وہی برباد مستقبل آپ کا منتظر
مستقبل لکھاہوانہیں ہوتا اور نہ ہی مستقبل ایسی کوئی چیز ہے جس میں آپ داخل ہوجائیں، مستقبل وہ ہے جو ہم خود بناتے ہیں۔۔۔
مستقبل لکھا ہوا نہیں ہوتا اور نہ ہی مستقبل ایسی کوئی چیز ہے جس میں آپ داخل ہوجائیں، مستقبل وہ ہے جو ہم خود بناتے ہیں۔ انور مقصود زہرہ نگاہ کی نظم کے حوالے سے لکھتے ہیں ''سنا ہے جنگلوں کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے، سنا ہے شیر کا جب پیٹ بھر جاتا ہے تو وہ حملہ نہیں کرتا، سنا ہے جب ہوا کے تیز جھونکوں میں مینا اپنے گھر کو بھول کے کوے کے انڈوں کو پیروں میں تھام لیتی ہے، سنا ہے گھونسلے سے جب کوئی بچہ گرے تو سارا جنگل جاگ جاتا ہے، سنا ہے سیلاب آجائے تو لکڑی کے تختے پر سانپ، چیتا اور بکری ساتھ ہوتے ہیں، منصفو! میرے ملک میں جنگلوں کا ہی کوئی دستور لے آئو۔'' خدا کی بستی پہلا ناول ہے جس میں تقسیم کے بعد تشکیل ہوئی، پاکستانی شہری سوسائٹی کے باطنی حقائق کو جرأت کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔
اس وقت پاکستان کے نیم سرمایہ دارانہ و نیم جاگیردارانہ معاشرے میں جمہوریت اور مذہب کی آڑ میں جس ہوس پرستی اور فریب کاری کو شعار بنایا جارہا تھا شوکت صدیقی نے اسے پہلی بار وسیع پیمانے پر موضوع بنایا۔ خدا کی بستی پاکستانی معاشرے کی حقیقی تصویر ہے، جو جائز و ناجائز طریقوں سے دولت حاصل کرکے راتوں رات خوشحال اور معزز بن جانا چاہتی ہے۔ اس نئی سوسائٹی کے سبھی افراد اپنی جڑوں اور سماجی پس منظر سے اکھڑے ہوئے لوگ تھے جو قدیم ہندوستانی معاشرے میں اپنی شناخت کو ہجرت کے ساتھ ہی ترک کرچکے تھے، نوتشکیل شدہ پاکستانی سماج میں طبقاتی درجہ بندی ابھی نہیں ہوئی تھی اور صرف دولت کے سہارے ہی اعلیٰ درجات حاصل کیے جاسکتے تھے، اس سوسائٹی کے نمائندے نیاز کباڑی، خان بہادر فرزند علی اور ڈاکٹر موٹو ہیں۔ نیاز دولت مند بننے کے لیے بچوں کو گھر کا سامان چرا کر لانے کی ترغیب دیتا ہے، سلطانہ پر قبضہ کرنے کے لیے اس کی ماں سے شادی رچاتا ہے، پھر سلطانہ کی ماں کا بیمہ کرا کے اس کو ختم کرا دیتا ہے، اس کی موت کے بعد ایک طرف بیمے کی رقم وصول کرتا ہے دوسری طرف سلطانہ کو داشتہ بنالیتا ہے۔
ڈاکٹر موٹو کرنال میں کمپائونڈر رہ چکا تھا، تقسیم کے بعد پاکستان آیا تو اپنے نام کے ساتھ بوگس ڈگری لگا کر پریکٹس شروع کردیتا ہے، وہ کئی بار سنگین مقدمات میں پھنس کر بدنام ہوچکا تھا لیکن اپنے ناجائز کارناموں سے باز نہیں آتا، ڈاکٹر موٹو ہی سلطانہ کی ماں کو زہریلی دوائیں دے کر آہستہ آہستہ موت کے منہ میں دھکیلتا ہے۔ خان بہادر فرزند علی خدمت خلق کو کمائی اور سماجی برتری کا وسیلہ بنائے ہوئے ہے، فلک پیما کے خواب کو ریزہ ریزہ کرنے والا یہ ہی شخص ہے اور سیلاب زدگان کے لیے گلے سڑے ہوئے کمبل سپلائی کرنے والا بھی یہ ہی ہے۔ یہ تینوں کردار اس پاکستانی معاشرے کے نمائندہ ہیں جو ہوس زرگری اور ہوس اقتدار میں مبتلا ہے اور مجرمین کو ان کی دولت مندی کی بنا پر احترام کی نظر سے دیکھتا ہے۔
دوسری طرف یہ ہی بے حس معاشرہ ان معصوم ہاتھوں میں ہتھکڑی ڈلوا دیتا ہے جو قلم اور کتاب سنبھالنے کے لیے وجود میں آئے تھے، یہ ہی معاشرہ سلطانہ اور اس کی ماں کے استحصال کو خاموشی سے دیکھتا رہتا ہے، سلطانہ نیاز کے بعد فرزند علی کے غنڈوں کی داشتہ بن جاتی ہے اور سلیمان جیسے مخلص و ذہین شخص کی قسمت میں رخشندہ جیسی خودغرض، نمائش پرست اور بدکردار بیوی لکھی جاتی ہے جو مہنگے زیورات اور چمکدار ملبوسات کے حصول کے لیے جعفری کے اشارے پر غیر ملکی گاہکوں کو خوش کرتی ہے۔
اس پرتعفن معاشرے کی غلاظت ختم کرنے کے لیے ''فلک پیما'' کے سر پھرے کارکن اسی غلاظت میں اتر کر کام کررہے تھے تاکہ اس معاشرے کو صحت مند اور پاکیزہ بنایا جاسکے، لیکن خان بہادر فرزند علی اپنی سازشوں کے ذریعے اس منصوبے کو نذر آتش کردیتا ہے کیونکہ اس نے متروکہ جائیداد کی طرح اسلام اور حب الو طنی کے جملہ حقوق بھی اپنے نام الاٹ کرا لیے تھے، خان بہادر فرزند علی فلک پیما کے صفدر بشیر، احمد علی، ڈاکٹر زیدی اور سلیمان وغیرہ کی بڑھتی ہوئی شہرت اور وقار کو اپنے ناجائز کاموں کے لیے خطرناک سمجھتا ہے، چنانچہ اس کے پالتو غنڈے فلک پیما کے ہیڈ کوارٹر کو پھونک دیتے ہیں اور کارکنوں پر تشدد آمیز حملہ کرتے ہیں، اس حملے میں ڈاکٹر زیدی ختم ہوجاتا ہے اور فلک پیما کے ذریعے تعمیر ہونے والے اسپتال کی زمین پر خان بہادر فرزند علی راتوں رات مسجد تعمیر کرادیتا ہے۔
آج بھی جب ہم پاکستانی معاشرے پر نظر دوڑاتے ہیں تو ہمیں ملک میں وہی صورتحال نظر آتی ہے جس کا اس ناول میں ذکر ہے۔ 60 سال بعد بھی ہم وہیں کھڑے ہوئے نظر آتے ہیں، آج بھی جاگیردار، سرمایہ دار، اقتدار پرست اپنے ایجنڈوں اور گماشتوں کے ذریعے معاشی لوٹ کھسوٹ میں مصروف ہیں، آج بھی مذہب کو اپنے ذاتی مفادات کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔ چاروں طرف لوٹ مار، لوٹ کھسوٹ، ہوس زر کا بازار گرم ہے۔ تحریک آزادی کے زمانے کی حب الوطنی، انسان دوستی، فرقہ ورانہ یگانگت، قربانی کے جذبات، آزادی کے بعد چند ہی سال میں ہوس پرستی، لالچ، استحصال اور فرقہ واریت کی مہیب شکل میں تبدیل ہوگئے۔ آج پاکستان پر بھوک کا مکمل راج قائم ہے۔ بقول منٹو دنیا میں جتنی بھی لعنتیں ہیں بھوک ان کی ماں ہے۔ بھوک گداگری سکھاتی ہے، بھوک جرائم کو ترغیب دیتی ہے، بھوک عصمت فروشی پر مجبورکرتی ہے، بھوک انتہا پسندی کا سبق دیتی ہے، اس کا حملہ بہت شدید، اس کا وار بہت بھرپور اور اس کا زخم بہت گہرا ہوتا ہے۔ بھوک دیوانے پیدا کرتی ہے۔
آج اسلامی جمہوریہ پاکستان میں دیوانوں کے غول کے غول پیدا ہوچکے ہیں۔ ملک میں پھیلی تمام لعنتوں، تمام عذابوں کے ذمے دار یہی غول کے غول ہیں، انھوں نے وہ بربادیاں اور تباہیاں پھیلائی ہیں کہ تاتاریوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ انھوں نے ہی ملک کے 18 کروڑ غریب اور بے بس انسانوں کو ان دیکھی زنجیروں میں جکڑ رکھا ہے۔ کروڑوں جیتے جاگتے انسان ان ہی کی بھوک کی وجہ سے آج غلاموں سے بدتر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، بیماریاں، فاقے، غلاظت ان کا مقدر بن چکی ہیں۔ روز اپنے آپ پر ماتم کرنا ان کا نصیب بن چکا ہے۔ ان کے لیے ہر شام، شام غریباں میں تبدیل ہو چکی ہے۔ اے زمینی خدائو، خدا کے عذاب اور اس کے قہر سے ڈرو، ماضی کے زمینی خدائوں کے انجام سے ڈرو، ان کی اجڑی، تاریک، برباد قبروں سے عبرت حاصل کرو۔
اے گِدھوں اب بہت ہوگیا، تم نے بہت غریبوں کا خون پی لیا، تم نے بہت ان کو نوچ کھسوٹ لیا، یہ غاصب اور استحصالی ٹولہ انتہائی زہریلا اور انتہائی بدبودار ہوچکا ہے۔ نفرت کی تمام شکلوں میں سب سے زیادہ خطرناک اور عبرتناک شکل عوامی نفرت ہوتی ہے، بظاہر کمزور، لاغر، منقسم، خاموش، بے حس نظر آنے والے جب جاگ اٹھتے ہیں تو پھر اپنی بربادی اور ذلت کے ذمے داروں کو نشان عبرت بنا کر دم لیتے ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ ملک کے 18 کروڑ غریب عوام ان چند ہزار لٹیروں، ڈاکوئوں، گدھوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں، اپنی بربادیوں، تباہیوں کا انتقام لینے کے لیے اپنے اور اپنے بچوں کے مستقبل کے لیے اپنے حق کے لیے بغیر اٹھے اور جاگے آپ کا مستقبل نہیں بدل سکتا، اگر آپ اب بھی نہیں جاگے تو وہی برباد مستقبل آپ کا منتظر ہے کیونکہ مستقبل وہ ہے جو ہم خود بناتے ہیں۔