تا کہ ظالم حکمران طبقات کی زندگی میں اضافہ ہوتا جائے اور انسان ہمیشہ کی طرح محکوم رہیں۔
دہشت گرد قوتوں کے لیے یہ صورت حال آئیڈیل ہوتی ہے کہ وہ اپنے انتہا پسند نظریات کی آبیاری کر سکیں، مشرق وسطیٰ سے پاکستان تک جہاں مسلمان اور تیل کے ذخائر ہیں صورت حال آتش فشاں ہے۔ محدود جمہوریت وہاں لائی جاتی ہے جہاں طویل عرصے سے آمریت اور بادشاہت ہو۔ مصر میں فوج اقتدار نہیں سنبھالے گی بلکہ جمہوریت کی چوکیداری کرے گی۔ اگر کوئی اپنی حد سے باہر نکلا جس طرح مرسی نکلے' اس کو فارغ کر کے دوسرے کو موقعہ دیا جائے گا ''مفاہمت کی سیاست'' پاکستان سے مشرق وسطیٰ تک سب کو کرنی پڑے گا لیکن جمہوریت کا بوریا بستر اب کبھی نہیں لپیٹا جائے گا کیونکہ اسی جمہوریت کے ذریعے اس خطے میں سامراجی مفادات کی چوکیداری کی جائے گی ورنہ دوسری صورت میں مذہب کے نام پر القاعدہ اور دوسری تنظیموں کو متبادل بننے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔
2015ء اور 2016ء سے خطے میں بڑی تبدیلیاں آنا شروع ہو جائیں گی۔
سیل فون:0346-4527997۔