حقائق منظرعام پر لائے جائیں
سیاسی، صحافتی اور عوامی حلقوں میں اس رپورٹ پر اظہار خیال کیا جا رہا ہے
دنیا کے مہذب اور قانون پسند ملکوں میں جب کبھی قومی نوعیت کا کوئی بڑا مسئلہ رونما ہوتا ہے تو متعلقہ ادارے اس کی پوری دیانت داری کے ساتھ تحقیقات کرتے ہیں اور واقعے سے متعلق اسباب و عوامل کا کھوج لگاکر عوام الناس کو باخبر رکھنے کے لیے تمام حقائق کو منظر عام پر لایا جاتا ہے۔ اگلے مرحلے میں سانحے کے ذمے داروں کا تعین کر کے اصل مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کا عمل مکمل کیا جاتا ہے۔
ہمارے ہاں کا باوا آدم ہی نرالا ہے ہمارا المیہ یہ ہے کہ اول تو ہم قومی نوعیت کے حوادث پر وقتی ماتم زنی کر کے وقت کے ساتھ ساتھ اسے بھول جانے کے عادی ہو چکے ہیں اور اگر خوش قسمتی سے ارباب اختیار جاگ رہے ہوں تو ایسے کسی المناک سانحے کی تحقیقات کے لیے کوئی کمیشن بنا کر گویا اپنے فرض منصبی سے سبکدوش ہو جاتے ہیں اور قوم بھی مطمئن ہو جاتی ہے کہ کمیشن کی رپورٹ منظر عام پر آنے کے بعد تمام حقائق طشت از بام ہو جائیں گے اور واقعے کے ''قومی مجرم'' اپنے انجام کو ضرور پہنچیں گے۔
آپ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں نصف صدی کے دوران چھوٹے بڑے کئی قومی سانحات کے پس پردہ حقائق جاننے کے لیے متعدد بار کمیشن بنائے گئے، تحقیقات بھی کی گئیں اور رپورٹیں بھی مرتب کی گئیں لیکن سرکاری سطح پر آج تک کسی انکوائری کمیشن کی رپورٹ عوام الناس کی آگاہی کے لیے منظر عام پر نہیں لائی گئی۔ سانحہ سقوط ڈھاکہ کے اسباب جاننے کے لیے بننے والے حمودالرحمٰن کمیشن سے لے کر اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے محرکات اور عوامل کا سراغ لگانے اور ذمے داروں کے تعین کے لیے بننے والے ایبٹ آباد کمیشن تک حکومتی حوالے سے کسی کمیشن کی رپورٹ شایع نہیں کی گئی۔
جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں ایک بھارتی میگزین میں حمود الرحمٰن کمیشن رپورٹ کے کچھ حصے شایع ہوئے تو ہمارے ہاں کھلبلی مچ گئی۔ جب میڈیا میں شور وغل اٹھا تو مشرف حکومت نے حمودالرحمٰن کمیشن رپورٹ کے چند حصے شایع کر کے گویا اپنا ''قومی فرض'' ادا کر دیا۔ دو سال قبل 2 مئی 2011ء کو ایبٹ آباد میں رات کی تاریکی میں کیے جانے والے امریکی آپریشن کے دوران اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے پس پردہ حقائق جاننے کے لیے عدالت عظمیٰ کے جج جناب جسٹس جاوید اقبال کی سربراہی میں ایک کمیشن تشکیل دیا گیا جس نے اپنی تحقیقات مکمل کر کے رپورٹ مرتب کی لیکن حسب روایت اس کمیشن کی رپورٹ منظر عام پر نہیں لائی گئی بلکہ غیر متوقع طور پر ایک عرب ٹی وی چینل الجزیرہ کے توسط سے ہمارے ذرایع ابلاغ تک پہنچی اور اب صرف میڈیا میں ایبٹ آباد کمیشن رپورٹ کے مندرجات اور اس کے افشاں ہونے کے محرکات پر گرما گرم بحث ہو رہی ہے۔
سیاسی، صحافتی اور عوامی حلقوں میں اس رپورٹ پر اظہار خیال کیا جا رہا ہے مبصرین اور تجزیہ نگار مختلف زاویوں سے ایبٹ آباد کمیشن رپورٹ پر تبصرے اور تجزیے کر رہے ہیں۔ ایک اخباری اطلاع کے مطابق الجزیرہ ٹی وی کی رپورٹ حتمی نہیں بلکہ یہ کمیشن کی طرف سے تیار کیا جانے والا ابتدائی مسودہ ہے کیونکہ کمیشن کے ارکان کی طرف سے الگ الگ مسودے تیار کیے گئے تھے جنھیں یکجا کرنا تھا اور الجزیرہ ٹی وی کی رپورٹ کسی ایک رکن کا مسودہ ہے، حتمی نہیں ہے۔ بہرحال یہ بحث تو ابھی چلے گی اور تحقیقات کے بعد ہی اصل حقیقت سامنے آئے گی تاہم حکومتی سطح پر ایبٹ آباد کمیشن کی حتمی رپورٹ منظر عام پر لانے کے بارے میں غور کیا جا رہا ہے۔
ایبٹ آباد کمیشن کی افشا ہونے والی رپورٹ کے حوالے سے بے شمار سوالات اٹھائے جا رہے ہیں جن کا شافی جواب تلاش کرنا ضروری ہے۔ مبصرین اور تجزیہ نگاروں کی رائے کے مطابق مذکورہ رپورٹ کا بنیادی حاصل ہمارے انٹیلی جنس اور سیکیورٹی اداروں کی ناکامی نظر آتا ہے اور یہ ایسی زمینی حقیقت ہے جس سے صرف نظر نہیں کیا جا سکتا کہ یہ ملک کی سلامتی اور دفاع کا معاملہ ہے، کمشین نے کم و بیش 30 سے زائد اہم سفارشات کی ہیں جن کا تعلق فوج، انٹیلی جنس ایجنسیوں، حکومت، سیاستدانوں اور قومی سلامتی پالیسی سے متعلق ہے، لیکن اہم سوال یہ اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا ان سفارشات پر ان کی روح کے مطابق عمل درآمد ممکن ہے؟ کیا قومی سلامتی اور دفاع وطن کے حوالے سے پالیسی سازی میں سیکیورٹی سے متعلق جملہ قومی اداروں کے کردار کو محدود یا یکسر ختم کیا جا سکتا ہے؟
کیا گزشتہ 60 سالوں کے تجربات کی روشنی میں یہ کہنا درست ہو گا کہ آج ہمارے ارباب سیاست ذہنی و جمہوری لحاظ سے اس قدر باشعور، پختہ کار اور با اختیار ہو چکے ہیں کہ وہ طاقت کے ''اصل مراکز'' سے اپنی بات منوا سکیں؟ بظاہر ایسے بہت سے پیچدہ اور گنجلک سوالات کا تسلی بخش جواب تلاش کرنا آسان نہیں لیکن یہ از حد ضروری ہے کہ بدلتے ہوئے حالات کے تقاضوں کو سمجھا جائے۔ آئین میں تمام قومی اداروں کے دائرہ کار کا واضح طور پر تعین کر دیا گیا ہے۔ کہنے کو تو ہمارے ''اکابرین'' بڑے دھڑلے سے یہ کہتے رہے ہیں کہ آئین کا احترام سب پر لازم ہے اور ہر ادارے کو آئینی حدود کے اندر متعین دائرہ کار کے مطابق اپنے فرائض ادا کرنے چاہئیں لیکن افسوس کہ عملاً ایسا ہوتا نظر نہیں آتا۔ دستور کے ساتھ آنکھ مچولی کھیلنا ''قومی مفاد'' کا تقاضہ قرار دیا جاتا رہا ہے جس کا خمیازہ پوری قوم کو بھگتنا پڑتا ہے ہے اور پھر سقوط بنگال اور ایبٹ آباد جیسے افسوس ناک واقعات عالمی سطح پر ہماری جگ ہنسائی، رسوائی اور بدنامی کا باعث بنتے ہیں اور جب ایسے سانحات پر کہیں کوئی پشیمانی، ندامت اور شرمندگی کا احساس بھی نہ ہو تو یہ قومی المیہ بلکہ سانحے سے بڑا سانحہ ہے۔
کیا یہ حیرت اور افسوس کی بات نہیں کہ دنیا کا انتہائی مطلوب ترین شخص اسامہ بن لادن اپنے اہل و عیال کے ہمراہ پاکستان میں داخل ہو گیا اور تقریباً ایک عشرے تک سکونت بدلتا رہا پھر ایبٹ آباد میں ہی فصیل نما کمپاؤنڈ میں مقیم ہو گیا وہ اور اس کے اہل خانہ ضروریات زندگی کی تمام سہولتوں سے مستفید بھی ہوتے رہے لیکن کسی سکیورٹی یا انٹیلی جنس ادارے نے فصیل نما اس کمپاؤنڈ کے ''رازوں'' کو جاننے کی شعوری کوشش نہیں کی۔ اسامہ اور اس کی ''سرگرمیوں'' کی کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی، کیا یہ محض ہمارے انٹیلی جنس اداروں کی نااہلی، غفلت اور لاپرواہی کا نتیجہ تھا؟ یا اس کے اصل محرکات کچھ اور تھے۔ قوم جاننا چاہتی ہے کہ حقیقت کیا ہے اور فسانہ کیا ہے۔ بات یہیں ختم نہیں ہو جاتی بلکہ 2 مئی 2011ء کی رات کے اندھیروں میں ملک کی سلامتی اور خود مختاری کے ساتھ اوباما انتظامیہ نے جو سنگین مذاق کیا اور اس پہ مستزاد دفاع وطن کے ذمے داروں نے جو طرز عمل اختیار کیا وہ اپنے پیچھے بہت سے تشنہ سوالات چھوڑ گیا ہے۔ نہیں معلوم کہ ''اصل رپورٹ اور حقائق'' کبھی منظر عام پر آ سکیں گے یا نہیں؟