جنرل پاشا کا نوحہ
’’ہمارے ذرائع ابلاغ عملاً بک چکے ہیں۔ اشرافیہ میں ہر کوئی بکنے کے لیے تیار بیٹھا ہے‘‘...
ISLAMABAD:
''ہمارے ذرائع ابلاغ عملاً بک چکے ہیں۔ اشرافیہ میں ہر کوئی بکنے کے لیے تیار بیٹھا ہے'' قومی عزت و وقار سے لاپرواہی کا یہ عالم ہے کہ پاکستانی سماج میں امریکیوں نے گہرائی تک نقب لگا لی ہے اور ہمیں خبر تک نہیں۔ اسی لیے ایک امریکی انٹیلی جنس افسر کو یہ کہنے کی جرات ہوئی۔۔۔ ''تم لوگ بہت سستے بک جاتے ہو۔۔۔ ہم تمہیں صرف ایک ویزا دے کر خرید سکتے ہیں۔ امریکا کے ایک دورے کے لیے اپنا سب کچھ بیچ دو گے، نہیں تم تو شاید رات کے کھانے پر بھی اپنے ضمیر کا سودا کر لو گے''
آئی ایس آئی کے سابق سربراہ احمد شجاع پاشا کا ایبٹ آباد کمیشن کے روبرو بیان نہیں، نوحہ ہے، ہماری حالت زار کا ' اداروں کے انحطاط نہیں، تباہی کا نوحہ ۔۔۔
''ہم ناکام ریاست بننے جا رہے ہیں' اگرچہ اب تک ناکام ریاست نہیں بن سکے'' ان کے بیان کا اداروں کی تباہی، اعلی سطح پر باہمی عدم رابطے اور قومی معاملات میں عدم دلچسپی کی ہولناک منظر کشی کر رہا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ پڑھنے لکھنے میں ہمارے زعماء کی عدم دلچسپی نے غور و فکر اور فہم و تدبر کی بساط لپیٹ کر رکھ دی ہے، وزیر دفاع کا یہ عالم ہے کہ قومی تحفظ کی پالیسی کے بنیادی مسودے کو پڑھنے سے قاصر تھے غالباً چوہدری احمد مختار اس وقت وزیر دفاع تھے۔ان کا بیان بنیادی طور پر اسامہ بن لادن کے خلاف امریکی آپریشن کے تناظر میں دیا گیا تھا۔ وہ کھلے دل سے اپنی ناکامیوں کا اعتراف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ کسی کو بھی پاکستان میں موجود امریکی اور دیگر غیر ملکیوں کی حتمی اور مستند تعداد کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ہے اگر امریکی ہمیں اپنے دورہ پاکستان کے بارے میں ضروری معلومات فراہم نہیں کریں گے تو اس کا واضح مطلب یہ ہو گا کہ ان کی پاکستان آمد، ہمارے ریاستی مفاد میں نہیں ہے۔ اس وقت پاکستان میں 13 سو غیر ملکی فلاحی ادارے "NGO" کام کر رہے ہیں جن میں سے بیشتر کے مذموم مقاصد ہیں جب ہم پاکستان میں سی آئی اے کے آپریٹروں پر سختی کرتے تو امریکی اسے ڈرانے دھمکانے اور خوفزدہ کرنے کی مہم قرار دیتے ہیں۔
جنرل پاشا کہتے ہیں کہ جنرل پرویز مشرف ایک فون کال پر ڈھیر ہو گئے جس پر امریکی بھی حیران رہ گئے کیونکہ ان کا خیال تھا کہ پاکستانی جرنیل ایک ایک مطالبے پر سودے بازی کریں گے' اس لیے انھوں نے نرم مطالبات کی متبادل فہرست بھی تیار کر رکھی تھی لیکن ہم کسی قسم کی مزاحمت نہ کر سکے اور ان کے مطالبات بڑھتے گئے۔ شمسی ائیر بیس آمد و رفت میں آسانی فراہم کرنے کے لیے دی گئی تھی لیکن ہماری پسپائی کو دیکھتے ہوئے اسے ڈرونز کے غیر قانونی حملوں کے لیے استعمال کیا جانے لگا۔ یہ حملے امریکی قانون کے مطابق درست ہو سکتے ہیں لیکن بین الاقوامی قانون کی سنگین خلاف ورزی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ڈرونز کے بارے میں امریکا اور پاکستان کے درمیان تو باضابطہ تحریری معاہدہ موجود نہیں اسے صرف سیاسی ہم آہنگی قرار دیا جا سکتا ہے۔
جنرل پاشا نے دعوی کیا ہے کہ سی آئی اے اپنی حلیف آئی ایس آئی کو دہشت گرد تنظیم قرار دلانا چاہتی ہے جس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ امریکی عدالت میں آئی ایس آئی کے سربراہ کے خلاف مقدمے چلایا جا رہا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ساری پاکستانی قوم اور حکومت بیک زبان پوری طاقت سے امریکیوں پر واضح کریں کہ آئی ایس آئی ریاست پاکستان کا ایک ادارہ ہے اور اس کے خلاف تمام لغو الزامات واپس لینے ہوں گے اور مقدمہ داخل دفتر کرنا ہو گا لیکن بد قسمتی سے نامی گرامی اخبار نویس اس امریکی مہم کو آگے بڑھا رہے ہیں۔انھوں نے انکشاف کیا کہ حقانی نیٹ ورک سے پاکستان نہیں، برطانیہ اور اٹلی کے بھی قریبی روابط ہیں۔ جلال الدین حقانی کو صدر ریگن نے وائٹ ہائوس میں دعوت دی تھی۔ حقانی نیٹ ورک آئی ایس آئی اور سی آئی اے کی مشترکہ پیش کش تھی جسے سوویت یونین کے خلاف جہاد کے دوران تشکیل دیا گیا تھا۔ ہمارا رابطہ حقانی نیٹ ورک کے انتظامی ادارے سے متعلقہ رہنمائوں سے ہے جن پر اقوام متحدہ نے پابندیاں عائد نہیں کیں۔
جنرل پاشا نے یہ انکشاف بھی کیا کہ امریکی ڈاکٹر شکیل آفریدی کی رہائی کے لیے مسلسل مختلف زاویوں سے دبائو ڈالتے رہتے ہیں کیونکہ ڈاکٹر شکیل آفریدی، ان کا ہیرو اور ہمارا غدار ہے سابق حکومت اور آئی ایس آئی نے کامیابی سے ایسے دبائو کا مقابلہ کیا ہے جنرل پاشا نے دعوی کیا کہ ڈاکٹر شکیل آفریدی کی رہائی کے لیے ایک اسلامی ملک سمیت متعدد دوست ممالک دبائو ڈالتے رہے ہیں۔
طالبان کے امیر ملا عمر اور القاعدہ کے سربراہ ایمن الزواہری کی پاکستان میں موجودگی کی اطلاعات کے بارے میں انھوں نے کہا کہ امریکیوں کو بخوبی علم ہے کہ وہ دونوں پاکستان میں موجود نہیں ہیں ان کے بے بنیاد الزامات، دراصل پاکستان کے خلاف نفسیاتی دبائو بڑھانے کا ہتھکنڈہ ہیں۔
ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کے خلاف کامیاب امریکی آپریشن اس کا مظہر ہے کہ ہمارے تمام ریاستی ادارے غیر موثر اور انحطاط کا شکار ہو کر تباہی کے کنارے پر کھڑے ہیں ۔
جنرل پاشا نے اعتراف کیا کہ ہمارا خیال یہ تھا کہ اسامہ بن لادن طبعی موت مر چکا ہے اس لیے امریکیوں کے ساتھ بات چیت میں اُن کا ذکر بہت کم ہوتا تھا۔ اسامہ کے بارے میں ہلیری کلنٹن نے 2010ء میں، ان کی پاکستان میں موجودگی کا انکشاف کر کے اس معاملے کو دوبارہ زندہ کیا تھا۔ ایبٹ آباد کمیشن نے اپنی رپورٹ میں تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ عین اس وقت امریکی ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کا سراغ لگا چکے تھے اور صدر اوبامہ کو اس بارے میں مطلع کر کے خفیہ آپریشن کی منظوری لینے کے لیے تیاریاں کر رہے تھے۔
جب کہ قبل ازیں امریکیوں نے اسامہ کے سرگودھا، لاہور، سیالکوٹ اور گلگت میں رہائش پذیر ہونے کے بارے میں اطلاعات دیں جو غلط ثابت ہوئی تھیں پھر کسی سی آئی اے کے کارندے نے انھیں جنوبی وزیرستان کے گائوں سانگا میں دریافت کر لیا تھا۔ 2005ء میں پاک ایران سرحدی گائوں اسحق خیل کو اسامہ کی پناہ گاہ بتایا گیا۔ آئی ایس آئی کو سی آئی اے نے چار نمبر دئیے جو ابرار اور ابراہیم نامی کویتی برادران کے تھے جو تادم آخر اسامہ کے معاون اور محافظ رہے۔
جنرل پاشا نے یہ اعتراف کیا کہ پاکستان کے مختلف خفیہ اداروں میں معلومات کے تبادلے کا کوئی منظم طریق کار موجود نہیں ہے۔ دہشت گردی کے خلاف اندرونی محاذ پر پولیس اور انٹیلی جنس بیورو کو فعال اور متحرک بنا کر خاطر خواہ کامیابیاں حاصل کی جا سکتی ہیں کیونکہ پولیس کا دائرہ کار ضلع سے لے کر گلی محلوں تک پھیلا ہوا ہے۔ سی آئی ڈی، آئی بی اور پولیس کو وسیع دائرہ کار کی وجہ سے آئی ایس آئی پر فوقیت حاصل ہے کیونکہ مقامی صورت حال کے بارے میں ان کی رسائی اور معلومات کا تقابل ممکن نہیں ہے لیکن اس سے پہلے ان اداروں کو سیاست سے پاک کرنا ہو گا ۔
ایبٹ آباد کمیشن رپورٹ کی ایگزیکٹو سمری میں یہ سوال پڑھ کر سر ندامت سے جھک گیا کہ کیا یہ ہماری تحریر ی یا غیر تحریری دفاعی حکمت عملی کا حصہ ہے کہ اگر امریکا جیسی سپر طاقت پاکستان پر حملہ کرے تو ہم مزاحمت کرنے یا وطن عزیز کا دفاع کرنے کی کوشش نہیں کریں گے ۔
اس کالم نگار کو تو متکبر امریکی جاسوس کا یہ جملہ ناگ بن کر ڈس رہا ہے ''تم بہت سستے بک جاتے ہو ایک ویزے پر، ایک دورے پر، نہیں تم تو ایک کھانے پر بھی اپنے آپ بیچنے کے لیے تیار ہو!
حرف آخر یہ کہ وزیر اعظم نواز شریف کو رمضان کے آخری عشرے میں جنرل مشرف کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر شکیل آفریدی کی رہائی کے لیے ایک اسلامی ملک کے دبائو کا سامنا کرنا ہو گا۔ اگر یوسف رضا گیلانی یہ دبائو برداشت کر گئے تھے تو مرد آہن جناب نواز شریف کیونکر سرنگوں ہوں گے ۔