علیمہ خان پر جے آئی ٹی کیوں نہیں بن سکتی
بس یہی احتساب ہے اور یہی اس کی اصل شکل ہے
علیمہ خان کی غیر ملکی جائیدادوں نے ایک شور برپا کیا ہوا ہے پہلے دبئی اور پھر امریکا میں بھی جائیدادیں منظر عام پر آگئی ہیں۔ قیاس آرائیاں یہی ہیں کہ اور ملکوں میں بھی جائیدادیں ہیں لیکن ابھی ان دو ممالک میں ہی جائیدادیں منظر عام پر آئی ہیں۔
یہ شور اتنا زیادہ نہیں ہے کہ باقی سارے شور اس میں دب جائیں۔ لیکن پھر بھی درد دل رکھنے والے وز یر اعظم عمران خان کی بہن کی اس قدر غیر ملکی جائیدادوں کے منظر عام پر آنے پر حیران ہیں۔ بیچاری ن لیگ اس پر شور مچانے کی کوشش کر رہی ہے۔ لیکن باقی جماعتوں کے عدم تعاون کی وجہ سے ابھی ان کا شور محدود ہے۔ شاید ن لیگ بھی ابھی اس کو ایک بڑا ایشو بنانے کے لیے تیار نہیں۔ ان کی خاموشی اس کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔
میرے کپتان کا تو یہ دعویٰ تھا کہ وہ Made in Pakistanہے۔ اس کا سب کچھ پاکستان ہے۔ وہ پیسہ پاکستان سے باہر نہیں لے کر گیا ہے۔ بلکہ پاکستان میں واپس لے کر آیا ہے۔ لیکن ان کی بہن کی غیر ملکی جائیدادوں نے بہت سے سوال پیدا کر دیے ہیں۔ یہ درست ہے کہ حکومت اور حکمران جماعت علیمہ خان کے دفاع میں پیش پیش ہے۔ اپوزیشن کے علیمہ خان پر حملوں کا بھر پور دفاع کیا جا رہا ہے۔ اس دفاع نے بھی بہت سے سوالات پیدا کر دیے ہیں۔ لیکن ساتھ ساتھ حکومتی عہدیدار یہ بھی موقف لے لیتے ہیں کہ وزیر اعظم کا علیمہ خان سے کوئی تعلق نہیں ہے وہ اپنا جواب خود دیں گی۔ پھر جب تنقید بڑھ جاتی ہے تو یہ بھی کہہ دیا جاتا ہے کہ اگر کوئی ثبوت ملے گا تو کارروائی کریں گے۔ اس طرح حکومت اور حکمران جماعت کا علیمہ خان کے دفاع کے حوالے سے ابہام واضح ہے۔
لوگ سوال کر رہے ہیں کہ اگر نواز شریف کے لندن فلیٹس کے خلاف جے آئی ٹی بن سکتی ہے۔ اگر زرداری کی منی لانڈرنگ کے خلاف جے آئی ٹی بن سکتی ہے تو وزیر اعظم عمران خان کی بہن علیمہ خان کی غیر ملکی جائیدادوں پر جے آئی ٹی کیوں نہیں بن سکتی۔ سوال تو یہ بھی ہے کہ ان کو غیر ملکی جائیداد پر جرمانہ کیوں کیا گیا۔ کیا جرمانہ بھی اعتراف جرم نہیں ہے۔
اسی تناظر میں یہ سوال بھی کیا جا رہا ہے کہ جب پاناما کا معاملہ ہوا تو اس وقت کے وزیر اعظم میاں نواز شریف نے خود سپریم کورٹ کو خط لکھ دیا کہ ان کے معاملے میں جوڈیشل کمیشن بنا دیا جائے۔ سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار کو چیلنج نہیں کیا گیا۔ اب عمران خان نواز شریف کی پیروی کرتے ہوئے سپریم کورٹ کو خط کیوں نہیں لکھ رہے کہ میری بہن کے معاملے میں سپریم کورٹ جوڈیشل کمیشن بنا دے۔ انھیں کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ کیوں عمران خان یہ اعلان نہیں کر رہے کہ علیمہ خان کے معاملے پر ایک با اختیار جے آئی ٹی بنا دی جائے۔ انھیں کوئی اعتراض نہیں۔
جب ہمیں یہ سبق پڑھایا گیا ہے کہ ملک میں سب سے پہلے احتساب وزیر اعظم اور ان کے اہل خانہ کا ہوگا۔ تو آج سب سے پہلے احتساب وزیر اعظم کی بہن کا کیوں نہ کیا جائے۔ کیا علیمہ خان کا احتساب اس لیے نہیں ہو سکتا کہ آج کی اپوزیشن بہت کمزور ہے۔ آج کی اپوزیشن کی زبان بندی ہے۔ آج کی اپوزیشن کو اپنی جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ آج کی اپوزیشن اپنے کیسوں میں اس قدر پھنسی ہوئی ہے کہ کسی کے پاس علیمہ خان کے لیے وقت ہی نہیں ہے۔ آج کی اپوزیشن میں علیمہ خان کے مسئلہ پر کوئی دھرنا دینے کی طاقت نہیں ہے۔ اسلام آباد کے لاک ڈاؤن کے اعلان کی جرات نہیں ہے۔ شاید ڈر اور خوف کا ایسا ماحول ہے کہ کوئی سپریم کورٹ میں درخواست لیجانے کے لیے بھی تیار نہیں ہے۔
لوگ جاننا چاہتے ہیں کہ علیمہ خان کا ذریعہ معاش کیا ہے۔ ان کا ایسا کونسا بڑا کاروبار ہے جس سے انھوں نے اتنی جائیدادیں بنا لی ہیں۔ان کو وراثت میں بھی کوئی بڑی دولت نہیں ملی ہے۔ شادی انھوں نے کی نہیں ہے جو کہا جائے خاوند کی دولت ہے۔ لوگ سوال کر رہے ہیں کہ علیمہ خان کا عمومی تعارف تو یہی ہے کہ وہ عمران خان کے ساتھ ان کے فلاحی کاموں میںپیش پیش ہیں۔وہ شوکت خانم اور نمل کی فنڈ ریزنگ میں آگے آگے رہتی ہیں۔ وہ ان کے بورڈ پر ہیں۔
اس لیے دشمن یہ خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ کہیں یہ جائیدادیں شوکت خانم اور نمل کے چندوں سے تو نہیں بنائی گئیں۔ سب کو معلوم ہے ان فلاحی اداروں کے لیے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے بہت چندہ دیا ہے۔ اس لیے ان فلاحی اداروں کی ساکھ کا سوال ہے کہ علیمہ خان خود کو احتساب کے لیے پیش کریں۔ ورنہ مجھے ڈر ہے کہ ان شاندار فلاحی اداروں کے حوالہ سے شکوک و شبہات بڑھیں گے۔
کہیں نہ کہیں یہ سوال بھی ہے کہ کیا جے آئی ٹی صرف اپوزیشن کے مقدمات میں ہی بنتی ہیں۔ کہیں نہ کہیں یہ سوال بھی ہے کہ آمدن سے زائد اثاثوں کا قانون صرف اپوزیشن کے لیے ہے۔ یہ سوال بھی اہم ہے کہ کیا میگا کرپشن کیسز صرف اپوزیشن کے ہی بنتے ہیں۔ لوگ تحقیقاتی اداروں کی خاموشی پر بھی حیران ہیں۔ لوگ از خود نوٹس کا بھی انتظار کر رہے ہیں۔
میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ یکساں احتساب انصاف کی بنیاد ہے۔ ٹارگٹڈ احتساب کسی بھی قسم کے احتساب کے لیے زہر قاتل کی حیثیت رکھتا ہے۔ لوگ پہلے ہی مریم نواز اور بلاول بھٹو کے احتساب میں موازنہ کر رہے ہیں۔ لوگ پہلے ہی شہباز شریف اور مراد علی شاہ کے احتساب کا موازنہ کر رہے ہیں۔ لوگوں کا یہ سوال ہے کہ اگر بلاول کو اس منطق سے رعایت مل رہی ہے کہ انھوں نے کبھی کوئی پبلک آفس نہیں رکھا تو مریم نواز نے کونسا پبلک آفس رکھا تھا۔ اگر علیمہ خان کے لیے یہ دلیل ہے کہ انھوں نے کبھی کوئی سیاسی عہدہ نہیں رکھا تو مریم نواز نے کونسا سیاسی عہدہ رکھا۔ لوگ مماثلت پیدا کر رہے ہیں۔ ایسے میں ریاستی اداروں کو شدید احتیاط کرنا ہوگی۔
احتساب کی ساکھ ہی احتساب کی بنیاد ہے۔ آپ دیکھیں کہ حکمران جماعت احتساب کے سب سے بڑے ادارے نیب کی تب تک ہی وکیل تھی جب تک نیب اپوزیشن کو ٹارگٹ کر رہا تھا۔ لیکن جونہی نیب نے حکمران جماعت کا رخ کیا ہے۔ نیب کے سیاسی وکیل حکمران جماعت نے ہی نیب کے خلاف محاذ کھول دیا ہے۔ کل تک ہمیں سمجھایا جا رہا تھا کہ سب سے پہلے وزیر اعظم کا احتساب ہو گا۔ اب بتایا جا رہا ہے کہ نیب کی وزیر اعظم کے خلاف تحقیقات ملک کی توہین ہیں۔
کل تک ہمیں سمجھایا جا رہا تھا کہ وزیراعظم اپنے تمام اہل خانہ کے جوابدہ ہیں۔ آج سمجھایا جا رہا ہے کہ وزیر اعظم اپنی بہن کے جوابدہ نہیں ہیں۔ کل تک سمجھایا جا رہا تھا کہ الزام لگ جائے تو استعفیٰ دے دینا چاہیے آج بتایا جا رہا ہے کہ الزام لگانا ملک و قوم کی توہین ہے۔ کل تک سمجھایا جا رہا تھا کہ اپوزیشن کا کام صرف الزام لگانا ہے ثبوت تو تحقیقات میں ہی سامنے آئیں گے۔ لیکن آج بتایا جا رہا ہے کہ اگر ثبوت ہیں تو سامنے لائیں۔
کل تک بتایا جا رہا تھا کہ حکومت اور حکمرانوں کو اداروں کا احترام کرنا چاہیے۔ اگر حکومت اور حکمران ہی اداروں کا احترام نہیں کریں گے تو ملک کا نظام کیسے چلے گا۔ لیکن آج کی حکومت اور حکمرانوں نے ہی الیکشن کمیشن کی کارروائی کا بائیکاٹ کیا ہواہے۔ آج حکمران جماعت کے اٹھارہ ایسے اکاؤنٹس سامنے آگئے ہیں جن کا تحریک انصاف کی آڈٹ رپورٹ میں ذکر نہیں ہے۔ لیکن تحریک انصاف الیکشن کمیشن کا بائیکاٹ کر کے بیٹھی ہے۔ فارن فنڈنگ کا معاملہ بھی اسی لیے زیر التوا ہے۔ لیکن دوسری طرف اپوزیشن کی جے آئی ٹی کا بہت شور ہے۔ بس یہی احتساب ہے اور یہی اس کی اصل شکل ہے۔