اسلام برگ
30سال پہلے یہ ایک پاکستانی صوفی بزرگ سیدمبارک علی شاہ گیلانی سے متاثر ہوئے اور"اسلام برگ"کے نام سے ایک نوآبادی بنالی۔
اوڈیسی اکیڈمی(Odyssey Academy) بچوں کاایک اسکول ہے۔نیویارک کی گریس کاؤنٹی میں واقع یہ درسگاہ کافی عرصے سے قائم ہے۔وہی بچوں کی زوردار آواز،اساتذہ کاشرارتوں سے روکنااوروہی بھرپورزندگی کے آثار۔اسکول میں وہی زندگی ہے جوامریکا کے کسی بھی اسکول میں ہوسکتی ہے۔
چندہفتے پہلے ایک کلاس کے شروع ہونے میں تھوڑاساوقت تھا۔بچے اوربچیاں ٹیچرکاانتظارکررہے تھے۔ایک طالبعلم نے بستے سے تصویرنکالی اورڈیسک پر ساتھ بیٹھے ہوئے بچے کودکھانے لگا۔الفاظ تھے کہ یہ تصویر اسکول میں قتلِ عام کرنے والے ایک نئے طالبعلم کی بھی ہو سکتی ہے۔تصویردکھاکردوبارہ بستے میں رکھ لی۔جملہ غیرمعمولی تھا۔امریکا میں اسکولوں میں قتلِ عام کی وارداتیں کافی حد تک عام ہیں۔تمام ترکوششوں کے باوجودیہ تواترسے مختلف ریاستوں میں ہوتی رہتی ہیں۔ان تمام کاطریقہ کار تقریباً یکساں ہے۔اسکول کے بچوں میں سے کوئی مقامی شدت پسند،اسلحہ اورایک جنونی کیفیت۔
تصویردیکھنے والے بچے نے یہی جملہ اسکول کی سیکیورٹی کوبتادیا۔حفاظت پرمتعین افرادفوری طورپرمقامی پولیس کے پاس گئے۔قانون نافذکرنے والے اداروں نے ضابطہ کی کارروائی مکمل کی اوردونوں بچوں کاانٹرویوکرناشروع کردیا۔ ابتدائی پوچھ گچھ میں غیرمعمولی معلومات مل گئیں۔ تصویر دکھانے والابچہ ایک مقامی گروہ کے ساتھ کام کررہا تھا جو باقاعدہ دہشت گردی کی ایک بھیانک واردات کوعملی جامہ پہنانے میں مصروف تھا۔اس میں اٹھارہ سے بیس برس کے چار نوجوان ملوث تھے۔گھروں پر چھاپے سے چوبیس بندوقیں برآمدہوئیں جوتمام لائسنس شدہ تھیں۔
ساتھ ساتھ تین خود ساختہ بم بھی نکلے۔بچے سمیت تمام لوگوں کو گرفتار کر لیا گیا۔ گھروں کی تلاشی،تفتیش اورگرفتاریاں،باقاعدہ قانونی کارروائی مکمل کرنے کے بعدعمل میں لائی گئی۔اس میں عدالت سے جاری شدہ سرچ وارنٹ اورعدالت ہی سے جاری شدہ گرفتاری کے احکامات بھی تھے۔یہ منصوبہ تھاکیا۔دراصل نیویارک کے150میل کے فاصلے پرایک چھوٹی سی جگہ ہے جسکانام کیٹ سکل ماؤنٹین(Catskill Mountain)ہے۔ زیادہ ترسیاہ فام لوگوں پرمشتمل ہے۔تیس سال پہلے یہ ایک پاکستانی صوفی بزرگ سیدمبارک علی شاہ گیلانی سے متاثر ہوئے اور"اسلام برگ"کے نام سے ایک نوآبادی بنالی۔یہ اپنے پاکستانی مرشدکے احکامات کے مطابق اسلامی رسومات اداکرتے ہیں۔مسجدبھی بنائی گئی۔یہ سیاہ فام مسلمان اسلام برگ میں اپنے ذاتی مذہبی رجحانات کے عین مطابق زندگی گزاررہے ہیں۔
تین دہائیوں سے ان امن پسندلوگوں نے کوئی ایک حرکت نہیں کی جس سے مقامی انتظامیہ کوکوئی شکایت ہو۔اوڈیسی اکیڈمی کاطالبعلم اور اس کے چارنوجوان ساتھی اسی مسلمان بستی پربموں سے حملہ کرناچاہتے تھے اورمقامی مسلمانوں کوعبرتناک سبق سکھاناچاہتے تھے۔یہ نوجوان امریکی قوانین کے مطابق دہشت گردی کی ایسی واردات کی منصوبہ بندی کررہے تھے جس میں مقامی مسلمانوں کی جان جاسکتی تھی۔منصوبہ بندی کرنے والے تمام افراداس وقت گریس کاؤنٹی کی پولیس کی حراست میں ہیں۔اسلام برگ کوتباہی سے بچانے سے پہلے مقامی پولیس نے تمام قانونی تقاضے پورے کیے۔گھروں پرریڈکرنے سے پہلے عدالت کے سامنے تمام حقائق رکھے۔جج کومطمئن کیاکہ وہ امریکی شہریوں کوقتلِ عام سے محفوظ رکھ رہے ہیں۔
ٹھوس شواہدپیش کرنے کے بعد گرفتاریاں عمل میں لائی گئیں۔خلاف ضابطہ کوئی حرکت عمل میں نہیں لائی گئی۔اجازت کے بغیرکسی بھی انسان کی شخصی آزادی اورانسانی حقوق کوپامال نہیں کیاگیا۔یہ ایک ایسے ملک کااندرونی قصہ ہے جوپوری دنیامیں جنگ کی کیفیت میں ہے اوریہ خوفناک جنگ مسلمانوں کے خلاف ہورہی ہے۔ تمام ترمعاملات کے باوجود،امریکا کے اندرپولیس یاریاستی ادارے کوئی ایسی حرکت نہیں کرسکتے جو قوانین کے دائرے سے باہرہو۔کسی کوبغیراجازت نقصان پہنچانے کاسوچ بھی نہیں سکتے۔یہ بھی درست ہے کہ چندمقامات پرپولیس نے اپنی حدودسے تجاوزکیا۔مگرتھوڑے ہی عرصے میں ایسے تمام عناصر کو گرفتارکرکے قرارواقعی سزادی گئی۔امریکا طویل عرصے سے دہشت گردوں کاٹارگٹ ہے۔مگروہاں کے اداروں نے 9/11کے بعدپورے ملک میں دہشت گردی کاکوئی بڑا واقعہ نہیں ہونے دیا۔
دہشت گردی کے حوالے سے پاکستان بھی ایک عذاب میں مبتلاہے۔لاتعدادشہری اورعسکری اداروں کے افراد شہید ہو چکے ہیں۔کوئی ان کی تعدادایک لاکھ بتاتاہے توکوئی سترہزار۔ مگرسچ یہ ہے کہ ہمارے ملک اورشہریوں نے دہشت گردی کی جنگ میں بے حدجانی اورمالی نقصان اُٹھایاہے۔مالی نقصان اس قدرزیادہ ہے کہ لکھتے ہوئے بھی خوف محسوس ہوتا ہے۔ محتاط جائزے کے مطابق یہ نقصان بیس ارب ڈالرسے بھی زیادہ ہے۔غیرمتعصب جائزے کے مطابق پاکستان نے دہشتگردی کوختم کرنے کے عمل میں حددرجہ اعلیٰ کامیابیاں حاصل کی ہیں۔یہ کوئی معمولی بات نہیں۔اس اژدہے کا سر کچلنے کے لیے فوج،فضائیہ،پیراملٹری فورس،خفیہ اداروں اور پولیس نے حددرجہ محنت کی ہے۔اس غیرمعمولی کامیابی کو نظر اندازکرناحددرجہ ناانصافی ہوگی۔
مگرسوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ کیاہم نے ایسے بہترین ادارے ترتیب دیے ہیں جو اس عفریت کاجدیدتقاضوں کے مطابق مقابلہ کر پائیں۔ اسی سوال کوساہیوال کے سانحہ کے تناظرمیں دیکھنااَزحدضروری ہے۔ساہیوال کے اندوہناک واقعہ میں مارے جاناوالاشہری القاعدہ کے ساتھ منسلک تھاکہ نہیں۔اس کی بیوی اوربچے ہیومن شیلڈکے طورپراستعمال ہورہے تھے کہ نہیں۔ان کی گاڑی اور گھرسے جیکٹیں اوراسلحہ برآمدہو پایا یا نہیں۔مارے جانے والے شہریوں کی منصوبہ بندی کامیاب ہوپائی یا نہیں۔
یہ تمام سوالات موجودہ صورتحال میں قابل توجہ نہیں رہے۔ سوال صرف ایک ہے کہ کیاہمارے ادارے اس درجہ غافل اورغیرتربیت یافتہ ہیں کہ ہرقانون سے بالاترہوکرکسی بھی جگہ پرخون کی ہولی کھیل سکتے ہیں۔کیا عدم توازن کااس درجہ شکارہیں کہ جامع منصوبہ بندی کے بغیرکسی بھی مقام پرکسی بھی شہری کوقتل کرسکتے ہیں۔یہ سوال حددرجہ اہم بھی ہے اوراس پربات کرنی ضروری بھی ہے۔
ہم لوگ حالت جنگ میں ہیں۔یہ جنگ کیسے شروع ہوئی۔اس میں کون کون سی شخصیات نے کیاکرداراداکیا۔دہشت گردی کے سانپ کو کس کس سیاسی اورمذہبی جماعت نے دودھ پلایا۔ان سوالات پربحث لاحاصل ہے۔سادہ مگر پیچیدہ مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں دہشت گردوں کو باقاعدہ منصوبہ بندی سے کام لے کر پالاپوساگیاہے۔یہ معاملات دہائیوں سے چل رہے تھے۔ کے پی کے قبائلی علاقے،جنوبی پنجاب، سندھ اوربلوچستان کے متعدد علاقوں میں شدت پسندی جڑپکڑرہی تھی۔مگرہم خاموشی سے صرف دیکھ رہے تھے۔
مخصوص سوچ رکھنے والے افراد کی مساجد اور مدارس کے ساتھ مہیب اسلحہ خانے وجود میں آرہے تھے۔مگرہم چپ کے روزہ سے تھے۔ ہمارے قبائلی علاقوں میں ہرسطح کے ملزم اورمجرم پناہ لے رہے تھے، مگرہم انھیں گرفتارنہیں کرسکتے تھے۔قتل،اغوا برائے تاوان کے ملزم تمام تر وارداتیں کرنے کے بعد قبائلی علاقوں میں چلے جاتے تھے اورہم مجبوری سے صرف تماشہ دیکھتے رہتے تھے۔ بعض مدارس کے اندر شدت پسندی پرمشتمل تدریس بلاروک ٹوک کے جاری وساری تھی مگرریاست صرف اورصرف تماشائی تھی۔ ویسے اکثرمدارس میں نصاب میں آج تک کوئی تبدیلی نہیں لائی گئی۔بے شمار معاملات کومسلسل نظر انداز کرنے کے بعدجب عسکری ادارے بذات خودحملوں کا شکار ہوئے اس وقت ہم خوابِ خرگوش سے جاگے ہیں اور دہشت گردوں کے خلاف موثرجنگ کااعلان ہواہے۔
ہمیں یہ احساس ہوناچاہیے کہ جنگ کے دوران حالات حددرجہ غیرمعمولی ہوتے ہیں۔انسانی حقوق کواس طریقہ سے برقرارنہیں رکھاجاسکتاجس طرح امن کے دوران ہوتا ہے۔مگراس کایہ مطلب بھی نہیں کہ اس دورانیہ میں عام شہریوں کی جان اورمال محفوظ نہیں ہوتے۔یہ ایک باریک توازن ہے جسے کامیاب ریاستیں حاصل کرچکی ہیں۔ مگر ہمارے جیسے عجیب وغریب مفروضے پالنے والے ملک اس توازن کو ہرگز ہرگزحاصل نہیں کرسکے۔ اگرہم اپنی کوتاہیوں سے مکمل طورپر پردہ پوشی کرینگے تو ہمارے ادارے غلطیاں درغلطیاں کرتے چلے جائیں گے۔ساہیوال جیسے واقعات تواترسے ہوتے جائیں گے۔دہشت گرد بھی لوگوں کوقتل کریں گے اورہمارے ادارے بھی کمال کوتاہی سے بے گناہ لوگوں کی جان لیتے جائینگے۔ان معاملات کوسنجیدگی سے حل کرنے کی ضرورت ہے۔
پرکھنے کی ضرورت ہے۔نیم تربیت یافتہ اہلکاروں کے ہاتھوں میں مہلک اسلحہ دیکرچین کی نیندنہیں سویاجاسکتا۔ضرورت ہے کہ ارباب اختیارانتہائی ٹھنڈے طریقے سے دہشت گردی کے خلاف لڑنے والوں کی منظم اورمسلسل تربیت کی جانب غورکریں۔یہ نہیں ہوسکتاکہ ہم ہرمعاملہ کودلیل کی بنیادکے بغیرصرف بیانات سے حل کرنے کی کوشش کریں۔ہمیں سوچنے کی ضرورت ہے۔ٹھوس منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔اداروں کوجدیدخطوط پر استوارکرنے کی ضرورت ہے۔امریکی پولیس اگراسلام برگ کوبروقت اقدام سے محفوظ رکھ سکتی ہے،توہم کیوں اس میں ناکام ہو رہے ہیں۔دہشت گردی کی جنگ میں عوامی رائے عامہ اور مدد کے بغیرکوئی کامیابی حاصل نہیں کی جاسکتی۔ ہاں، اس خوفناک جنگ میں ناکامی کوئی آپشن نہیں ہے!معاملہ صرف اور صرف توازن کاہے!