تحریک انصاف ضمنی الیکشن میں سابقہ کارکردگی برقرار رکھ پائے گی

موجودہ حکومتوں کے قیام کے بعد ان کے لیے سب سے بڑا چیلنج آئندہ ماہ منعقد ہونے والے ضمنی انتخابات کو جیتنا ہے۔


Shahid Hameed July 16, 2013
فوٹو: فائل

موجودہ حکومتوں کے قیام کے بعد ان کے لیے سب سے بڑا چیلنج آئندہ ماہ منعقد ہونے والے ضمنی انتخابات کو جیتنا ہے۔

خیبرپختونخوا کی حد تک تو ماضی کا ریکارڈ یہی رہا ہے کہ صوبہ میں جو حکومت بھی برسراقتدار رہی اکثر اس ہی کے امیدوار ضمنی انتخابات میں کامیابی حاصل کرتے آئے ہیں اور ایسا بہت کم ہی دیکھنے میں آیا ہے کہ صوبہ میں برسراقتدار پارٹی کے امیدوار الیکشن کا میدان ہارے ہوں ،اسی تناظر میں سب کی نظریں 22 اگست کے ضمنی الیکشن پر لگی ہوئی ہیں کہ آیا تحریک انصاف نے عام انتخابات میں جو کارکردگی دکھائی ہے وہ ٹیمپو ضمنی انتخابات میں بھی برقراررکھ پائے گی یا نہیں ؟

ضمنی انتخابات میں یوں تو قومی اسمبلی کی پانچ اور صوبائی اسمبلی کی چار نشستوں پر انتخابات ہونے جارہے ہیں اور ان میں سے ہر ایک نشست کی اپنی جگہ اہمیت ہے تاہم سب کی نظریں این اے ون پشاور کی نشست پر لگی ہوئی ہیں جہاں سے مئی کے عام انتخابات میں تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان مرد میدان ٹھہرے تھے جبکہ ان کے مقابلے میں اے این پی کے حاجی غلام احمد بلور اور جماعت اسلامی کے شبیر احمد خان سمیت دیگر شکست کھاگئے تھے اور اس نشست سے ایک مرتبہ پھر حاجی غلام احمد بلور ہی میدان میں مقابلہ کرنے کے لیے موجود ہیں، تاہم اس مرتبہ ان کا مقابلہ نہ تو عمران خان جیسی دبنگ شخصیت سے ہے اور نہ ہی 11 مئی جیسی ہوا ہے اس لیے مقابلہ سخت سے سخت تر ہونے کا امکان ہے ۔

ضمنی انتخابات کے حوالے سے تحریک انصاف کے کئی امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں تاہم پارٹی نے ان میں سے ٹکٹ گل بادشاہ کو دیا ہے جن پر پارٹی ہی کے کئی رہنمائوں اور ورکروں کو بہت سے اعتراضات ہیں یہی وجہ ہے کہ پی ٹی آئی کے مذکورہ امیدوار کو اس طریقہ سے مضبوط امیدوار تصور نہیں کیاجارہا جس طریقہ سے چار جماعتی اتحاد کو اپنا امیدوار میدان میں اتارنا چاہیے تھا ،گو کہ جماعت اسلامی، قومی وطن پارٹی اور عوامی جمہوری اتحاد نے تحریک انصاف کا حق اس نشست پر مان لیا ہے اور دوسری جانب اپوزیشن میں بھی جے یو آئی اور اے این پی کے درمیان مفاہمت کافی حد تک ہوچکی ہے اور ایک پی کے 27 مردان کی نشست کو چھوڑ کردیگرتمام نشستوں پر ان کا اتحاد ہوچکا ہے جبکہ توقع کی جارہی ہے کہ پیپلز پارٹی بھی شاید اے این پی وجے یو آئی کے امیدواروں کی حمایت کا اعلان کردے۔

اس لیے اس بات کا امکان ہے کہ ضمنی الیکشن حکومت بمقابلہ اپوزیشن ہوں گے جس سے سخت مقابلہ متوقع ہے اور اسی وجہ سے وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا پرویز خٹک کی جانب سے بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے خلاف خود احتجاجی مظاہرہ کی قیادت کے اعلان کو ضمنی الیکشن سے جوڑا جارہا ہے چونکہ پی ٹی آئی کی حکومت اب تک عوام کی توقعات کے مطابق کوئی بڑا کام نہیں کرسکی اس لیے وزیراعلیٰ کو عوام کی نبض پر ہاتھ رکھتے ہوئے بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے خلاف مظاہروں کی قیادت کا اعلان کرنا پڑا تاہم یہ اعلان حکمران اتحاد کا نہیں بلکہ تحریک انصاف کا تھا یہی وجہ ہے کہ جب تحریک انصاف اپنی اتحادی جماعتوں کے ساتھ مشاورت کے لیے بیٹھی تو اس اعلان سے پیچھے ہٹ گئی کیونکہ بہرکیف کسی بھی حکومت کے لیے ایسے کسی اعلان پر عمل درآمد کرنا اور کسی صوبہ کے چیف ایگزیکٹو کی جانب سے ایسے کسی احتجاج کی قیادت کرنا کوئی آسان کام نہیں اور نہ ہی حکومتیں اس انداز میں احتجاج کرتی ہیں ۔

وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا پرویز خٹک کی جانب سے بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کی قیادت کا اعلان کوئی انہونا یا انوکھا نہیں کیونکہ اس سے قبل گزشتہ حکومت میں وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف بھی ایسے ہی احتجاج کی قیادت کرچکے ہیں جب انہوں نے اپنا دفتر ٹینٹ میں لگانا اور دستی پنکھوں کے ساتھ گرمی کی شدت کو کم کرنے کا انتظام کیا تھا تاہم قارئین کو یاد ہوگا کہ اس وقت بھی شہباز شریف کے اس اقدام کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیاتھا اور ان سے مطالبات کیے جاتے رہے تھے کہ وہ احتجاج کا راستہ چھوڑ کر مسائل کو حل کرنے کے لیے دیگر صوبوں اور مرکز کی قیادت کے ساتھ میز پر آئیں اور مسائل کو حل کریں اور آج جب پرویز خٹک نے عوامی رنگ میں رنگ کر احتجاج کرنے کا ایسا ہی اعلان کیا تو سب سے پہلی مخالفت خود ان کی اتحادی جماعتوں کی جانب سے کی گئی کیونکہ تحریک انصاف کے ساتھ شریک اقتدار جماعت اسلامی اور قومی وطن پارٹی دونوں اس بات کو بخوبی سمجھتی ہیں کہ اگر مسائل کو حل کرنے کے لیے یہ راستہ اپنایا گیا تو پانچ سالوں کے دوران مرکز سے مسائل کو حل کرانے کے لیے ہر مرتبہ ہی انھیں سڑکوں پر نکلنا پڑے گا اور پھر بھی اس بات کی کوئی ضمانت نہیں ہوگی کہ مرکز ان کے مسائل کو حل کرتا ہے یا نہیں اسی لیے اتحادیوں کے ساتھ مشاورت کے بعد تحریک انصاف بھی واپڈا کے خلاف احتجاج کے اپنے اعلان سے پیچھے ہوگئی اور اب وہ اسمبلی ،سیاسی پارٹیوں کے اکٹھ ،مشترکہ مفادات کی کونسل اور عدالتوں کا راستہ اختیار کرتے ہوئے مسائل کو حل کرنے کی جانب سفر کا آغاز کرے گی جس کے پہلے مرحلے میں تحریک انصاف اتحادی جماعتوں اور صوبائی وزراء کے جرگے کے ہمراہ مرکز کا رخ کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں جہاں وہ وفاقی وزیر برائے پانی وبجلی کے ساتھ ملاقات کریں گے تاہم یہ ملاقات اگر وزیراعظم کے ساتھ کی جائے تو اس کے زیادہ مثبت نتائج سامنے آنے کی توقع ہے کیونکہ وفاقی وزیرپانی وبجلی بھی بہرکیف وزیراعظم ہی کی ٹیم کا ایک حصہ ہیں اوروہ اسی حدود میں کھیل پائیں گے جتنی ان کے لیے وزیراعظم کی جانب سے متعین کی جائے گی ۔

خیبرپختونخوا حکومت میں شامل اتحادی جماعتوں میں سے تحریک انصاف کو ضمنی انتخابات میں سب سے زیادہ کڑا امتحان درپیش ہوگا کیونکہ نو میں سے آٹھ نشستوں پر تحریک انصاف ہی مقابلے کے لیے میدان میں اترے گی اور جس نشست پر جماعت اسلامی مقابلہ کرے گی اس نشست پر عمران مہمند کے بھائی کو ہمدردی کا ووٹ بھی جائے گا اور یہ اس نشست پر ہار جیت کے حوالے سے اہم فیکٹر ہوگا تاہم اس امتحان سے نکلتے ہی اتحادیوں کو جہاں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے تیاری کے ساتھ میدان میں اترنا ہوگا وہیں پر بجلی کے خالص منافع کی سالانہ رقم کے حصول کو ممکن بنانے اور اس سالانہ رقم میں بجلی کی موجودہ قیمت کے مطابق اضافہ کرانے کے لیے مرکز کے ساتھ جنگ کرنے کے علاوہ 2004-05 ء سے اب تک کے بجلی منافع کے بقایاجات کے حصول کے لیے بھی الگ جدوجہد کرنی ہوگی کیونکہ ایم ایم اے دور حکومت میں بجلی منافع کے جن بقایا جات کا تصفیہ ہوا تھا ان بقایاجات کی آخری قسط اس جاری مالی سال کے دوران ادا کی جائے گی جس کے ساتھ ہی صوبہ 110 ارب روپے وصول کرلے گا اور اس وصولی کے بعد آئندہ مالی سال سے صوبہ کو مرکز کی جانب سے منتقل ہونے والی رقوم میں پچیس ارب کی ایکدم سے کمی آجائے گی جسے پورا کرنے کے لیے صوبہ کو مرکز اور واپڈا کو آمادہ کرنا ہوگا کہ وہ اس عرصہ کے لیے صوبہ کو بجلی منافع کے بقایاجات کی ادائیگی کرے جس کے لیے صوبائی حکومت نے اپنی جانب سے 350 ارب روپے سے زائد کا کیس تیار کررکھا ہے، تاہم مرکز اور واپڈا اس کی ادائیگی کے لیے شاید ہی تیار ہوں اس لیے اس رقم کے حصول کے لیے صوبہ کو عدالتوں کا ہی رخ کرنا پڑے گا اور عدالتی جنگ کے نتیجہ ہی میں یہ کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے ۔

عوامی نیشنل پارٹی کی فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی نے اپنی رپورٹ تو اے این پی کے مرکزی صدر اسفندیارولی خان کو پیش کردی ہے تاہم اس میں کی گئی سفارشات پر عمل درآمد ضمنی انتخابات کے بعد ہی کیاجائے گا کیونکہ اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ ان سفارشات کی روشنی میں ممکنہ طور پر پارٹی کا صوبائی سیٹ اپ تحلیل کردیاجائے اور اس کی جگہ نیا سیٹ اپ سامنے لایاجائے جس کے لیے بعض حلقے تو اب سے یہ قیاس آرائیاں بھی کررہے ہیں کہ اے این پی کے اگلے صوبائی صدر امیر حیدر ہوتی اور ان کے ساتھ جنرل سیکرٹری میاں افتخار حسین ہوں گے جبکہ افراسیاب خٹک کو ممکنہ طور پر پارٹی کے مرکزی سیٹ اپ میں ایڈجسٹ کیاجائے گا تاہم یہ سارے اندازے اور قیاس آرائیاں ہی ہیں کیونکہ اس بارے میں پتا تو تب ہی چلے گا جب رپورٹ کی سفارشات پر عمل درآمد کیاجائے گا تاہم جب دھواں اٹھتا ہے تو آگ بھی ضرور لگی ہوتی ہے اور پھر رپورٹ پر عمل درآمد کو ستمبر تک موخر کرنا بھی اس سارے معاملے کو تقویت دیتا ہے اور ویسے بھی یہ سننے میں آرہا ہے کہ جس کا جتنا کام تھا وہ کرچکے اب نئے لوگوں کو آگے آنا ہوگا اور شاید اس کے لیے وقت آگیا ہے ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں