کے پی کے نجی اسکول مالکان کو سرکاری زمین اور بچوں کی فیسیں حکومت کیطرف سے دینے کی تجویز

صوبے میں رواں برس تعلیمی اخراجات کی رقم بڑھ کر ایک کھرب 40 ارب روپے تک جا پہنچی ہے، رپورٹ


محمد ہارون/ January 22, 2019
اس وقت ایک بچے پر حکومت کا ماہانہ 3000 ہزار ہے، رپورٹ ۔ فوٹو : فائل

محکمہ تعلیم خیبرپختون خوا نے مستقبل میں نجی اسکولز مالکان کو سرکاری زمین لیز پر دینے اور ان میں بچوں کی فیسیں اور دیگر ضروریات حکومتی سطح پر ادا کرنے کی تجاویز صوبائی حکومت کو ارسال کر دی ہیں۔

ایکسپریس نیوزکے مطابق خیبر پختوں خوا کے 27 ہزار 730 سرکاری اسکولوں میں زیر تعلیم 43 لاکھ 80 ہزار 616 طلبہ طالبات کے تعلیمی اخراجات ایک کھرب 40 ارب تک جا پہنچنے اور تعلیمی معیار روبہ زوال ہونے پر ایک اہم ڈیپارٹمنٹ نے مستقبل میں نجی اسکولز مالکان کو سرکاری زمین لیز پر دینے اور ان میں بچوں کی فیسیں اور دیگر ضروریات حکومتی سطح پر ادا کرنے کی تجاویز صوبائی حکومت کو ارسال کر دی ہیں۔

تجاویز میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ اس وقت ایک بچے پر حکومت کا ماہانہ 3000 ہزار ہے، اگر اچھے نجی اسکولز مالکان کو زمین لیز پر دینے اور ان میں داخل ہونے والے بچوں کے تمام اخراجات حکومت کی سطح پر ادا کے جائیں تو اس سے سرکاری اسکولوں میں معیار تعلیم میں بہتری آئے گی۔

رپورٹ کے مطابق پشاور سمیت خیبر پختوں خوا میں پرائمری اسکولوں میں زیرِ تعلیم بچوں کی تعداد 31 لاکھ 16 ہزار 319، ، مڈل اسکولوں میں 8 لاکھ 13 ہزار 898، ہائی اسکولوں میں 3 لاکھ 72 ہزار 349 اور ہائر سیکنڈری اسکولوں میں طلبہ طالبات کی تعداد 78 ہزار 50 ہے، جس کے لئے صوبے میں اساتذہ کی تعداد 1 لاکھ 62 ہزار 553 اور دیگر منسٹریل اسٹاف کی تعداد 78 ہزار ہے۔

صوبائی حکومت ہرسال تنخواہوں اور دیگر اخراجات کی مد میں ان اساتذہ و ملازمین کو کھربوں روپے کی ادائیگی کرتی ہے، 3 برس قبل یہ اخراجات ایک کھرب 10 ارب تھے جو 2018 میں ایک کھرب 20 ارب روپے ہوگئے اور رواں برس یہ رقم بڑھ کر ایک کھرب 40 ارب روپے تک جا پہنچی ہے۔

اساتذہ کو بہترین تنخواہیں اور دیگر مراعات سمیت کھربوں روپے کے اخراجات کے باوجود ہر سال میٹرک کے امتحانات میں 8 تعلیمی بورڈز میں سے کسی بھی سرکاری اسکول کے بچے ٹاپ ٹوینٹی میں بھی پوزیشن نہیں بنا پاتے ہیں مایوس کن کارکردگی اور ہر سال صوبائی حکومت کے تعلیمی سیکٹر میں اخراجات میں مسلسل اضافے کو مد نظر رکھ کر تجویز پیش کی گئی ہے۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں