قبائلی اضلاع میں امن لشکر کے رضار کار عسکریت پسندوں کے نشانے پر

حکومت نے امن لشکروں کو دی گئی پولیس سیکیورٹی بھی واپس لے لی ہے


احتشام خان January 21, 2019
جو مراعات ہمیں 2009 میں ملتی تھیں اب ایسا کچھ نہیں، رکن امن لشکر فوٹو: فائل

خیبر پختونخوا میں ضم کے لیے قبائلی علاقاجات میں دہشت گردوں کے خلاف بنائے علاقائی امن لشکر دہشت گردوں کے مسلسل نشانے پر ہیں۔

نائن الیون کے بعد جہاں پاکستان دہشتگردی کے خلاف جنگ کے نام پر پرائی آگ میں جھونکا گیا وہیں خیبر پختونخوا میں ضم کئے گئے قبائلی علاقے خاص طور پر اس سے متاثر ہوئے۔ دہشت گردوں سے نمٹنے کے لیے وفاق کے زیر انتظام ان علاقوں میں مقامی افراد پر متشمل امن لشکر قائم کئے گئے جو دہشت گردوں کے خلاف حکموت اور سیکیورٹی فورسز کے شانہ بشانہ ہیں جس کی وجہ سے امن لشکر کے رضاکار اب بھی دہشتگردوں کے نشانے پر ہیں۔



چند روز قبل ضلع خیبر میں امن کمیٹی کے سربراہ ملک میر عالم آفریدی کو دہشت گردوں نے پشاور میں فائرنگ کر کے ابدی نیند سلا دیا، ملک میرعالم آفریدی 2014 میں پشاور کے ارباب روڈ پر ہونے والے خودکش حملے میں بھی زخمی ہوئے تھے، اسی طرح پشاور کے نواحی علاقے متنی ادیزئی مان لشکر بھی کئی سال سے دہشت گردوں کے نشانے پر ہے۔ 2008 میں متنی ادیزئی میں مقامی لوگوں نے دہشت گردوں کے خلاف بر سرپیکار ہو کر امن لشکر بنایا گیا تھا جس کے اب تک 100 سے زائد رضا کار بم دھماکوں ، ٹارگٹ کلنگ اور دہشت گرد کاروائیوں میں جاں بحق ہو چکے ہیں۔

ادیزئی امن لشکر کے سربراہ دلاور خان مرحوم کے بھائی فرمان اللہ نے کہا کہ ہمارے ہمارے گاؤں سے 84 کے قریب دہشت گرد مختلف گروپس میں شامل ہوئے جن سے آج بھی ہمیں خطرہ ہے، ہم پر 4 خودکش حملے ہوئے جب کہ آخری حملہ جون 2016 میں ادیزئی میں ہمارے گھر پر ہوا تھا، دسمبر 2008 میں ہمیں پشاور پولیس کی جانب سے 72 پولیس اہلکار دیئے گئے لیکن 2017 میں ہم سے تمام سکیورٹی واپس لے لی گئی اور آج ہم اپنی مدد آپ کے تحت دہشتگردوں کے خلاف برسرپیکار ہیں۔



دہشت گردوں کے خلاف بنائے گئے امن لشکر ادیزئی کے رکن ارسلا خان کا کہنا ہے کہ ان کے خاندان کے 15 افراد دہشت گردوں کی کارروائیوں کا نشانہ بن چکے ہیں، 9 مارچ 2011 میں متنی میں جنازے میں ہونے والے دھماکے میں امن لشکر ادیزئی کو ٹارگٹ کیا گیا جس میں 36 افراد جاں بحق ہوئے تھے جن میں 20 سے زائد امن لشخر کے رضا کار شامل تھے، 2013 میں ادزئی امن لشکر کے سربراہ دلاور خان کی وفات کے بعد میرے والد واقف خان مقامی امن لشکر کر سربراہ بن گئے تھے اور جنازے میں وہ بھی موجود تھے دھماکے میں میرے چچا میر باز خان اور دیگر رشتہ دار بھی شہید ہوئے تھے۔



ارسلا خان کا کہنا تھا کہ میرے چچا فیض محمد کو دہشت گردوں نے 2013 میں متنی بازار میں فائرنگ کر کے شہید کردیا تھا۔ ہماری جو عمر پڑھنے لکھنے کی تھی اس عمر میں ہم نے قلم کے بجائے دہشت گردوں کے خلاف بندوق اٹھائی ہوئی تھی، ہم اپنے علاقے سے باہر بھی نہیں جاسکتے تھے کیونکہ دہشت گردوں نے ہمارے امن لشکر کے درجنوں جوانوں کو نشانہ بنایا۔ 2016 میں ہم سے پولیس اہلکار بھی واپس لے لئے جو مراعات ہمیں 2009 میں ملتی تھیں اب ایسا کچھ نہیں، آج بھی ہم آزاد گھوم نہیں سکتے ہمیں آج بھی ڈر رہتا ہے۔

دوسری جانب ترجمان آئی جی خیبر پختونخوا وقار خان کے مطابق حالات بہتری پر امن کمیٹوں سے پولیس اہلکار واپس لے لئے گئے ہیں تاہم پالیسی کے مطابق ضرور پڑنے پر وہاں سیکیورٹی دی جاتی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں