قلم اور رقاصہ
شہر گندگی کا ڈھیر ہیں، سڑکوں پر غلاظت ہے اور دفتروں میں رشوت کی گندگی جیبوں میں بھری ہے۔
موجودہ حکومت کو جو نہیں کہنا تھا وہ کہا اور جو نہیں کرنا تھا وہ کیا ۔ سو دن کا اعلان بچگانہ تھا مگر کرکے خوامخواہ ہدف تنقید بنے، نو مسلم شاہ سے لے کر حمزہ تک سب کو مذاق کا موقع ملا اور سو دن میں ایک سال کا کام کرنا پڑا، داخلی، خارجی اور معاشی محاذوں پر سخت محنت کرنی پڑی اور کامیاب ہونا پڑا وننگ پوائنٹ سو دن تھا جو جیتنا پڑا اور کم فہم سیاستدان بشریٰ بی بی کا طعنہ دیتے رہے۔ایڈ نہیں ٹریڈ کا جھوٹ بول کر ایڈ لینے والوں کے برعکس اسے سچا کر دکھایا ۔
ایک ویڈیو ان صاحب کی ، ہم نے یوٹیوب پر دیکھی تھی جس میں ایک اسٹیج کے کنارے جو شاید دو فٹ اونچا ہوگا یہ صاحب زمین پر بیٹھے تھے اور اسٹیج پر ایک فنکارہ گا رہی تھیں اور شاید کچھ رقص کا سا انداز تھا تو ہم نے اس وقت بھی سوچا تھا کہ جس معاشرے میں قلم رقاصہ کے قدموں میں آجائے وہ معاشرہ کیا بچے گا۔
مگر پھر ایک قلم کو اور بھی فروخت ہوتے دیکھا جو سابق وزیر اعظم کی تقاریر اور سلوگن لکھا کرتا تھا اور معاوضے میں خاندان کے افراد کو بھی اعلیٰ ملازمتیں دلوائیں ذاتی فائدے کے لیے، اس قلم کے بک جانے کا بہت افسوس بھی ہوا تھا کیونکہ یہ ایک قیمتی اور قابل اعتبار قلم ہوا کرتا تھا۔ پہلا قلم تو بازار کا مال ہے جو ہر ٹھیلے پر دستیاب ہے۔ آخری الیکشن نے ثابت کردیا کہ اس سے پہلے 2013ء کا الیکشن کیا تھا کہ نتائج پورے ہونے سے پہلے تقریر نشر ہوگئی ۔
خیر یہ باتیں اب قارئین بہت اچھی طرح سمجھتے ہیں لوگ جان گئے ہیں۔ پانامہ نے ''جامہ'' اتار دیا ہے اور معاملات کی حقیقت واضح ہوچکی ہے۔ بداعمال اور ملک کو لوٹنے والے پریشان ہیں اور احتساب کا شکنجہ سخت سے سخت ہوتا جا رہا ہے۔ ملک کو لوٹنے والے ہر ایک ''پانامی'' کو سزا دینے کا مطالبہ کر رہے ہیں تاکہ سب کچھ الجھ جائے۔ دوسروں نے ملک نہیں لوٹا قانون کی خلاف ورزی کی ہوگی ان کی باری بعد میں!
''اک واری فیر'' کا ''فیئر ٹرائل'' ایسا ہوا ہے اور ہو رہا ہے کہ دنیا دیکھ رہی ہے۔ چیونٹی کی رفتار سے مقدمات چلے اور چل رہے ہیں۔ اس سے زیادہ وقت دنیا میں ایسے مقدمات کو نہیں ملا ہوگا۔ دنیا میں کسی مجرم کو یہ تمام چوائس اور مراعات نہیں ملی ہوں گی۔ مجرم کا ''چوائس'' سے کیا تعلق مگر پاکستان میں انصاف کا اعلیٰ معیار ہے مگر خاص لوگوں کے لیے یا جو خاص رہ چکے ہوں۔ زرداری اور دوسرے بھی اب یہ مطالبہ کرسکیں گے بلکہ اپنے اپنے آبائی شہروں میں جیل قائم کرنے کا مطالبہ کرسکیں گے۔ احتساب کے علاوہ سزا میں انصاف کا مطالبہ کسی طرح بھی غلط نہیں ہوگا اس میں جیل اور گھر کا کھانا شامل ہے۔
جیلیں کافی بنانا پڑیں گی کیونکہ مجرمان آیندہ یعنی "To be Punished" کی خاصی تعداد کا تعلق مختلف شہروں سے ہے لہٰذا ''جیل انڈسٹری'' کے ترقی کے کافی امکانات ہیں۔ حکومت کو احتیاطاً ہر شہر میں ''جیل'' قائم کردینی چاہیے۔
شہریوں کے لیے تو شہر جیل ہی ہیں۔ پلوشن، ٹریفک کے قوانین پر عدم عملدرآمد، رشوت ہر جگہ، ہرگام مسجد سے اذان کے دوران بھی اس میں وقفہ نہیں، ملاوٹ، چور بازاری، من مانے کرائے اور بدتمیزی ، جرائم، پانی کی کمی نالوں میں اور زیادتی سڑکوں پر، کپڑے الگ خراب ۔
پاکستان میں ایوب خان نے بنیادی جمہوریت کی بنیاد رکھی، پرویز مشرف نے ناظمین کا نظام قائم کیا۔ ایوب خان کے دور میں وہ بڑے بڑے منصوبے تکمیل پائے، جن سے ملک نے ترقی کی۔ منگلا ، تربیلا، اسٹیل مل، پاور ہاؤسز، دارالخلافے کی تبدیلی اور بہت کچھ ۔ پرویز مشرف کے دور میں ملک آئی ایم ایف کے پنجوں سے آزاد ہوا۔ نہ کرواتے وہ آزاد سب مال کھا جاتے۔ ایوب خان منگلا، تربیلا نہ بنواتا تو آج کیا حال ہوتا۔
سول اور نام نہاد جمہوری حکومتوں نے ملک لوٹا، قرضے ملک کے نام پر لے کر کھائے اور عوام کو مقروض ترین قوم بنادیا، مگرگالیاں پہلے ایوب خان اور اب پرویز مشرف کو دیتے ہیں کہ یہی سیاست کا تقاضہ ہے خود کو زندہ باد اور محب وطن کو مردہ باد، عوام سے پھر بھی ڈرتے ہیں تو کھلے عام قائد اعظم اور قائد ملت کو برا نہیں کہتے مگر خود کو ان سے بڑا لیڈر سمجھتے ہیں حالانکہ ان کے قدموں کی خاک بھی نہیں ہیں مگر مسلم لیگ جو اس وقت کی ضرورت تھی قائم کرکے اپنے اپنے نام کے لاحقے لگا رکھے ہیں۔
شہر گندگی کا ڈھیر ہیں، سڑکوں پر غلاظت ہے اور دفتروں میں رشوت کی گندگی جیبوں میں بھری ہے۔ پولیس ظالم کی طرف سے مظلوم پر مقدمہ کر رہی ہے ، وکیل مجرموں کو بے گناہ ثابت کرنے پر تلے ہیں ، محکموں میں سفارشی بھرتی ہیں نااہل کام چور، قومی ایئرلائن میں میٹرک پاس پائلٹ ہیں اورکوئی نہیں پوچھ رہا تھا ۔ اب پوچھ تاچھ ہو رہی ہے تو شور مچ رہا ہے ہر طرف ہا ہو ہے، ظالم انصاف مانگ رہے ہیں۔
موجودہ حکومت کو صحت و صفائی کے اداروں پر ہاتھ ڈالنے کی ضرورت ہے، ہوا کرے صوبائی حکومت کا کام نہ کرے تو پھر وفاقی حکومت پر ہی حرف آئے گا لہٰذا کوئی سمجھوتہ نہ کیا جائے، زائد اور نااہل فارغ کیے جائیں محکموں پر سے بوجھ ختم کیا جائے اور نظر رکھی جائے کہ وہ اپنا کام کریں ۔ میئر ہو یا ناظم یہ اس کی ذمے داری ہے کام نہ کرے تو بدل دیا جائے اور ہر ایک کو کام کا پابند کیا جائے۔
وفاق کی اسپیشل ٹاسک فورس موجودہ تمام محکموں کی نگرانی کرے چیک کرے اور بے قاعدگیوں کو روکے تب ہی صوبائی ادارے سیاست سے بالاتر ہوکر کام کریں گے ورنہ تمام منصوبے ''نندی پور'' کے ثابت ہوں گے جو اب ایک محاورہ ہے۔ نندی پور کو صرف سنگ بنیاد رکھنے اور افتتاح کرنے کو رکھا تھا سابق حکومت نے۔ خدا کے واسطے نلوں میں پانی فراہم کیجیے پورے پاکستان کو اور سڑکوں سے گندا پانی اور دوسری گندگیاں بشمول تجاوزات ختم کیجیے پورے پاکستان میں۔ اگلے سو دن کا اب یہ مشن رکھ لیجیے۔