جہاں گشت

دُور ایک کھیت سے اچانک ایک سایہ نمودار ہوا پلک جھپکتے ہی وہ میرے سامنے تھامجھے لگا جیسے وہ زمین پر نہیں چَل رہا


دُور ایک کھیت سے اچانک ایک سایہ نمودار ہوا، پلک جھپکتے ہیوہ میرے سامنے تھا، مجھے ایسا لگا جیسے وہ زمین پر نہیں چَل رہا

قسط نمبر 27

حکیم بابا کے گھر میں رہتے ہوئے مجھے سال بھر سے زاید گزر چکا تھا اور اس دوران مجھے لمحہ بھر بھی اجنبیت کا احساس تک نہیں ہوا تھا۔ میرے کھانے پینے سے لے کر لباس تک ہر طرح کا خیال رکھا گیا۔ سب سے بڑھ کر حکیم بابا کے روپ میں ایک شفیق باپ اور اس سے زیادہ ایک کامل استاد میرے ساتھ تھا۔ ماں جی میں ممتا کُوٹ کُوٹ کر بھری ہوئی تھی اور بہنیں میرے لیے پیار اور ایثار میں گندھی ہوئی تھیں۔

میمونہ سخت گیر تھیں لیکن ایسا بھی نہیں کہ جیون دشوار ہوجائے، مجھے کہنا چاہیے کہ ان کی سختی میں بھی ایک چھوٹے بھائی کے لیے خلوص و پیار کے ساتھ شفقت اور میری بہتری شامل تھی، ہاں انہوں نے مجھ پر کڑی نظر ضرور رکھی تھی، کئی مرتبہ ڈانٹا بھی اور ایک مرتبہ ہاتھ بھی استعمال کیا، اور انہیں ایسا کرنے کا حق تھا کہ وہ بڑی تھیں اور ان کی ذمے داری تھی کہ وہ مجھے اس کا احساس دلائیں کہ میں خودسر نہیں ہوں، مجھے کوئی روکنا والا ہے۔

قدسیہ جسے ہم سب پیار سے قدسی کہتے تھے، اور وہ واقعی قدسی کہلانے کی مستحق بھی تھیں، یوں کہنا چاہیے کہ وہ اسم بامسمی تھیں اور انہیں قدسی کہلانا زیبا تھا، بہت کم گو، سنجیدہ، متین اور ایثار کیش لیکن سب سے زیادہ خیال انہوں نے ہی میرا رکھا۔ قدسی کی ایک سہیلی کلثوم تھی، پڑوس میں ہی رہتی تھی، نہ جانے وہ قدسی کی سہیلی کیوں تھی، اس لیے کہ دونوں میں کوئی ایک بھی قدر مشترک نہیں تھی، قدسی جتنی کم گو تھی کلثوم دوسری انتہا پر تھی، حد سے زیادہ باتونی، چنچل اور شوخ۔ اس نے مجھ سے بے تکلف ہونے کے بہت جتن کیے تھے، لیکن ۔۔۔۔۔۔!

ایک دن دوپہر کو میں اپنے کمرے میں چارپائی پر لیٹا ہوا تھا کہ وہ آکر میری چارپائی پر بیٹھ گئی۔ تم مجھے چھوڑ کر باہر تو نہیں چلے جاؤ گے؟ اس کا سوال عجیب تھا یا مجھے ایسا لگا تو میں نے کہا: کیا پتا کہاں کہاں جانا ہے مجھے۔ نہیں تم مجھے چھوڑ کر مت جانا۔ اس کی عجیب سی خواہش پر میں نے صرف اتنا کہا: میرا خیال دل سے نکال دو، میں نہیں جانتا کہ مجھے کہاں کہاں بھٹکنا ہے۔ اس نے میرا ہاتھ تھام لیا اور رونے لگی بس اسی لمحے میمونہ اندر داخل ہوئی۔ میمونہ کو دیکھتے ہی اس نے میرا ہاتھ چھوڑ دیا اور اٹھ کھڑی ہوئی۔

حیرت تھی میمونہ نے کچھ نہیں کہا اور کمرے سے واپس چلی گئیں۔ دوسرے ہی لمحے کلثوم بھی اٹھ کھڑی ہوئی۔ اس کے جانے کے بعد میمونہ پھر کمرے میں داخل ہوئی، میں ان کے سوالات کا سامنا کرنے کے لیے تیار تھا۔ وہ میرے پاس آکر بیٹھ گئیں اور کہنے لگیں: کیا باتیں ہورہی تھیں تو میں نے انہیں تفصیل بتائی۔ ہاں میں جانتی ہوں تمہیں بھی اور کلثوم کو بھی۔ میں تو سمجھا تھا کہ وہ اب مجھے ڈانٹیں گی اور نہ جانے کیا کچھ کہیں گی لیکن انہوں نے تو بات ہی ختم کردی تھی۔

پھر وہ کہنے لگیں: دیکھو اس عمر میں انسان بہت جذباتی ہوتا ہے اور غلط سمت میں چل پڑتا ہے، میں کلثوم کو جانتی ہوں وہ بہت جذباتی ہے اور اس لیے بھی اس کے گھر میں کوئی بھائی نہیں ہے، پھر جس لڑکے سے اس کی نسبت طے ہوئی تھی وہ بھی انگلینڈ چلا گیا اور وہاں پہنچ کر اس نے کلثوم سے شادی کرنے سے انکار کردیا تو وہ اس لیے بھی کہ کچھ زیادہ جذباتی ہوگئی ہے، اسے غلط مت سمجھنا وہ اچھی لڑکی ہے، شوخ ہے باتیں بھی بہت کرتی ہے اور اچھا ہی ہے کہ وہ یہ سب کرکے پرسکون رہے، میں اسی لیے اسے روکتی ٹوکتی نہیں ہوں، میں جانتی تھی کہ وہ ایک دن تم سے یہ ضرور کہے گی۔

انسان سہاروں کی تلاش میں رہتا ہے اور ایسا فطری بھی ہے، لیکن اب تمہاری ذمے داری بہت بڑھ گئی ہے کہ تم اسے اس جذباتی کیفیت سے نکالو اور اسے سیدھی سمت دکھاؤ۔ وہ یہ کہہ کر خاموش ہوگئیں تو میں نے کہا: میں کیا کرسکتا ہوں، میں تو خود بھی ایسا ہوں۔ تو انہوں نے کہا: دیکھو انسان ہی انسان کے کام آتا ہے، اس سے ہنس کر بات کرو اور اسے اس کا احساس دلاؤ کہ ہم سب اس کے ساتھ ہیں لیکن اسے کوئی ایسا خواب مت دکھانا کہ وہ مزید بکھر جائے۔

مجھے کچھ سمجھ میں تو نہیں آیا لیکن میں نے اچھا جی کہہ کر بات ختم کردی۔ زندگی کے معمولات وہی تھے، کلثوم بھی ویسی ہی تھی، کب باز آیا ہے بندہ بشر اپنی عادات سے، وہی باتونی، وہی شوخی لیکن اس نے بھی مجھے بھائی کہنا شروع کردیا تھا۔ اکثر وہ ضد کرتی کہ جب وہ شام سے پہلے پانی بھرنے جاتی ہیں تو میں بھی ان کے ساتھ چلا کروں اور میں نے کئی مرتبہ اس کی ضد مانی بھی اور ان سب کے ساتھ پنگھٹ پر گیا تھا، پھر ایک دن ایسا بھی آیا کہ کلثوم کا رشتہ آگیا تھا اور اس کی نسبت طے ہوگئی تھی، اور پھر ہم نے وہ دن بھی دیکھا جب وہ اپنے پیا سنگ انگلینڈ جانے کے لیے ہم سے رخصت لینے آئی، ہاں تب میں نے اسے کہا تھا کہ میں تو یہیں ہوں اور تم ہمیں چھوڑ کر جارہی ہو۔ نہیں میں آپ سب کے ساتھ ہی ہوں، بس جانا ہے، مجبوری ہے، کہتے ہوئے اس کے آنسو بہہ نکلے تھے۔ مجھے خوشی ہے کہ وہ اب چار بچوں کی ماں اور مجھ سے رابطے میں ہے، شادی کے بعد بھی اس سے کئی ملاقاتیں ہوئی ہیں اور اس نے میرا سگے بھائی سے زیادہ خیال اور احترام کیا ہے۔

ایک دن بابا نے کچھ اشیاء خریدنے کے لیے مجھے کلر سیداں جانے کا حکم دیا، میں نے ان سے اجازت لی کہ میں وہاں جس بابا جی سے ملا تھا ان سے ملنا چاہتا ہوں، انہوں نے بہ خوشی اجازت دے دی۔ میں نے آپ کو بتایا تھا کہ اس زمانے میں صرف ایک ہی بس چلتی تھی جو صبح چوہا خالصہ سے کلر سیداں آتی اور وہی پھر شام کو واپس چوہا خالصہ جاتی تھی، بابا نے مجھے اس بس میں سوار کراتے ہوئے کچھ ہدایات دیں اور کہا پریشان مت ہونا رب تعالی ہے تمہارے ساتھ۔ مجھے حیرت ہوئی کہ میں تو بالکل بھی پریشان نہیں تھا بل کہ خوش تھا کہ وہاں جارہا ہوں کچھ خریداری کروں گا اور ان بابا جی سے بھی ملوں گا، خیر میں دوپہر سے پہلے ہی کلر سیداں پہنچ گیا تھا۔ میں نے لسٹ کے مطابق خریداری کی اور پھر اسی ہوٹل پہنچ گیا۔

جہاں مجھے وہ ہوٹل والے بابا ملے تھے اور میں نے ایک رات ان کے ہاں بسر کی تھی۔ بابا ہوٹل پر موجود تھے، وہ مجھے دور سے آتا دیکھ کر دیوانہ وار میری طرف دوڑے۔ اوہ میرا پتر آگیا جی، بسم اﷲ، کیسا ہے تُو، سب خیر ہی لگتی ہے، واہ جی آج تو قمیض شلوار میں بہت سوہنا لگ رہا ہے میرا پتر۔ جی بابا جی سب خیر ہے، بہت مزے میں ہے زندگی، میں نے انہیں پوری تفصیل بتائی تو انہوں نے کہا پتر جی تم جن کی بات کر رہے ہو، انہیں تو سب جانتے ہیں، بہت نصیب والے ہو تم تو، وہ تو بہت نیک بزرگ ہیں، بہت اﷲ والے ہیں وہ تو، واہ جی واہ تم تو بہت ہی خوش نصیب ہو۔ میں نے حیرت سے پوچھا کہ پہلے جب میں نے ان سے جانے کا کہا تھا تب انہوں نے ان کے متعلق کیوں نہیں بتایا تو کہنے لگے او پتر جی تم نے تو مجھے چوہا خالصہ میں رکنے کا نہیں کہا تھا، تمہیں تو میں نے میرگالہ مگرال کا بتایا تھا۔ مجھے اچانک یاد آگیا کہ انہوں نے یہی کہا تھا، لیکن میں چوہا خالصہ میں رک گیا تھا اور حکیم بابا سے میری ملاقات ہوگئی تھی۔

میں نے ان سے ماں جی کی خیریت معلوم کی تو انہوں نے میرا ہاتھ پکڑا اور اپنے گھر کی طرف چلنے لگے، او پُتّر! اپنے بیٹے کو دیکھ کر وہ بہت نہال ہوگی، وہ تو ہر وقت تیرا پوچھتی رہتی ہے کہ نہ جانے کیسا ہوگا، کہاں ہوگا، میں تو اسے کئی مرتبہ بتا چکا ہوں کہ وہ جہاں کہیں بھی ہوگا ٹھیک ہی ہوگا لیکن پُتّر یہ ماں بھی ماں ہی ہوتی ہے، کسی پل اسے قرار نہیں آتا، ماں کو تو قرار اس وقت آتا ہے جب اس کا بیٹا اس کی نگاہوں کے سامنے ہو اور اس کے سارے کام وہ خود اپنے ہاتھ سے کرے۔ بابا بالکل صد فی صد سچ کہہ رہے تھے، بالکل ایسا ہی ہے، مائیں ایسی ہی ہوتی ہیں۔

میں بے عقل و فہم ہوں اور ہوں تو کیا کروں، بس ایسا ہی ہوں میں، کچھ جانتا ہی نہیں، میں کسر نفسی سے کام نہیں لے رہا، بالکل نہیں، کسر نفسی کیا بَلا ہے، میں کیا جانوں گنوار، مجھے اگر کچھ معلوم ہو تو اس کا ڈھنڈورا پیٹ دوں، لیکن مجھے خوشی ہے کہ میں کچھ جانتا ہی نہیں، ورنہ میرے شر سے کوئی کیسے بچ پاتا۔ لیکن جناب یہ جو مائیں ہیں ناں، مجھ سے زیادہ شاید ہی کوئی انہیں جانتا ہو، جی رب تعالی نے اتنی ساری مائیں جو دی ہیں مجھے، واہ جی واہ، مجھے پالنا کوئی آسان نہیں تھا بل کہ اب تک میں ایسا ہی ہوں۔

مجھے یاد ہے جب میری ایک ماں نے کہا تھا: ساری دنیا کے بچے پالنا بہت آسان ہے، لیکن تجھے پالنا بہت مشکل ہے بیٹا، اور پھر بہت ہنسیں اور کہا: اسی لیے تو اﷲ نے تجھے اتنی ساری مائیں دی ہیں، ایک ماں کے بس کا تُو کہاں۔ تو ہم گھر پہنچے تو ماں مجھ سے لپٹ گئیں اور پھر وہی سوالات۔ میں نے انہیں بتایا کہ میں بہت مزے میں ہوں شفیق حکیم بابا ہیں، پیار کا مجسم ماں ہے اور ایثار کیش بہنیں بھی۔ بہت خوش ہوئیں وہ، دوپہر کا کھانا ہم سب نے وہیں کھایا، ان کا اصرار تھا کہ میں ایک دن ہی کے لیے ان کے پاس رک جاؤں لیکن میں نے انہیں بتایا کہ میں نے اس کی اجازت نہیں لی اگلی مرتبہ میں اجازت لوں گا اور پھر ان کے ہاں قیام کروں گا۔ میں نے ان سے رخصت لی اور بابا مجھے واپسی کے لیے بس میں سوار کرانے آئے۔

بس اپنے وقت پر روانہ ہوئی، لیکن ابھی نصف فاصلہ ہی طے ہوا ہوگا کہ بس خراب ہوگئی، میں نے آپ کو اس سے پہلے بھی بتایا تھا کہ بس کیا تھی بس ایک کھٹارا تھی، جس کی ہر چُول ڈھیلی ہی نہیں اپنی جگہ سے بھی ہلی ہوئی تھی، اسے بس کہنا تو بس کی توہین تھی۔ ڈرائیور اور کنڈیکٹر خود ہی اسے ٹھیک کرنے میں لگے ہوئے تھے اور وقت گزارتا جارہا تھا۔ مجھے مغرب تک پہنچ جانا چاہیے تھا لیکن اب تو ایسا ممکن نہیں لگ رہا تھا۔ عصر کا وقت بھی تیزی سے گزر رہا تھا اور بس، بے بس ہوگئی تھی۔ مسافر اس بس کی صحت یابی کی دعائیں کر رہے تھے اور آخر مالک نے ان کی دعائیں قبول فرمائیں اور بس ہچکیاں لیتے ہوئے چلنے لگی، ایسا لگ رہا تھا جیسے انسانوں سے التجا کر رہی ہو کہ اے اشرف انسانوں مجھ پر رحم کرو، اور اس حالت میں تو مجھ پر رحم کرو۔ اپنی منزل پر مسافر اترنے لگے اور جب میں چوہا خالصہ پہنچا تو رات کے قریباً دس بج رہے تھے۔

بس مجھے اتار کر واپس چلی گئی اور میں وہاں تنہا رہ گیا۔ اندھیرا تھا، دور دور تک کھیت اور درخت اور ساتھ ہی بہتا ہوا پانی۔ میں کچھ دیر کھڑا سوچتا رہا، اس لیے کہ میں راستے کا تعین نہیں کرپا رہا تھا۔ یوں سمجھیے کہ میں گم راہ ہوگیا تھا۔ تھوڑی دیر تک تو میں کھڑا رہا اور اندھیرے میں دیکھنے کی کوشش کرنے لگا، اس وقت تک مجھے بابا حضور نے یہ نہیں سکھایا تھا کہ اندھیرے میں کیسے دیکھا جاسکتا ہے اور انسان کبھی راستہ گم کردے تو پھر اسے کیا کرنا چاہیے۔

جی جی کسی اور وقت پر ہم اس پر بھی بات کرلیں گے۔ ابھی میں اسی شش و پنج میں کھڑا تھا کہ دُور ایک کھیت سے اچانک ایک سایہ نمودار ہوا، پلک جھپکتے ہی وہ میرے سامنے تھا، بالکل خاموش، کچھ زیادہ ہی درازقد ایک سیاہ چادر میں لپٹا ہوا، اس نے بغیر کچھ کہے سنے میرا سامان سے بھرا ہوا بیگ اٹھایا اور ایک طرف چلنے لگا، میں اس کے پیچھے چلتے ہوئے سوچنے لگا کہ یہ کون ہے آخر، لیکن میں طے کرچکا تھا کہ اب جو ہوگا دیکھا جائے گا۔

مجھے حیرت نے اس وقت گھیرا جب مجھ پر یہ انکشاف ہوا کہ میرے چلنے کی چاپ تو آرہی تھی لیکن وہ بالکل ہی بے آواز تھا۔ مجھے ایسا لگا جیسے وہ زمین پر نہیں چل رہا لیکن میں اس کی تصدیق نہیں کرسکتا کہ میرا خیال صرف گمان تھا یا یقین، حق الالیقین اور عین الایقین کی منزل تو بہت بعد میں آتی ہے ناں جی۔ اسٹاپ سے گھر زیادہ دور نہیں تھا، اس نے گھر کے سامنے میرا بیگ رکھا اور تیزی سے غائب ہوگیا۔ میں نے دروازہ کھٹکھٹایا تو بابا جی نے دروازہ کھولا، لیکن حیرت ہے وہ کوئی سوال کیے بغیر ہی میرا بیگ اٹھا کر اندر چلے گئے۔ ماں نے مجھے بہت پیار کیا، بہنوں نے بس اتنا پوچھا سارا سامان مل گیا تھا تو میں اثبات میں سر ہلایا۔ بابا جی کھانا کھا چکے تھے لیکن ماں اور بہنیں میرا انتظار کر رہی تھیں، ہم نے کھانا کھایا اور آرام کرنے لیٹ گیا۔ ماں جی نے میرا ہاتھ تھاما ہوا تھا اور میں منتظر تھا کہ وہ مجھ سے اتنی دیر سے آنے کی وجوہات معلوم کریں گی، لیکن وہ تو خاموش تھیں۔ آخر میرا صبر جواب دے گیا۔

ماں جی مجھے دیر ہوگئی آپ پریشان تو نہیں ہوگئی تھیں، میں نے ماں جی کو پوچھنے پر اکسایا۔ نہیں بیٹا میں کیوں پریشان ہوتی، تمہارے بابا نے بتا دیا تھا کہ تمہیں آنے میں دیر ہوجائے گی، جو وقت انہوں نے بتایا تھا تم اس وقت اپنے گھر پہنچ گئے۔ ماں جی کے اس انکشاف نے تو مجھے مزید الجھا دیا تھا، میں نے سوچنا شروع کیا تو مجھے یاد آیا کہ صبح مجھے رخصت کرتے وقت بابا نے کہا تھا: پریشان مت ہونا رب تعالٰی ہے تمہارے ساتھ۔ اس کے ساتھ ہی میں جان پایا کہ جو کچھ ہوا بابا وہ پہلے سے ہی جانتے تھے۔ لیکن کیسے ۔۔۔۔۔۔ ؟ سوالات کی آندھی میرے اندر چلنے لگی اور میں تنکے کی طرح اس میں بھٹکنے لگا۔ کیسے ممکن ہے یہ، اگر یہ ہونا ہی تھا تو انہوں نے پہلے سے مجھے کیوں نہیں بتایا، انہوں نے گھر والوں کو کیسے بتا دیا کہ میں دیر سے گھر لوٹوں گا، ماں جی اور بہنیں کیسے ان کی ہر بات پر کامل یقین رکھتی ہیں اور کیوں سوال نہیں کرتیں، وہ سایہ کون تھا، کیا وہ میرے انتظار میں خود کھڑا ہوگیا تھا یا اسے بابا نے حکم دیا تھا کہ وہ مجھے امان کے ساتھ گھر تک پہنچائے، وہ بابا سے ملے بنا ہی کیسے نگاہوں سے اوجھل ہوگیا اور نہ جانے کیا کیا ۔۔۔۔۔۔!

اوہو! یہ کیا یاد آگیا اِس وقت

دیکھا ہی نہ ہو جس نے کبھی خاک سے آگے

کیا اُس کو نظر آئے گا افلاک سے آگے

(جاری ہے)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔