کرپشن کے عفریت سے مقابلہ
اس صورت حال کے پیشِ نظر عمران خان کا کرپشن سے لڑنے کا فیصلہ بروقت اور ناگزیر ہے
عمران خان نے کرپشن کے خلاف جنگ کو اپنی حکومت کے سیاسی پروگرام کے مرکزی نکات میں شامل کیا ہے۔ ایسا ہونا بھی چاہیے تھا۔ پاکستان ایک نسبتاً کم عمر مملکت ہے۔ 1947 میں اس کا قیام ہندوستانی مسلمانوں کو اکثریت پر مبنی نظام میں ہندو راج سے بچاکر اپنی معاشی اور معاشرتی حالت بہتر بنانے کا موقع فراہم کرنے کے لیے ہوا۔ اس عزم کو آواز قائد اعظم کی صورت میں میسر آئی۔مسلم لیگ کی قیادت زیادہ تر جاگیرداروں پر مشتمل تھی، جن میں بعض نے سیاست یا انصرامی شعبوں میں شمولیت اختیار کر لی۔ مسلم عوام کی حالتِ زار بہتر بنانے کے بجائے ان کا بنیادی مقصد اپنی ذات، برادری اور خاندان کو فائدہ پہنچانا ہے۔ ان میں سے بعض کا اقرباء پروری، سیاسی یا انتظامی مرتبے کا فائدہ اٹھانا اور رشوت یا کک بیک وصول کرنا کرپشن نہیں ہے۔ بدقسمتی سے وہ اسے اپنے اختیارات میں داخل جانتے ہیں ، بلکہ خاندان اور برادری کا خیال رکھنے کے لیے ضروری بھی سمجھتے ہیں۔ ان کے طرز عمل پر ملامت کی جائے تو وہ اسے مسئلہ سمجھ ہی نہیں پاتے۔ جاگیردارانہ اور قبائلی عناصر رکھنے والے معاشروں کا ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اکثر لوگ اس سب کو غیر قانونی نہیں جانتے۔
کرپشن سے صرف پاکستان متاثر نہیں ہے، ترقی یافتہ ملکوںمیں بھی کرپشن موجود ہے۔تاہم کرپشن کے مفہوم، اس کے غیر قانونی ہونے اور اس کے خلاف کارروائی کی ضرورت پر اتفاق پایا جاتا ہے۔ جو ایمان دار رہنے کی کوشش کرتے ہیں وہ بھی اس سوچ کے تحت اس نظام کا شکار ہوجاتے ہیں کہ اگر آپ کسی مسئلے سے لڑ نہیں سکتے تو اس کا حصہ بن جائیں۔ بے تحاشا کرپشن کی متعدد دہائیوں کے نتیجے میں پاکستان ٹرانسپیرینسی انٹرنیشنل کی 2017کی رپورٹ کے مطابق کرپشن کی لحاظ سے دنیا کے 180 ممالک میں 117 ویں نمبر پر ہے۔ اپنے قیام کے وقت ہی سے پاکستان میں باقاعدگی کے ساتھ کرپشن ہوئی، مگر اس کی ستّر سالہ تاریخ میں سب سے کرپٹ دور 2008سے 2013تک کا تھا (جس میں پیپلز پارٹی برسرِاقتدار رہی)۔ اس عرصے میں ایک اندازے کے مطابق کرپشن 94 ارب ڈالر سے بڑھ گئی تھی۔ جعلی اکاؤنٹس کیس میں جے آئی ٹی سپریم کورٹ کے احکام کے مطابق اس کی تفصیلات سامنے لے آئی ہے۔ حکمران اشرافیہ ذاتی مفادات کے لیے پاکستان کی زمین، جنگلات، پانی اور دیگر قدرتی وسائل کا استحصال کرتی چلی آئی ہے۔ملکی معیشت کو شدید نقصان پہنچ چکا ہے اوراب یہ مصنوعی سہاروں پر ہے، غربت بڑھتی جارہی ہے۔
اس صورت حال کے پیشِ نظر عمران خان کا کرپشن سے لڑنے کا فیصلہ بروقت اور ناگزیر ہے۔ مگر یہ ایک مشکل کام ہے۔ سبب یہ ہے کہ قانون حرکت میں نہیں آیا اور کرپشن ریاستی و معاشی نظام کے رگ و پے میں سماچکی ہے۔جے آئی ٹی نے براہ راست سابق صدر آصف علی زرداری، ان کی بہنوں فریال تالپور اور عذرا فضل پیچوہو، زرداری کے معاون خواجہ انور مجید اور ان کے بیٹوں خواجہ نمر مجید اور خواجہ مصطفیٰ مجید کو مرکزی ملزمان کے طور پر نامزد کیا۔ منی لانڈرنگ کے لیے سمٹ بینک، سندھ بینک اور یونائیٹڈ بینک لمیٹڈ میں29 جعلی اکاؤنٹس ان لوگوں کے نام پر رجسٹر کروائے گئے جن کو ان کا علم بھی نہیں تھا۔ 20 سے زائد بے نامی اکاؤنٹس بھی معلوم ہوچکے ہیں جو نوازشریف دورِ حکومت میں اربوں روپے منتقل کرنے کے لیے استعمال کیے گئے۔ یہ منتقلیاں 2014، 2015 اور 2016 میں ہوئیں۔ یہ تمام رقوم نامعلوم اور یقینی طور پر غیر قانونی ذرایع مثلاً رشوت، کک بیکس وغیرہ سے حاصل کی گئیں۔
دسمبر 2018 میں پیش کی گئی جے آئی ٹی رپورٹ میں سیاست دانوں اور پرائیوٹ بزنس ٹائیکونزکے نام منظر عام پر لائے گئے جن میں زرداری گروپ، اومنی گروپ شامل ہیں۔ اس کے نتیجے میں سپریم کورٹ نے ان گروپس کی جائیدادوں کی خرید و فروخت اور منتقلی پر پابندی عائد کردی۔ ملزمان کے ملک سے جلدی میں فرار کو روکنے لیے ان کے نام ای سی ایل میں ڈالنا ایک منطقی ردعمل تھا۔ جے آئی ٹی کی تحقیقات نے واشگاف انداز میں یہ انکشاف کیا کہ ڈھیروں مال بینکاروں کی ایک منڈلی کی مدد سے کام یابی سے خفیہ رکھا گیا ہے۔ اس ساری جعل سازی کو ثابت کرنا آسان نہیں ہوگا لیکن ملک کی خاطر ایسا کرنا ہی پڑے گا۔
یہ بات بالکل واضح ہے کہ انصاف کی یہ تفہیم اسے مادی پہلو تک محدود کردیتی ہے۔پارلیمینٹیرین اور سیاستدان زیادہ تر جاگیر دار ہیں اور ان کے نزدیک فلاحِ عامہ سے مراد اپنا،اپنے خاندان، اپنی برادری اور دوستوں کا مفاد ہے۔ وہ ایسے قوانین بناتے ہیں جو ملک و قوم کے بجائے صرف ان کے ذاتی مفاد کا تحفظ کرتے ہیں۔ عدل اسلام کی ایک مرکزی قدر ہے، یہ انتہائی اہمیت کی حامل بات ہے کہ عادل خدا کی اہم ترین صفات میں سے ہے۔ قرآن کئی جگہوں پر مثالوں اور احکامات کے ساتھ واضح کرتا ہے کہ عدل کے کیا معنی ہیں اور اس کی فراہمی کیسے یقینی بنائی جاسکتی ہے۔ ایک ایماندار انسان ہمیشہ ثابت کرسکتا ہے کہ اس کے پاس دولت کہاں سے آئی، اوراگر ثابت نہ کرسکے تو دال میں کچھ کالا ضرور ہوتا ہے۔ ایسے مقدمات میں بارِ ثبوت کا کلیہ ہی حل فراہم کرتا ہے۔ مالک کو وضاحت کرنی چاہیے کہ اس نے کب، کہاں اور کیسے دولت ، زمین یا دیگر اثاثے اکٹھے کیے اور اسی تناسب سے ٹیکسز ادا کیے یا نہیں۔ جن مقدمات میں ملکیت کا قانونی ہوناثابت نہ کیا جاسکے، اثاثے ضبط کرکے اس وقت تک ریاستی تحویل میں لے لینے چاہییں جب تک ملکیت کے ذرایع ثابت نہیں ہوجاتے۔
نہ صرف جعل سازی ثابت کرنا ضروری ہے بلکہ لوٹی گئی قومی دولت کی وصولی بھی لازم ہے۔ پاکستان اور اس کے وسائل کو دہائیوں تک لوٹا گیا ہے اور مملکت زخم زخم ہوچکی ہے۔ اگر ہم بین الاقوامی دوستوں سے توقع کرتے ہیں کہ وہ ہماری مالی اور دیگر شعبوں میں مدد کریں تو ہمیں لوٹی ہوئی قومی دولت کی واپسی اور معیشت کی بحالی کے لیے خود بھی یکسوئی کے ساتھ کوشش کرنا ہوگی۔ اس توقع کا اظہار خاص طور پر چین کی طرف سے کیا گیا ہو گا جب ہم نے ان سے امداد کے لیے رابطہ کیا۔چین کرپشن کے حوالے سے پاکستان جیسی مشکلات رکھنے والا ملک ہے مگر چینی حکومت نے اس سے نمٹنے کے مؤثر طریقے دریافت کرلیے ہیں۔ چین میں کٹہرے میں لائی جانے والی اشرافیہ کی فہرست طویل ہے۔اگرچہ ہم چین کی طرح مجرموں کو گولی مارنے کی حد تک نہیں جاسکتے، مگراس ضمن میں اپنے ان دوستوں سے سیکھناچین کے مطالبات میں سے ہے جو انھوں نے اپنے سپورٹ پیکیج سے ملحق کیے ہیں۔ یہ ناجائز مطالبہ نہیں ہے اور اس پر عمل کرنا پڑے گا۔ نہ تو چین پاکستان میں اپنی سرمایہ کاری ضایع ہوتی دیکھنا چاہتا ہے اور نہ پاکستان اس کا متحمل ہے۔
اہم ترین بات یہ ہے کہ یہ جنگ جاری ہے۔ اگر بڑے سیاسی لوگ اور ان کے شریک جرم ساتھی چھوڑ دیے گئے تو اس سے ملنے والا پیغام تباہ کن ہوگا۔ یہ ان کی سرگرمیوں کی توثیق اور دوسروں کو انھی کی پیروی کی دعوت دینے کے مترادف ہوگا۔ مستقبل میں زیرتفتیش لوگوں کا دائرہ وسیع کرنا پڑے گا اور اس میں سول اور ملٹری، حاضر سروس اور ریٹائرڈ سینئیر بیوروکریٹس کو شامل کرنا چاہیے۔ عدالتوں اور دوسرے متعلقہ اداروں کے لیے خوردبرد کی رقم اور جعلی سازی کرنے والوں کے عدم تعاون کے سبب بعض اوقات توازن رکھنا مشکل ہوجائے گا۔ یہ یقیناً جوئے شیر لانے کے مترادف ہے مگر نیا پاکستان بنانے کا یہی قابل اعتماد طریقہ ہے۔ جس طرح یونانی دیومالا میں ہرکولیس اصطبل کی صفائی جیسے مشکل کام میں کامیاب ہوجاتا ہے، عمران خان اور ان کی حکومت کے پاس کوئی دیومالائی طاقت نہیں ہے۔ مگر وہ نیک نیت ہیں، ایماندار پاکستانیوں کی حمایت ان کے لیے کافی ہوگی۔
ہمیں ایک شخصیت کو فراموش نہیں ہونے دینا چاہیے، وہ چند دنوں میں چیف جسٹس کے منصب کی ذمے داریوں سے سبکدوش ہونے والے ہیں۔ ان کی خدمت میں یہی عرض ہے کہ جناب ثاقب نثار،آپ پاکستان کے حقیقی ہیرو ہیں۔ آپ ایک ایسی روشن روایت قائم کرکے جارہے ہیں، جسے پاکستان کی بھلائی کے لیے، جاری رکھنے کے سوا آپ کے جانشینوں کے پاس کوئی چارہ نہیں ہوگا۔
(فاضل کالم نگار دفاعی اور سیکیورٹی امور کے تجزیہ کار ہیں)