وزیر اعظم اور اُن کو دی گئی مہلت

پاکستان میں اقتدار ہمیشہ کسی کی مرضی و منشاء کا تابع رہا ہے۔


Dr Mansoor Norani January 23, 2019
[email protected]

مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کا عمرانی حکومت کے خلاف اچانک شیر وشکر ہوجانا یا اتحاد و یکجہتی کا مظاہرہ کرنا، کسی مکمل اور پائیدار اتحاد اور سمجھوتے کی نشاندہی نہیں کرتا۔

اُن دونوں جماعتوں کے درمیان اُصولوں اور نظریات کی ایک بہت بڑی خلیج حائل ہے۔ وہ ہمیشہ سے ایک دوسرے کے خلاف الیکشن لڑتے آئے ہیں۔ دونوں کے انداز فکر، طرزعمل اور معاملات کو سمجھنے میں بہت بڑا فرق ہمیشہ ہی سے واضح اور نمایاں رہا ہے۔ وہ آ ج اگر عمران خان کی حکومت کے خلاف اچانک متحد ہوگئے ہیں تو ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ سب کچھ وقتی اور عارضی ہے۔

حکومتی حلقوں کی جانب سے اِس پر حیران اور پریشان ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہونی چاہیے۔ یہ بالکل اُسی طرح ہے جیسے میاں نواز شریف حکومت کے خلاف پاکستان پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی پاناما کیس کے موقعے پر شدید اختلافات اورتحفظات کے باوجودمتحد ہوگئے تھے۔

جمہوریت میں جہاں ہمیں کئی اور خوبیاں دکھائی دیتی ہیں وہاں یہ ایک خوبصورتی بھی جمہوریت کا خاصہ رہی ہے کہ ایک دوسرے کے کٹر مخالف اور دشمن کب آپس میں ایک دوسرے کے لیے دوست اور مہرباں بن جائیں اور انتہائی قریبی دوست اچانک دشمن بن کر دست وگریباں ہوجائیں ہرگز حیرانی اور اچھنبے کی بات نہیں ہے۔ اِس لیے حکومتی اکابرین کی جانب سے یہ کہنا کہ کرپٹ اور ملک لوٹنے والے اپنے آپ کو بچانے کے لیے ایک ہوگئے ہیں حقائق کے ساتھ کچھ زیادہ میل نہیں کھاتا۔

حکومت وقت کے خلاف ہمیشہ ہی سے ایسے اتحاد بنتے آئے ہیں۔ آج اگر پی ٹی آئی کی جگہ پیپلز پارٹی برسراقتدار ہوتی تو مسلم لیگ نون اور پی ٹی آئی والے بھی اپنے تمام اختلافات بھلا کر ایک دوسرے کے ساتھ ایسے ہی ہم نوالا اور ہم رکاب بن ہوچکے ہوتے۔ اِس لیے یہ کہنا کہ اپوزیشن کا موجودہ اتحاد کرپشن کے الزامات سے بچنے کے لیے کوئی مک مکا ہے ہرگز درست بات نہیں ہے۔ ویسے بھی پاکستان کی سیاسی تاریخ اِس بات کی گواہ ہے کہ یہاں آج تک بلا تفریق و امتیاز صاف اور شفاف احتساب کبھی ہو ہی نہیں پایا ہے۔

احتساب کے نام پر جب بھی یہاںکوئی حساب کتاب کیا گیا اُس میں صرف چند ناپسندیدہ مخصوص لوگوں ہی کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ احتساب کے نام پر بننے والی یہ بیل کبھی منڈھے چڑھ ہی نہیں پائی ۔ ہم آج بھی یہی کچھ دیکھ رہے ہیں ۔ یہاں جو شخص پی ٹی آئی کی چھت کے تلے پناہ میں آجائے اُس کا کوئی بال بیکا بھی نہیں کرسکتا ،چاہے اُس نے ماضی میں کتنی ہی بڑی کرپشن کی ہو ۔ اپنی پسند کے چہروں کا نقشہ جمانا اور ناپسند اور غیر مطلوب لوگوں کا راستہ مسدود کرنا ہمیشہ ہی سے مقصد رہا ہے۔کرپشن کا خاتمہ کسی احتساب کا مطمح نظر نہیں رہا ہے۔ بیس پچیس سال سے ہم یہی تماشہ دیکھتے آئے ہیں ۔احتسابی عمل کی اِسی خرابی نے یہاں کبھی کسی احتساب کو کامیابی سے ہمکنار ہونے نہیں دیا۔

پاناما لیکس سے شروع کیا جانے والا احتساب آج دو سال گزرنے کے بعد بھی کرپشن کا ایک پیسہ بھی واپس نہیں لاسکا ہے۔480 ملزمان میں سے صرف ایک شخص میاں نواز شریف کو بظاہر جزا و سزا سے عمل سے گزار کر جیل کی سلاخوں کے پیچھے بند کرکے اپنی انا کی تسکین کا سامان تو ضرور پیدا کرلیا گیا لیکن اُس شخص پر ایک پیسے کی کرپشن کا کوئی الزام ابھی تک ثابت نہیں کیا جاسکا۔ ہیروں جیسے منفرد قابل اشخاص پر مشتمل جے آئی ٹی کی جانب سے کی گئی تحقیقات کے نتیجے میں مرتب کردہ دس جلدوں کے صفحات میں کیا کچھ سامنے آیا یہ ابھی تک کسی کو بتایا نہیں گیا۔

میاں صاحب کو سزا بھی سنائی گئی توکرپشن کے کسی الزام کے تحت نہیں بلکہ دبئی میں قائم کسی فرم کا اقامہ رکھنے پر ۔ یہی وجہ ہے کہ اِس کمزور فیصلے کی وجہ سے وہ ایون فیلڈ معاملے میںنیب عدالت کے ایک دوسرے فیصلے میں مکمل بے قصور قرار دیے جاچکے ہیں۔ انھیں اب عزیزیہ ملزکے کیس میں سات سال قید کی سزا تو سنادی گئی ہے لیکن لگتا ہے اُس فیصلے کا انجام بھی پہلے والے فیصلے سے کچھ مختلف نہیں ہوگا۔

احتساب کے اِس سارے گورکھ دھندے کو دیکھ کر یہ اندازہ کرنا کوئی مشکل نہیں معلوم ہوتا کہ میاں صاحب کو کرپشن یا مالی بدعنوانی کی وجہ سے محروم اقتدار نہیں کیا گیا تھا بلکہ پس پردہ کوئی اور انجانی پرخاش اور ضد تھی جس کی وجہ سے انھیں سبق سکھانے کا فیصلہ کیا گیا ۔ یہ پرخاش اور دشمنی اندرونِ خانہ ہونے والے کن واقعات کے سبب بڑھتی چلی گئی یہ کچھ کچھ ہم سب لوگ بھی اچھی طرح جانتے ہیں، مگر زباں بندی کے اِس دور میں ہم یہ بات اپنی زبانوں پر لا نہیں سکتے۔اداروں کا احترام اور توہین عدالت کا خوف ہمیں ایساکرنے سے روکے ہوئے ہے۔

میاں صاحب خود آج جیل کے سلاخوں کے پیچھے ہوتے ہوئے بھی کچھ کہہ نہیں پا رہے اورکئی مہینوں سے ایک پراسرار خاموشی اختیارکیے ہوئے ہیں تو ہم جیسے کمزور اور بے بس تجزیہ نگار بھلاکس کھیت کی مولی ہیں۔ ہمت اور دلیر ی تو آصف علی زرداری ہی دکھا سکتے ہیں۔ وہ بہت کچھ کہہ کر بھی ابھی تک کسی سزا سے توکجا گرفتاری سے بھی بچے ہوئے ہیں۔

انھیں اچھی طرح پتہ ہے کہ جب ایان علی اورڈاکٹر عاصم حسین کا یہ لوگ کچھ بگاڑ نہیں سکے تو بھلا حسین لوائی اور انور مجید کا کیا بگاڑ لیں گے۔ جعلی اکاؤنٹس کی ساری کہانی بھی اصل مالکوں کا سراغ نہ لگنے کے سبب از خود ختم ہوجائے گی۔ آصف علی زرداری پر پہلے بھی بہت مقدمات بنائے گئے اور انھیں دس گیارہ سال جیلوں میں بھی رکھا گیا مگر دیکھنے والوں نے اپنی گناہ گار آنکھوں سے یہ بھی دیکھا کہ اُسی آصف علی زرداری کو سیدھا جیل سے نکال کر ایوان صدر بھی لایا جاتا رہا اور وہ کرپشن کے بے شمار الزامات کے باوجود نہ صرف کابینہ کے وزیرکے حیثیت سے اپنے فرائض منصبی سر انجام دیتے رہے بلکہ استثنائی لوازمات اور تاحیات مراعات سے مزین اِس مملکت خدادادِ پاکستان کے سب سے بڑے عہدے کی نعمتوں اور فضیلتوں سے لطف اندوز بھی ہوتے رہے۔ وہ آج بھی پر اعتماد اور مطمئن ہیں۔ اُن کا انداز بیان اور طرز تکلم بتا رہا ہے کہ احتساب کے نام پر کوئی اُن کاکچھ بگاڑ نہیں سکتا، وہ سب کی کمزوریاں کو اچھی طرح جانتے ہیں۔

اُن جیسا کوئی اور شاطر اور ہشیار سیاستداں ابھی تک پیدا نہیں ہوا۔ وہ بیک وقت بہت سی خوبیوں کے واحد مالک و مختار ہیں۔عمران خان ابھی سیاست میں نئے نئے وارد ہوئے ہیں۔ 22 سال سے اگر انھوں نے جدوجہد کی تو وہ ایک ناکام اور نامراد سیاستداں کے طور پر کی تھی ۔ نادیدہ قوتوں کی طرف سے جب تک کوئی غیبی امداد اور مدد حاصل نہ ہوئی وہ عوامی پذیرائی کے محض خواب ہی دیکھتے رہے اور انتخابات میںصرف ایک دو سیٹ ہی حاصل کرتے رہے۔ یہ تو 2011ء کے بعد سے کسی انجانی قوت نے اُن کاہاتھ تھاما تو وہ اِس قابل ہوئے کہ آج اِس ملک کے وزیراعظم بن پائے۔ ورنہ بہت ممکن تھا کہ 2018ء کا الیکشن اُن کاآخری الیکشن ہوتا اوراُس کے بعد وہ ناکامیوں اورگمنامیوں کے اندھیروں میں کہیں کھو جاتے اورتاریخ انھیں آج ایک ناکام سیاستداں کے نام سے یاد کر رہی ہوتی۔

پاکستان میں اقتدار ہمیشہ کسی کی مرضی و منشاء کا تابع رہا ہے۔ جب تک خان صاحب اُن قوتوں کی اطاعت و فرمانبرداری کرتے رہیں گے وہ برسراقتدار رہیں گے خواہ اس کے لیے اُن کے پاس پارلیمنٹ میں عددی اکثریت محض دو چار نشستوں ہی مشتمل کیوں نہ ہو۔ انھیں جس مخصوص ایجنڈے پر عمل کرنے کے لیے وزیراعظم بنایا گیا ہے انھیں وہ بہرحال پورا کرنا ہوگا۔اِس کام کے لیے اُن کے پاس مہلت بھی بہت تھوڑی ہے ، وہ اگر اِس مدت میں یہ کام نہ کرسکے تو یہ مہلت بہت جلد ختم بھی ہوسکتی ہے۔خان صاحب جتنی جلدی اقتدار و اختیارکے یہ پیچ وخم سمجھ لیں اُن کے لیے اتنا ہی مفید اور سود مند ہوگا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں