پاکستان کی انحطاط پذیر معیشت
ان تمام شرائط میں کوئی بھی ایسی شرط نہیں ہے جو پاکستان کے عوام کے مفاد میں ہو۔
لاہور:
سیاست، معیشت کی مجتمع ہوتی ہے۔ کسی بھی ملک کی معیشت اگر انحطاط پذیری کا شکار ہے تو اس کے اثرات یقینی طور پر سیاست، معاشرت، اخلاق اور ثقافت پر بھی پڑیں گے۔ حالیہ قائم ہونے والی حکومت ایٹم بم بنانے کے اخراجات اب معاشی بم کے طور پر عوام کے سروں پر دھڑادھڑ گرا رہی ہے۔ ہیرو شیما پر گرایا جانے والا بم ایک پٹاخہ تھا مگر آج کے معاشی بموں سے روزانہ بھوک، افلاس، مہنگائی اور بیروزگاری سے ہزاروں افراد مر رہے ہیں، ان میں صرف 1132 بچے روز اپنی پہلی سالگرہ منائے بغیر مر جاتے ہیں۔ پہلے تو آئی ایم ایف عوام پر لگوائے جانے والے ٹیکسوں کو آف دی ریکارڈ رکھتی تھی مگر اب صرف آن دی ریکارڈ ہی نہیں بلکہ اس پر عمل درآمد کرنے کے لیے ڈیڈ لائن بھی دیتی ہے ورنہ قرضے روک لیے جاتے ہیں۔ اور یہ کتنے بے بس حکمران ہیں جو اس ذلت آمیز قرضوں اور سود کو فخریہ قبول کرتے ہیں۔
ان قرضوں کی وجہ سے عوام پر پڑنے والی مہنگائی کے بموں کے خلاف جنوبی افریقہ، برازیل، ترکی، مصر، پرتگال، چلی، انڈونیشیا اور ایران میں عوام کی جانب سے زبردست ردعمل کا سلسل جاری ہے ۔ ابھی حال ہی میں نواز حکومت نے 5.3 بلین ڈالر کا قرضہ آئی ایم ایف سے لیا اور یہ اعلان کیا کہ ہم اپنی شرائط پر لے رہے ہیں۔ اب ان شرائط کا جائزہ لیتے ہیں۔ صوبائی حکومتیں ستمبر 2013ء سے قبل زرعی آمدنی پر ٹیکس عائد کریں گی جب کہ وفاقی حکومت ٹیکس میں چھوٹ و استثنیٰ دینے والے تمام ایس آر او منسوخ کرے گی، ویلیو ایڈڈ ٹیکس کو نئے نام سے نافذ کرے گی۔ بجلی کے نرخوں میں اضافہ اور نجکاری پروگرام کا آغاز کرے گی۔ 2013ء ستمبر تک خدمات کے شعبے پر 17 فیصد سیلز ٹیکس عائد کرنا ہو گا۔ زرعی آمدنی پر بھی ٹیکس عائد کرنا ہو گا۔ اگر ستمبر 2013ء تک مندرجہ بالا شرائط پر عمل نہیں ہوا تو قرض نہیں ملے گا۔
ان تمام شرائط میں کوئی بھی ایسی شرط نہیں ہے جو پاکستان کے عوام کے مفاد میں ہو۔ ساری شرائط صرف اور صرف سامراجی مفادات کے تابع ہیں۔ زراعت پر ٹیکس لگانے کی زمین کے حدود اربع پر کوئی شرط نہیں ہے۔ یعنی ایک لاکھ ایکڑ زمین رکھنے والا ہو یا ایک ایکڑ سب پر پیداواری آمدنی کا ٹیکس لگانا ہو گا۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں ہزاروں اور لاکھوں ایکڑ زمین رکھنے والوں کی تعداد چند سو یا ہزار ہو گی جب کہ ایک ایکڑ سے 100 ایکڑ زمین رکھنے والوں کی تعداد کم از کم 70 فی صد سے زیادہ لوگوں کی ہو گی۔ اب جن کے پاس کم زمین ہے ان کا بمشکل گزارہ ہوتا ہے اور بے شمار مسائل کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے جب کہ ہزاروں لاکھوں ایکڑ زمین رکھنے والوں کے کھیت میں لاکھوں کھیت مزدور کام پر مامور ہوتے ہیں بلکہ یوں کہنا غلط نہ ہو گا کہ وہ زرعی غلام ہوتے ہیں۔ پھر زراعت کا پیداواری آمدنی ٹیکس سب پر یکساں عائد کرنا غریب عوام اور شہریوں کا استحصال ہے۔
اسی طرح بجلی کے نرخوں میں اضافہ بھی شہریوں اور عوام کا خون نچوڑ کر سرمایہ داروں کے حوالے کرنا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ سرمایہ داروں کے لیے بجلی فی یونٹ 100 روپے اور غریب شہریوں اور کارکنوں کے لیے 1 روپیہ فی یونٹ ہونا چاہیے۔ آئی ایم ایف نے نجکاری کے لیے تیز تر عمل درآمد کرنے کی شرط رکھی ہے۔ اس سے قبل جن اداروں کی نجکاری ہوئی تھی جیسا کہ تیل، گھی، سیمنٹ، کھاد، چینی، پی ٹی سی ایل اور کے ای ایس سی وغیرہ میں تو ہزاروں مزدور بے روزگار ہوئے اور پیداواری اجناس اور توانائی میں (نرخوںکا) اضافہ ہوا۔ اور یہ عمل برازیل، لیبیا، شام، انڈونیشیا، مصر، تیونس، ترکی اور ایران وغیرہ جہاں بھی ہوا ہے اس کے منفی نتائج برآمد ہوئے ہیں اور عوام نجکاری کے خلاف سراپا احتجاج بنے ہیں۔ جہاں تک خدمات کے شعبے میں 17 فی صد ٹیکس عائد کیا ہے جس کے نتیجے میں تقریباً ہر اشیاء خورد و نوش کی قیمتوں میں اضافہ کر کے عوام کا جینا دوبھر کر دیا ہے۔ یہ ہیں ٹیکسوں کے لاگو کرنے، نجکاری اور سبسڈیز واپس لینے اور خدمات کے شعبوں پر جی ایس ٹی عائد کرنے کے نتائج۔
نواز حکومت آئی ایم ایف کے احکامات کو عوام پر ٹیکسوں اور نجکاری کے بم برسانے کے بعد چین پہنچ گئی۔ کہا جا رہا ہے کہ چین سے ہماری دوستی پہاڑوں سے اونچی اور شہد سے بھی زیادہ میٹھی ہے۔ بات دراصل یہ ہے کہ اب یہ چین وہ چین نہیں رہا۔ یہ ماؤژے تنگ، چو این لائی اور لیو شاؤچی کا عوامی چین نہیں ہے، یہ چین ڈنگ شیاؤپنگ، ژینگ جیانگ اور لی کی چیانگ کا چین ہے۔ جس کی کمیونسٹ پارٹی کے 16 پولیٹ بیورو کے ارکان میں سے 12 ارب پتی ہیں، یہاں 55 ارب پتی اور 25 کروڑ بیروزگار فٹ پاتھوں پر مارے مارے پھر رہے ہیں۔ یہاں ملٹی نیشنل کمپنیوں کی جانب سے شاپنگ مالز بنانے کے لیے زمینیں خریدی جا رہی ہیں اور اس کے رد عمل میں صرف 2012ء میں چینی کسانوں نے سوا لاکھ مظاہرے کیے۔ جاپان، کوریا، امریکا اور چین کی مقامی سرمایہ دار کمپنیوں، ملوں اور کارخانوں کے مالکان کے خلاف سیکڑوں مظاہرے ہوئے جن میں کچھ کے مطالبات مزدور منوانے میں کامیاب بھی ہوئے۔
چین سے اس وقت دنیا کے 752 فی صد گارمنٹ مصنوعات امریکا کو برآمد کرنے کی وجہ سے تھائی لینڈ، کمبوڈیا، بنگلہ دیش، پاکستان، ہندوستان سمیت کروڑوں مزدور بے روزگار ہو گئے ہیں اور امریکا کی تقریباً 400 گارمنٹ فیکٹریاں بند ہونے کی وجہ سے وہاں کے مزدور بھی بے روزگار ہو گئے ہیں جب کہ چین کے گارمنٹ مزدوروں کو انتہائی کم اجرتیں دی جا رہی ہیں۔ یہ ہے سرمایہ داری کی ہیرا پھیری جس میں ہر صورت میں محنت کشوں کا ہی نقصان ہوتا ہے۔ چین کے اس وقت 30 فیصد علاقے میں تیزابی بارش ہوتی ہے۔ اس لیے کہ چین میں بیشتر توانائی کوئلے سے حاصل کی جاتی ہے جس کے نتیجے میں آسمان کاربن سے بھر جاتا ہے جو کہ صحت کے لیے بہت مضر ہے۔ توانائی حاصل کرنے کا محفوظ اور آسان طریقہ شمسی، ہواؤں اور سمندری لہروں سے توانائی کے حصول میں ہے۔ چین کے ساتھ پاکستان کے جن امور پر معاہدے ہوئے ہیں ان میں ایک بھی معاہدہ ایسا نہیں کہ جس سے گندم کی پیداوار کو یا خوردنی تیل کے بیج کے پیداوار کو یا چینی سستی کرنے کی کسی ترکیب پر معاہدہ ہوا ہو۔
کوئی بھی ایسا معاہدہ نہیں ہوا جس کے ذریعے پاکستان میں کارخانے، ملیں، فیکٹریاں، خاص کر کیمیکل، الیکٹرونیکل اور میٹالوجیکل انڈسٹریز قائم ہوں، جس کے ذریعے محنت کشوں کو روزگار ملے۔ جو بھی معاہدے ہوئے ہیں وہ ہیں موٹروے، سڑکیں بنانا، سرنگیں بنانا، کمیونیکیشن، صنعتی پارکوں، ڈیجیٹل ٹی وی، ملٹی میڈیا، براڈ کاسٹنگ، کنفیوشس انسٹیٹیوٹ اور ڈیفنس ٹیکنالوجی کے شعبوں میں۔ ان سب کی بھی ضرورت ہے لیکن اس سے پہلے صاف پانی، نکاسی آب، صحت و تعلیم کی ضرورت ہے۔ یہ تو ایسا ہی ہوا کہ کسی نے 3 ماہ سے غسل نہیں کیا اور میک اپ کیے جا رہے ہیں۔ مشرقی ترکستان، تائیوان اور تبت کی آزادی کے خلاف پاک چین معاہدے ہوئے ہیں۔ ان معاہدات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ چینی سامراج کی پاکستانی عوام کی بھلائی، بھوک، افلاس اور غربت پر کوئی توجہ نہیں۔ اس کی توجہ ہے ایسی سرنگیں، سڑکیں، راہ داریاں، کمیونیکیشن کو مستحکم کرنے پر جس کے ذریعے پاکستان سے سونا، تانبا، لیتھیم، سلفر اور بے شمار معدنیات کی لوٹ مار کی جائے اور پاکستان کو اسلحہ بیچا جائے اس وقت پاکستان اپنے خریدے جانے والے کل اسلحے کا 42 فیصد چین سے اور 36 فیصد امریکا سے خریدتا ہے۔
ہمارے حکمران کو ان معاہدات سے کمیشن، عیش و عشرت اور من پسند ٹھیکیداروں کو ٹھیکہ دینا مقصود ہے۔ پاکستان میں اس وقت 80 فیصد لوگ صاف پانی سے محروم ہیں اور 80 فیصد ہی لوگ لیٹرین ، نکاسی آب ، روزگار ، رہائش اور علاج سے محروم ہیں۔ چین نے پاکستان میں سمندر کا پانی صاف کر کے پینے کے قابل بنانے، ہر گھر میں لیٹرین اور نکاسی آب، کارخانے لگوا کر روزگار فراہم کروانے، اسپتال قائم کر کے مفت علاج کروانے، پانچویں تک مفت اور جبری تعلیم کے لیے اسکول قائم کر کے دینے، کوڑے کو ری سائیکلنگ کرنے کا کوئی معاہدہ نہیں کیا۔ یہ سارے معاہدے چینی سامراج نے پاکستان کے حکمرانوں سے دو طرفہ سرمایہ دارانہ مفادات کے لیے کیے ہیں۔ اس سے پاکستانی عوام کو اور نہ بلوچ عوام کو کوئی فائدہ ہو گا۔ مزید مہنگائی، افلاس، بیروزگاری اور جبر میں اضافہ ہو گا، پاکستان اور چین کے عوام اس جبر کے خلاف کل اٹھ کھڑے ہوں گے اور امداد باہمی کا ایسا معاشرہ قائم کریں گے جہاں ساری دولت کے مالک سارے لوگ ہوں گے۔
دلالت کرتا ہے۔ ترجیحات دین کا معاملہ دراصل ایسی ترجیحات سے بحث کرتا ہے جن کا شریعت نے زندگی کے مختلف امور کے بارے میں تعین کیا ہے اور ان کی پشت پر قومی دلائل موجود ہیں ممکن ہے کہ اسلامی فکر کی درستی، طریق کار کے تعین اور اس مسئلے کے حل کے لیے بنیاد فراہم کرنے میں یہ گزارشات کوئی کردار ادا کر سکیں۔ جو لوگ اسلامی دعوت کے میدان میں کام کرتے ہیں ممکن ہے ان کے لیے اس میں کوئی رہنمائی کا سامان فراہم ہو اور ان کے دلوں میں یہ معلوم کرنے کا شوق پیدا ہو کہ کس چیز کو شریعت نے مقدم رکھا ہے اور کسے موخر کیا ہے، کس چیز کے بارے میں اس نے سختی سے اختیار کی ہے اور کس کے بارے میں نرمی سے کام لیا ہے، کون سا معاملہ ہے جسے شریعت نے اہم قرار دیا ہے اور کون سا ایسا ہے جسے زیادہ اہمیت نہیں دی گئی، امید ہے کہ اسلام کی حقیقی معرفت اور ترجیحات دین کا فہم، شعور و آگہی سے افراط کا راستہ اختیار کرنے والوں کے افراط اور دوسری طرف تفریط کرنے والوں کی تفریط میں کمی واقع ہو گی اور دین کے لیے برسر پیکار افراد کے درمیان نقطہ نظر اور طریق کار میں پیدا ہونے والے اختلافات بھی کم ہوں گے۔