تعلیم و تربیت اور مغربی کلچر
کہا جاتا ہے کہ تعلیم کے زیور سے آراستہ کیے بغیر انسان کو معاشرے میں ایک نامکمل اور ادھورے پن کا۔۔۔
کہا جاتا ہے کہ تعلیم کے زیور سے آراستہ کیے بغیر انسان کو معاشرے میں ایک نامکمل اور ادھورے پن کا احساس رہتا ہے، کیوں نہ ہو کیونکہ تعلیم ایک میٹھے پھل کی مانند ہے۔ تعلیم انسان کو سوچنے سمجھنے کی صلاحیت عطا کرتی ہے۔ زندگی کو ایک خوبصورت اور حسین نکھار کے ساتھ ایک آرام دہ خواب کی تعبیر صرف اور صرف تعلیم ہی فراہم کر سکتی ہے۔ تعلیم کے حصول کے ساتھ ساتھ تربیت حاصل کرنا بھی اتنا ہی اہم ہے جتنا تعلیم کا حصول۔ اگر تعلیم کے ساتھ اچھی تربیت بھی ہو جائے تو فرد معاشرہ ملک و قوم کی ترقی کا اہم ترین ذریعہ ثابت ہوتے ہیں۔ یوں کہہ سکتے ہیں کہ تعلیم انسان کو ایک ویژن دیتی ہے اور تربیت اس کو عملی طور پر نافذ کرنے کا فن سکھاتی ہے۔
ماضی کے تجربات نے یہ بات ثابت کر دی ہے کہ معاشرہ یا ملک و قوم کی شاندار ترقی اور خوشحال و پرسکون زندگی کا حصول صرف اور صرف اچھی تعلیم کے ساتھ ساتھ اچھی تربیت کے بغیر ناممکن ہے۔ تربیت کی پہلی درسگاہ ''ماں کی گود'' ہے۔ عزیز و اقارب سے میل جول رکھنا، دوست احباب سے تعلقات رکھنے سے ہماری تربیت کی تکمیل ہو سکتی ہے۔ انسانوں سے محبت و پیار اور ان کے دکھ درد میں شرکت کا مرہون منت معاشرتی آلہ ''تربیت'' ہی سے ممکن ہو سکتا ہے۔ ٹارگٹ کلنگ، ڈکیتی، معصوم شہریوں کا قتل عام جیسے گھناؤنے جرائم کے مرتکب افراد ضرور معاشرہ کی نا انصافیوں اور ان کے ملنے والی تربیت ہی کا پیش خیمہ ہو سکتے ہیں۔ ان تمام مسائل کا حل صرف اور صرف نفسیاتی اور ترجیحی بنیادوں پر کرنے سے ہی ممکن ہو سکتا ہے۔
تعلیم و تربیت کو اگر ہم مغربی ماحول سے موازنہ کریں تو ہمیں مشرق و مغرب کے ماحول میں ایک قابل غور تضاد نظر آئیگا۔ مغرب میں فیملی کلچر کے رواج کا گہرا فقدان ہے۔ وہاں روایتی انسانی طرز عمل کے مضامین کے مطالعے کی جگہ جدید سائنسی علوم، انفارمیشن ٹیکنالوجی کے علوم نے لے لی ہے۔ معیاری تربیت کے فقدان کی وجہ سے تعلیم و تربیت کی جگہ تعلیم و مادیت پرستی نے لے لی ہے۔ مغرب کے ماحول میں پرورش پانے والے افراد خونی رشتوں کی پامالی کے مرتکب ہو رہے ہیں جب کہ اسلامی معاشرت میں تربیت پانے والے افراد معاشرے کا ایک اعلیٰ اور مثالی نمونہ پیش کر رہے ہیں۔ والدین جیسے مقدس بزرگوں کی ناقدری اور تذلیل ان کے معاشرے کی بے حسی کا نمونہ پیش کر رہی ہے جب کہ ماں باپ جیسی مقدس ہستیاں ہمارے لیے مشعل راہ کے علاوہ دنیا و آخرت کی نجات کا ذریعہ بھی ہیں۔
''مدر ڈے، فادر ڈے'' کیا ہیں؟ قطعاً ہمارا معاشرہ کسی بھی قیمت پر متحمل نہیں ہو سکتا۔ حقیقتاً ہمارے لیے ہر آنیوالا دن کا ایک ایک لمحہ مدر ڈے اور فادر ڈے سے کم نہیں ہونا چاہیے۔ ان کی خدمت کو اپنا نصب العین بنائیں۔ ہم تعمیری و ترقیاتی کاموں میں مغرب کی تقلید کی بجائے غیر اسلامی طور طریقہ اپنا کر اپنی آخرت خراب کر رہے ہیں۔ قابل افسوس امر یہ ہے کہ پاکستان میں تیزی سے بڑھتے ہوئے اولڈ ہاؤسز کا قیام ہمیں کس طرف لے جا رہے ہیں جو ہمارے لیے لمحہ فکریہ سے کم نہیں۔ مادیت پرستی کی مشعل جو آج ہم روشن کر رہے ہیں مستقبل میں اس کی تپش جہنم کی آگ بن کر ابھرے گی جس میں ہم خود ہی جل کر خاکستر ہو جائینگے۔
یہی نظام فطرت ہے۔ بلاشبہ بہترین اور لازوال تربیت گاہ بنیادی طور پر معاشرے کی اہم اکائی ''ماں'' ہے۔ مادیت پرستی اور پیشہ ورانہ تعلیم نے تربیت جیسی مقدس اکائی کو بھی ماند کر دیا ہے۔ اولاد ماں باپ کے پاس اللہ تعالیٰ کی ایک امانت ہے۔ قرآن مجید میں بھی بار بار والدین کے حقوق و فرائض پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی اس لطیف خوبصورت زندگی سے بھرپور نعمت کے حصول کے لیے پیغمبروں نے بھی اپنی اپنی التجا اللہ رب العزت کے سامنے دعا کی صورت میں رکھی۔ قرآن حکیم میں جابجا والدین کی اولین ذمے داری اولاد کی اچھی تربیت کی طرف زور دیا ہے اس لیے اولاد کا فرض اولین بھی یہی ہونا چاہیے کہ بوڑھے اور بیمار والدین کی خدمت کو جنت کے حصول کا ذریعہ بنائیں۔
جدید نفسانفسی کے دور میں طاغوتی قوتیں امت مسلمہ کے لیے فتنہ و فساد برپا کر رہی ہیں۔ وہاں نسل نو کی اسلامی نہج پر تربیت ہنگامی بنیادوں پر کرنا بے حد ضروری ہے۔ اس میں ہمارے لیے مشعل راہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اسوہ حسنہ اور خاندان نبوت کے خانوادے تھے جو بلاشبہ اچھی تربیت کا عملی نمونہ تھے۔ تعلیم و تربیت کا انسانی زندگی میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔
ترقی یافتہ فلاحی ریاست اور سپر پاور امریکی معاشرے کا ایک عجیب پہلو ایک ریاست میں ایک ماں نے اپنے بیٹے کے خلاف مقدمہ کیا۔ مقدمے کی تشہیر وہاں کے اخبارات اور میڈیا نے بھی کی۔ ماں نے مقدمے میں کہا کہ میرے بیٹے نے گھر میں ایک کتا پالا ہوا ہے اور روزانہ تین چار گھنٹے اس کے ساتھ گزارتا ہے، اسے نہلاتا ہے، اس کی ضروریات پوری کرتا ہے حتیٰ کہ اسے اپنے ساتھ سیر کے لیے بھی لے جاتا ہے جب کہ میں اسی گھر میں ایک کمرے میں رہتی ہوں لیکن میرا بیٹا میرے کمرے میں پانچ منٹ کے لیے بھی نہیں آتا اس لیے فاضل عدالت کو چاہیے کہ وہ میرے بیٹے کو روزانہ میرے کمرے میں ایک مرتبہ آنے کے لیے ضرور پابند کرے۔ جب ماں نے مقدمہ کیا تو بیٹے نے بھی مقدمہ لڑنے کی تیاری کر لی۔ ماں، بیٹے دونوں نے وکیل کر لیے۔ دونوں وکیل جج کے سامنے پیش ہوئے اور کارروائی مکمل کرنے کے بعد فاضل جج نے جو فیصلہ سنایا، ملاحظہ کیجیے۔
''عدالت آپ کے بیٹے کو آپ کے کمرے میں5 منٹ کے لیے آنے پر مجبور نہیں کر سکتی کیونکہ ملک کا قانون ہے کہ جب اولاد 18 سال کی ہو جائے تو اسے حق حاصل ہے کہ چاہے والدین کو کچھ ٹائم دے یا نہ دے۔ رہی بات کتے کی تو کتے کے حقوق لازم ہیں جنھیں ادا کرنا اس پر ضروری ہے البتہ ماں کو کوئی تکلیف ہو تو اسے چاہیے کہ وہ حکومت سے رابطہ کرے وہ اسے بوڑھوں کے قائم کردہ گھر لے جائینگے اور اس کی خبر گیری کرینگے۔''
اللہ تعالیٰ ہمارے معاشرے کو ایسی معاشرت سے اپنی پناہ میں رکھے۔ (آمین !)
ہمارے ملک کی بیشتر آبادی بزرگوں پر مشتمل ہے جو ہمارے لیے قیمتی اثاثے سے کم نہیں۔ ان کی قدر و منزلت ہمارے علاوہ حکومت وقت کی ذمے داری میں شامل ہونا چاہیے اس ناتواں عمر میں نت نئی بیماریاں حملہ آور ہوتی ہیں اور ان کے علاج معالجے پر ایک کثیر رقم خرچ ہو جاتی ہے۔ اس مہنگائی کے دور میں کثیر رقم کا خرچ کرنا بھوک و افلاس و ناداری کے سوا کچھ نہیں اس لیے میری حکومت کے اعلیٰ ذمے داروں سے ہمدردانہ درخواست ہے کہ کم از کم ان کے دکھوں پر مرہم رکھتے ہوئے ان کا مداوا ان کے طبی علاج معالجے کے لیے ایک مخصوص رقم مختص کرے۔ ترقی یافتہ دنیا نے آبادی کو کنٹرول کرنے میں اہم پیش رفت کی ہیں۔ یہاں میں چین میں ہونے والی آبادی کی روک تھام کے لیے اقدامات کا ذکر نہ کروں تو ناانصافی ہو گی۔ چین میں قانون پاس کیا گیا کہ شادی کرنے کے لیے باقاعدہ اجازت حاصل کرنا اس کے بعد بچے کی پیدائش کی اجازت لینا لازمی جز قرار دیا۔ وہاں 2 بچوں سے زیادہ پیدائش غیر قانونی اور جرم قرار دیا۔ حدود کا تعین کر دیا۔