پارلیمنٹ کی حاکمیت پر سوال
وفاقی وزراء کی جانب سے پارلیمنٹ کی بالادستی کو تسلیم نہ کرنا منتخب نظام کو کمزور کررہا ہے
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی چیئرمین شپ کے معاملے پر عمران خان کے ساتھ نہیں ہوں۔ شہباز شریف کا کیس سپریم کورٹ میں لے جا رہا ہوں اور میری وزارت کا کوئی افسر پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے سامنے پیش نہیں ہوگا۔ شیخ رشید اور فیصل واوڈا پارلیمنٹ کی بالادستی کو چیلنج کر رہے ہیں۔ وفاقی حکومت قومی اسمبلی میں اکثریت کی بنیاد پر قائم ہوتی ہے۔ ملک کا نظام چلانے کے لیے قومی اسمبلی اور سینیٹ قانون سازی کرتی ہے۔ حکومت منتخب ایوان کے نمایندوں کی منظوری سے پالیسیاں تیارکرتی ہے۔
قومی اسمبلی منتخب حکومت کو عدم اعتماد کی تحریک منظور کرکے رخصت کرتی ہے مگر کیا وجہ ہے کہ قومی اسمبلی کے بعض ارکان جو وفاقی وزارت کے اہم ستون ہیں پارلیمنٹ کی حاکمیت کو ختم کرنے کے لیے غیر منتخب ادارے سے مدد حاصل کرنے کے خواہاں ہیں ۔ 1973ء کے آئین میں خداکے بعد پارلیمنٹ اور ریاست کے تمام ادارے ہی بالادست ہیں مگر جنرل ضیاء الحق نے پارلیمنٹ کی اہمیت کو ختم کرنے کے لیے آئین میں آٹھویں ترمیم کی ۔ جنرل ضیاء الحق نے مارشل لاء کے خاتمے کے لیے اس ترمیم کو بلیک میلنگ کے طور پر استعمال کیا۔
اس وقت کے وزیر اعظم محمد خان جونیجو اور پارلیمنٹ کے ارکان مجبوراً اس ترمیم کو قبول کرنے کو تیار ہوئے۔ اس آٹھویں ترمیم کے تحت 1977ء میں لگائے جانے والے غیر قانونی مارشل لاء کو قانونی تحفظ حاصل ہوا ۔ صدر کو اسمبلیاں توڑنے، منتخب حکومتوں کو برطرف کرنے اور فوجی سربراہوں اور سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے ججوں اور ان کے سربراہوں سمیت مسلح افواج کے سربراہوں کو تقرر کرنے کے اختیارات حاصل ہوئے۔
شیخ رشید 1985 کے غیر جماعتی انتخابات میں راولپنڈی سے قومی اور صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ شیخ رشید کا ارادہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ بننے کا تھا مگر جنرل ضیاء الحق میاں نواز شریف کو اس عہدے کے لیے چن چکے تھے جس کی بناء پر شیخ رشید مرکز میں وزیر بن گئے، مگر شیخ صاحب جنرل ضیاء الحق کے مرید تھے۔ یہی وجہ تھی کہ وہ آٹھویں ترمیم کے بڑے حامیوں میں شامل تھے۔ جب جنرل ضیاء الحق نے اپنے نامزد کردہ وزیر اعظم محمد خان جونیجو کو برطرف کیا تو وہ جنرل ضیاء الحق کے اس فیصلے کو سراہاتے ہوئے نہیں تھکتے تھے۔
جنرل ضیاء الحق کے جانشین غلام اسحاق خان نے اس ترمیم کے ذریعے بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کی پہلی حکومتوں کو برطرف کیا مگر میاں نواز شریف دوسری دفعہ وزیر اعظم کے عہدے پر فائز ہوئے تو قائد حزب اختلاف بے نظیر بھٹو کی مدد سے صدر کے اسمبلیاں توڑنے کے اختیار کو ختم کیا۔ اس موقعے پر وزیر اعظم میاں نواز شریف نے پارلیمنٹ کو مزید با اختیار بنانے اور صوبوں کو مکمل خودمختاری دینے کے لیے اس ترمیم میں مزید شقوں کو شامل کرنے پر توجہ نہ دی۔
فوج کے سربراہ جنرل پرویز مشرف نے وزیر اعظم نواز شریف کی منتخب حکومت کو برطرف کیا۔ جنرل پرویز مشرف نے 2002ء میں اپنے انتخاب کے لیے ریفرنڈم کرایا اور پھر قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات منعقد ہوئے۔ جنرل مشرف نے میر ظفر اﷲ جمالی کو وزیر اعظم نامزد کیا اور پارلیمنٹ سے اسمبلیاں توڑنے سمیت وہ تمام اختیارات واپس لیے جو میاں نواز شریف کے دوسرے دور میں ایک آئینی ترمیم کے تحت ختم کیے گئے تھے۔
اس دوران میاں نواز شریف اور بے نظیر بھٹو دونوں جلاوطنی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوئے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے پالیسی بنانے والے اکابرین نے ملک میں بار بار فوجی اقتدار کے قائم ہونے کی وجوہات پر غورکیا اور دونوں جماعتوں کی قیادت اس نتیجے پر پہنچی کہ پارلیمنٹ کو تمام اداروں پر بالادست کرنے کے لیے اس کی کمیٹیوں کو زیادہ اختیار دینے کی ضرورت ہے۔ پہلے ریاستی اداروں کی شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے عوام کے جاننے کے حق کو تسلیم کیے جانا ضروری ہے ۔ صوبوں کو 1940ء کی قرارداد لاہور کے مطابق خود مختار بنانے کے لیے قانون سازی ہونی چاہیے۔ میثاق جمہوریت میں جمہوری ممالک کی روایات کی پاسداری کرتے ہوئے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی سربراہی قائد حزب اختلاف کو سونپنے پر اتفاق ہوا۔ جب 2008ء میںپیپلز پارٹی برسر اقتدار آئی تو میثاق جمہوریت پر عملدرآمد شروع ہوا ۔ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی سربراہی قائد حزب اختلاف کو ملی اور اس کمیٹی میں منتخب جماعت اور حزب اختلاف کو برابری کی بنیاد پر نمایندگی دینے پر بھی اتفاق ہوا ۔
دنیا کی پارلیمانی روایات کے مطابق پارلیمنٹ کی دیگر ذیلی کمیٹیوں کی سربراہی حکومت کے ساتھ حزب اختلاف کے اراکین کو سونپنے کے لیے طریقہ کار طے ہوا۔ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کیونکہ حکومت اور ریاست کے دیگر ستونوں کے اکاؤنٹس کی جانچ پڑتال کرتی ہے لہٰذا اکاؤنٹنٹ جنرل پاکستان کا عملہ پورے ملک میں وفاقی وزارتوں، خودمختار اداروں کے اکاؤنٹس کاآڈٹ کرتا ہے اور بے ضابطگیوں کی نشاندہی کی جاتی ہے۔ بے قاعدگیوں کی نشاندہی کی دستاویزات متعلقہ وزارت کو بھی جاتی ہیں۔
اگر وزارت ان بے قاعدگیوں کی رپورٹوں پر تسلی بخش طور پر کارروائی نہ کرے تو یہ معاملہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے سامنے پیش ہوتا ہے جو حتمی کارروائی کرتی ہے۔پہلے اکاؤنٹنٹ جنرل کے اعتراضات وزیر اعظم کے پاس بھیجے جاتے تھے جو نظرانداز ہوجاتے تھے۔ کمیٹی کے تمام اراکین جن کا تعلق مختلف جماعتوں سے ہوتا ہے سنجیدگی سے ان اعتراضات کے جوابات پر غور کرتے ہیں۔ اس کمیٹی کے اراکین اگر ان جوابات سے مطمئن نہ ہوں تو پھر ایف آئی اے اور نیب کو ریفرنس بھیجے جاسکتے ہیں۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی حکومتوں نے میثاق جمہوریت پر عمل کیا اور ہر دور میں قائد حزب اختلاف چوہدری نثار علی خان اور خورشید شاہ نے اس کمیٹی کی سربراہی کی۔ اگرچہ میثاق جمہوریت کے تحت آئین میں کی جانے والی اٹھارہویں ترمیم نے پارلیمنٹ کو تمام ریاستی ستونوں پر بالادست بنایا مگر وزیر اعظم عمران خان نے اس ترمیم کی اہمیت کو محسوس کیے بغیر اس کو نشانہ بنانے کی کوشش کی۔
شیخ رشید جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کے ادوار میں وفاقی وزیر کے عہدے پر فائز رہ چکے ہیں۔ انھوں نے دل سے کبھی پارلیمنٹ کی بحالی کے فیصلے کو قبول نہیں کیا۔ یہی وجہ ہے کہ وزیر اعظم عمران خان شیخ رشید اور دیگر وزراء اس ترمیم کے خاتمے کے خواہ ہیں۔ حکومت کی ہٹ دھرمی کی بناء پر پارلیمنٹ کے پہلے 100 دن عملی طور پر معطل رہے۔ پھر حکومت کو حقیقت کا ادراک ہوا اور پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے معاملے پر پیش رفت ہوئی۔ حکومت اور حزب اختلاف کے اراکین نے اس بات پر اتفاق کیا کہ پارلیمانی روایات کے مطابق شہباز شریف کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا چیئرمین مقرر کیا جائے گا مگر جب مسلم لیگ ن کی حکومت کے اکاؤنٹس اس کمیٹی کے سامنے پیش ہونگے تو اس کی تحقیقاتی کمیٹی کے سربراہ حکومتی نمایندے ہونگے، یوں پارلیمنٹ کی بالادستی قائم رہے گی۔
اس فیصلے کی عمران خان کی قیادت میں قائم وفاقی کابینہ نے منظوری دی ۔ شیخ رشید اور فیصل واوڈا اس وزارت کے اہم اراکین ہیں مگر جب اس فیصلے پر عملدرآمد ہوا تو پہلے وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے اس فیصلے پر تنقید کی اور اب ایک اور وزیر شیخ رشید نے اپنے وزیر اعظم کے فیصلے کو تسلیم نہیں کیا اور غیر منتخب ادارے سے رجوع کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ اس موضوع پر تحقیق کرنے والے ایک اسکالر وفاقی وزراء کے اس رویے کو پارلیمانی نظام کے لیے خطرے کی گھنٹی قرار دے رہے ہیں۔ ان اسکالرکا تجزیہ ہے کہ یہ وزراء پارلیمانی نظام کو لپیٹنے اور صدارتی نظام کے نفاذ کی غیر جمہوری مقتدرہ کی سوچ کو تقویت دے رہے ہیں۔
دنیا کی سب سے قدیم ترین پارلیمنٹ برطانیہ کی ہے۔ برطانوی پارلیمنٹ کی روایات کے مطابق کابینہ مشترکہ ذمے داریوں کے اصول پر کام کرتی ہے اورکابینہ کے اجلاسوں میں ہونے والے تمام فیصلوں کے تمام وزراء عملدرآمد کے پابند ہیں، اگر کسی وزیر کو کوئی اختلاف ہوتا ہے تو وہ مستعفی ہوجاتا ہے۔ پارلیمانی نظام میں کسی شخص کی انفرادی حیثیت نہیں ہے مگر شیخ رشید کے اس فیصلے کو نا ماننے اور سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے سے پارلیمنٹ کی حاکمیت پر سوالات اٹھ گئے ہیں ۔ پارلیمنٹ کی تاریخ میں پہلی بار ایک وزیر پارلیمنٹ کی اہمیت کو محسوس نہیں کر پارہے ہیں ۔
وفاقی وزراء کی جانب سے پارلیمنٹ کی بالادستی کو تسلیم نہ کرنا منتخب نظام کو کمزور کررہا ہے۔ ملک کے بانی محمد علی جناح نے پارلیمانی نظام کو مستحکم کرنے کی کوشش کی تھی مگر اب موجودہ حکومت پارلیمنٹ کی حاکمیت کو داؤ پر لگاکر ایک خطرناک کھیل میں حصہ ڈال رہی ہے۔ پارلیمنٹ کے کمزور ہونے کا مطلب جمہوری نظام کا کمزور ہونا ہے۔ اگرچہ وزیر اعظم کے مشیر نعیم الحق ان وزراء سے مختلف رائے رکھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ شیخ رشید سپریم کورٹ میں اس نکتے کی وضاحت کے لیے جارہے ہیں کہ نیب کے مقدمات میں ملوث کوئی شخص پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا سربراہ مقرر نہیں ہوسکتا، مگر ہر صورت میں پارلیمنٹ کے علاوہ کسی اور فورم میں اس بات پر بحث خطرے کی گھنٹی ہے۔