بھارت کا شعبہ کانکنی اور انسانی حقوق
کان کنی کے حوالے سے بھارت دنیا کے خطرناک ترین ممالک میں سے ایک ہے۔
خطِ غربت سے کہیں نیچے زندگی گھسیٹنے والے بھارتی غیرانسانی ماحول میں روزی کمانے پر مجبور ہیں۔ خصوصاً بھارت کے شعبہ کان کنی میں مزدوروں کی حالت قابلِ رحم ہے۔ غیرقانونی کان کنی کے اعتبار سے بھارت کا نام پوری دنیا میں بد نام ہوچکا ہے۔ 2014ء میں یہاں پانچ ہزار غیرقانونی کانوں پر پابندی لگا دی گئی تھی مگر ریاستی حکومتوں کے لیے عدالتی احکامات سے زیادہ اہم مالی مفادات ٹھہرے، یوں وہ اس حکم نامے پر عمل کروانے میں ناکام ہوگئیں۔ بھارت کی ان غیرقانونی کانوں میں صرف بھارتی ہی نہیں بلکہ دیگر ممالک سے بھی بھاری پیسوں کا لالچ دے کر لوگوں کو لایا جاتا ہے۔
غربت کے ہاتھوں مجبور ان لوگوں کے لیے دو ہزار روپے روزانہ کی پیشکش کسی نعمت سے کم نہیں ہوتی، یوں یہ ایک مافیا کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔ یہ مزدور جو یہ سوچ کر آتے ہیں کہ کچھ دن پیسے کما کر واپس لوٹ جائیں گے اور ان پیسوں سے اپنے بچوں کی رُکی ہوئی ضرورتیں اچھی طرح پوری کریں گے، لیکن افسوس وہ اس غلامی کے چنگل سے کبھی نکل نہیں پاتے۔ ان کو نہ تو طے شدہ رقم ملتی ہے، نہ آزادی۔
تنخواہ کی آس ان کو مہینوں نہیں بلکہ سالوں اندھی کانوں میں انھیں جھونک کر رکھتی ہے، اس دوران وہ مختلف بیماریوں کا شکار ہوکر جان سے بھی چلے جاتے ہیں۔ ان کانوں سے معدنیات حاصل کرنے کے لییبڑے پیمانے پر بچوں سے بھی مشقت لی جاتی ہے۔ بنگلہ دیش اور نیپال سے جو مزدور یہاں لا کر فروخت کیے جاتے ہیں، ان میں بچوں اور عورتوں کی ایک بڑی تعداد شامل ہے۔
کان کنی کے حوالے سے بھارت دنیا کے خطرناک ترین ممالک میں سے ایک ہے۔ چوہے کے بلوں جیسے سوراخوں والی کانوں میں یہ محنت کش رینگتے ہوئے داخل ہوتے ہیں اور زمین سے بیس فٹ نیچے تک جا کر ''مائیکا'' حاصل کرتے ہیں۔ یوں تو بھارت کی زمین بے شمار معدنیات سے بھری ہے لیکن مائیکا وہ چمک دار دھات ہے جس کی دنیا میں تیزی سے بڑھتی طلب کا پچیس فی صد بھارت پورا کرتا ہے ۔ بہار اور جھاڑ کھنڈ ''مائیکا'' کی دولت سے مالا مال ریاستیں ہیں۔
مائیکا کا سب سے زیادہ استعمال میک اپ کی چمک بڑھانے،گاڑیوں کے پینٹ اور برقی آلات میں کیا جاتا ہے۔ 1890ء میں برطانوی دورِ حکومت میں یہاں مائیکا کے ذخائر بڑی تعداد میں دریافت ہوئے، جنھیں 1974ء میں بھارتی حکومت نے اپنی تحویل میں لے لیا تھا۔ اس وقت سوویت یونین مائیکا کے لیے بھارت کا سب سے بڑا خریدار تھا، جو اس معدن کو اسلحہ سازی میں استعمال کرتا تھا۔ سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد یہاں مائیکا کی کان کنی پر پابندی لگا دی گئی لیکن اس پابندی سے کوئی فرق نہ پڑا بلکہ بڑے پیمانے پر مائیکا کی غیرقانونی کان کنی شروع ہوگئی جس میں انسانی حقوق کی بد ترین خلاف ورزیاں دیکھنے میں آئیں۔
انڈیا میں اس وقت مائیکا کی ستر فی صد کانیں غیرقانونی طور پر کھودی جارہی ہیں۔ چمک دار مائیکا کی سب سے زیادہ طلب چین اور جاپان میں ہے جہاں اس وقت میک اپ اورگاڑیوں کی سب سے زیادہ صنعتیں موجود ہیں۔ بھارت کی مائیکا کانوں میں اس وقت بیس ہزار بچے غلاموں کی طرح کام کر رہے ہیں۔
سوئزرلینڈ کی ایک این جی او نے اپنی 2018ء کی ایک تحقیق میں یہ تعداد بائیس ہزار بتائی ہے۔ اکثر مزدور بچے دب کر یا سانپوں کے کاٹنے سے ہلاک ہو جاتے ہیں۔ بھارتی حکومت کے فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق یہاں ہر چھے دن میں ایک بچہ کان کنی کے دوران ہلاک ہوجاتا ہے، لیکن بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں کے خیال میں مرنے والے بچوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے جنھیں رپورٹ نہیں کیا جاتا ۔
بچوں کے ساتھ ساتھ بڑے بھی اس خطرناک کام میں اکثر اپنی جان سے جاتے ہیں۔ حال ہی میں کوئلے کی کان میں پندرہ مزدور پھنس کر جان سے گئے۔ کانوں میں کام کرنے والے محنت کشوں کی اموات معمول بن چکی ہیں اور ان کے لواحقین کو کوئی معاوضہ دینے کی زحمت بھی نہیں کی جاتی ۔ بھارت میں مائیکا اورکوئلے کے ذخائرکی کان کنی زیادہ ترغیرقانونی طریقوں سے کی جارہی ہے، یوں انسانی حقوق اور مزدوروں کی فلاح کے لیے بننے والے کسی قانون کا یہاں اطلاق نہیں ہوتا۔
بہار اور جھاڑکھنڈ بھارت کے دو انتہائی پس ماندہ اور غربت میں دھنسے ہوئے خطے ہونے کے ساتھ ساتھ ''مائیکا بیلٹ'' بھی ہیں۔ ان کے پاس مائیکا کی کان کنی کے علاوہ روزگار کے حصول کا کوئی دوسرا ذریعہ نہیں۔ زندگی کی بڑھتی ہوئی ضروریات سے نمٹنے کے لیے یہ لوگ بچوں کو بھی اپنے ساتھ کام پر لگا لیتے ہیں ۔ والدین کا یہ بھی کہنا ہے کہ بچوں کو گھروں میں اکیلا چھوڑنا ان کے لیے زیادہ غیرمحفوظ اور پریشان کن ہے۔
ان چھوٹے چھوٹے بچوں کے نازک ہاتھ مائیکا کی کھدائی کے لیے کسی اوزار کی طرح کام کرتے ہیں اور اکثر زخمی ہوجاتے ہیں۔ چھوٹے بڑے بے شمار حادثات یہاں روزکا معمول ہیں، جن میں بچے جان سے بھی چلے جاتے ہیں ۔گزشتہ پانچ سالوں میں پینتالیس بچے ان کانوں میں موت کی آغوش میں چلے گئے۔ تھامس رائٹرز فاؤنڈیشن کے 2016ء کے اعدادوشمارکے مطابق صرف دو ماہ میں سات بچے مائیکا کی کان کنی میں جان سے گئے۔
مائیکا سے میک اپ اورگاڑیوں کی چمک بڑھانے والے اور انھیں استعمال کرنے کے جنون میں مبتلا مرد اور عورتیں شاید جانتے بھی نہیں کہ ان کے شوق کی انسانی قیمت اصل میں ہے کیا؟ لیکن دنیا جہاں کی وہ صنعتیں اس انسانی استحصال سے ضرور واقف ہیں جو مائیکا کو اپنی پروڈکٹس کی چمک بڑھانے کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ لہٰذا میرے نزدیک گاڑیاں اور میک اپ کی مصنوعات بنانے والی تمام کمپنیاں انسانی حقوق کی اس خلاف ورزی میں برابر کی شریک ہیں۔
بھارت میں ہر بار کی طرح اس بار بھی انتخابات سے قبل سیاسی جماعتوں نے وعدے کیے ہیں کہ وہ اقتدار میں آکر غیرقانونی کان کنی ختم کر دیں گی، چائلڈ لیبر پر پابندی لگائیں گی اور مزدوروں کے لیے بنائے گئے قوانین کا اطلاق کروائیں گی ۔ اس بار بھی انتخابات سے قبل یہی وعدے دہرائے جا رہے ہیں، لیکن سب جانتے ہیں کہ انتخابات میں سرخ رو ہوکر اقتدار سنبھالنے والے یہ نمایندے سب سے پہلے ایک کام کرتے ہیں اور وہ ہے وعدہ فراموشی ۔
لیکن ایک کام ایسا ہے جو کرنا وہ کبھی نہیں بھولتے۔ نفرت کی فصل کی آبیاری کا کام ۔ یہ فصل بھارت میں بارہ مہینے لہلہاتی ہے۔ اب دیکھیے ناں! تین ماہ کے اندر دو بار روہنگیا مسلمانوں کو واپس میانمار کے جہنم میں دھکیل دیا گیا، اور تو اور گزشتہ ہفتے وشوا ہندو پریشد کے کارکنان نے دہلی میں ریلی نکالی جس میں نعرے لگائے گئے۔ ''ایک دھکا اور دو جامع مسجد توڑ دو۔''
یہی بھارتی سرکارکا اصل ایجنڈا ہے اور یہی حکومتی ترجیحات ۔ اس ایجنڈے کی تکمیل کی دھن میں باقی سب جانب سے آنکھیں بند کی جاچکی ہیں۔ اب چاہے انسانی اقدار ملیا میٹ ہوں یا انسانیت رسوا، سرکار کی بلا سے۔