مجوزہ قومی سلامتی پالیسی
اگرچہ وطن عزیز کو ان دنوں گوناگوں مسائل ومشکلات کا سامنا ہے تاہم انرجی بحران سےلےکردہشت گردی کےعفریت تک نےکراچی تا۔۔۔
اگرچہ وطن عزیز کو ان دنوں گوناگوں مسائل ومشکلات کا سامنا ہے تاہم انرجی بحران سے لے کر دہشت گردی کے عفریت تک نے کراچی تا خیبر ایک طوفان اٹھا رکھا ہے۔ تخریبی کارروائیوں اور شدت پسندی کا خاتمہ سول حکومت سے لے کر عسکری قیادت تک سب کے لیے ایک بڑا چیلنج بنا ہوا ہے۔ گزشتہ ایک عشرے کے دوران دہشت گردی وتخریب کاری کی لاتعداد وارداتوں میں ہزاروں قیمتی جانیں ضایع ہوچکی ہیں۔ سیکیورٹی پر مامور جوانوں سے لے کر عام آدمی تک خودکش حملوں، بم دھماکوں، فائرنگ اور ٹارگٹ کلنگ کی روزوشب ہونے والی وارداتوں میں اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ اربوں ڈالر کے اقتصادی نقصانات نے قومی معیشت کو ہلا کے رکھ دیا ہے۔ ملکی سلامتی اور خودمختاری داؤ پر لگی ہوئی ہے۔
بیرونی دنیا میں ہمارا امیج متاثر اور شناخت دہشت گردوں کو پناہ دینے والے ملک کے طور پر کی جاتی ہے بلکہ یہاں تک کہا جاتا ہے کہ پاکستان دہشت گردوں کی جنت ارضی ہے۔ افغانستان میں جنم لینے والے طالبانوں اور عسکریت پسندوں کے متعدد گروپ اب پاکستان کی سرزمین پر کارروائیاں کر رہے ہیں چونکہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں امریکا کا فرنٹ لائن اتحادی ہے لہٰذا پاکستان کی حکومت اور اداروں کے خلاف تخریبی کارروائیاں طالبانوں کے نزدیک ''جہاد'' کا درجہ رکھتی ہیں، افغان طالبان کی سرزمین پاک پرکارروائیوں سے یہاں کے شدت پسند عناصر کو بھی کھل کر پنپنے اور اپنے نیٹ ورک کو وسیع کرنے کے مواقعے ملے۔ اب تازہ صورت حال یہ ہے کہ افغانی و پاکستانی طالبان ایک دوسرے کے علاقوں میں جاتے ہیں تربیت حاصل کرتے ہیں رہنمائی لیتے ہیں اور پھر ٹارگٹیڈ کارروائیاں کرتے ہیں۔ ادھر امریکا ڈرون حملوں کے ذریعے پاکستانی علاقوں میں طالبان رہنماؤں کو نشانہ بناتا ہے جس سے شدت پسندوں کے غم و غصے میں مزید اضافہ ہورہا ہے نتیجتاً دہشت گردی کی وارداتوں میں بھی تیزی آرہی ہے۔
اگرچہ پاک فوج نے بڑی جواں مردی سے سوات اور دیگر قبائلی علاقوں میں عسکریت پسندوں کے خلاف کامیاب کارروائیاں کرکے وہاں امن بحال کردیا ہے تاہم شدت پسند عناصر نے اب اپنے ٹھکانے بدل لیے ہیں۔ اپنے نیٹ ورک کو وسیع اور مستحکم کرلیا ہے۔ کراچی، پشاور اور کوئٹہ میں ان کی مخصوص پناہ گاہیں جہاں موقع دیکھ کر وقفے وقفے سے تخریبی کارروائیاں کرتے ہیں، بدقسمتی سے تمام تر سیاسی و عسکری کوششوں کے باوجود ملک سے دہشت گردی کے خاتمے اور شدت پسند عناصر کی بیخ کنی کے لیے متفقہ طور پر کوئی ٹھوس، جامع، موثر اور ہمہ جہت پالیسی نہیں بنائی جاسکی اور نہ ہی ہر دو فریق کے اتفاق رائے سے کوئی ایسا طریقہ کار وضع کیا جاسکا جس پر عمل پیرا ہوکر وطن عزیز کی گلیوں، سڑکوں، بازاروں، اسکولوں، مساجد، امام بارگاہوں کو بے گناہ و معصوم انسانوں کے خون سے ڈبونے والوں اور حساس قومی تنصیبات کو نشانہ بنانے والے دہشت گردوں، تخریب کاروں، خودکش حملہ آوروں اور ٹارگٹ کلرز کو کیفر کردار تک پہنچایا جاسکتا ہے یہی وجہ ہے کہ ایک عشرہ گزرنے کے باوجود وطن عزیز کے 18 کروڑ عوام دہشت گردوں کے رحم و کرم پر ہیں جو اپنا مخصوص ایجنڈا بندوق کے زور پر مسلط کرنا چاہتے ہیں۔
حالیہ انتخابی مہم کے دوران (ن) لیگ کے رہنمائوں نے ملک میں امن کے قیام اور دہشت گردی کے خاتمے اور قوم کو ڈرون حملوں سے نجات دلانے کے بلند بانگ دعوے کیے تھے ۔ مبصرین اور تجزیہ نگار بھی یہ توقع کر رہے تھے کہ مسلم لیگ ن برسراقتدار آنے کے بعد دہشت گردی کے خاتمے اور ملک میں قیام امن کے لیے جلد ہی ٹھوس اور عملی اقدامات اٹھائے گی لیکن ڈیڑھ ماہ کا عرصہ گزر جانے کے باوجود حکومت نے دہشت گردی کے جن کو بوتل میں بند کرنے کے حوالے سے کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا جس سے پوری قوم میں اضطرابی کیفیت کا پایا جانا ناقابل فہم نہیں ہے۔
چند روز پیشتر میڈیا میں یہ خبریں آنے لگیں کہ ملک میں قیام امن اور دہشت گردی کے خاتمے اور عسکریت پسندی پر قابو پانے کے لیے وزیر اعظم نواز شریف نے ایک متفقہ قومی سلامتی پالیسی مرتب کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور 12 جولائی کو اسلام آباد میں پارلیمانی پارٹیز کانفرنس کا انعقاد کیا جارہا ہے جس میں شرکت کے لیے پارلیمنٹ میں موجود تمام سیاسی جماعتوں کے پارلیمانی قائدین کو دعوت نامے جاری کیے جارہے ہیں۔ مجوزہ کانفرنس کے ایجنڈے کے حوالے سے کہا گیا کہ اس میں دہشت گردی کے خلاف جنگ، امریکی ڈرون حملے اور بلوچستان کی مخدوش صورت حال پر تبادلہ خیال کیا جائے گا اور تمام شرکاء کی مشاورت اور افہام و تفہیم سے ملک میں دہشت گردی کے خاتمے اور قیام امن کو یقینی بنانے کے لیے قومی سلامتی کے حوالے سے ٹھوس حکمت عملی وضع کی جائے گی لیکن نامعلوم وجوہ کی بنا پر یہ کانفرنس ملتوی کردی گئی۔
بعض خبروں کے مطابق حکومت طالبان کے مختلف گروپوں سے مذاکرات کے ذریعے امن کی خواہاں ہے اس حوالے سے تحریک انصاف، جماعت اسلامی اور مولانا فضل الرحمن بھی اس کے ہمنوا ہیں، ان سب کا موقف یہ ہے کہ گزشتہ ایک دہائی کے دوران شدت پسندوں کے خلاف بندوق کی زبان میں بات کرنے کے باوجود نہ تو امن قائم کیا جاسکا اور نہ ہی انھیں ختم کیا جاسکا لہٰذا اب حکومتی سطح پر پالیسی کو تبدیل کرتے ہوئے ان عناصر کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے امن قائم کرنے کی کوششیں کی جائیں جب کہ عسکری حلقے ماضی کے تجربات کی روشنی میں طاقت کے ذریعے دہشت گرد عناصر کے گرد گھیرا تنگ کرنے کے حامی ہیں اور اپنا ایک علیحدہ موقف رکھتے ہیں کہ شدت پسند لوگ ریاست کی رٹ کو نہیں مانتے، آئین کو تسلیم نہیں کرتے اور ملکی قوانین کی پاسداری نہیں کرتے وہ صرف اپنے مخصوص ایجنڈے کی ترویج وتکمیل کے خواہاں ہیں اور بے گناہ لوگوں کا خون بہا رہے ہیں جو آئین و قانون کے خلاف اور ناقابل قبول ہے اور پھر ماضی میں شدت پسندوں نے حکومت کے ساتھ کیے گئے معاہدوں کی خلاف ورزیاں کیں لہٰذا اب ان کے ساتھ مذاکرات نہیں بلکہ طاقت کی زبان میں بات کی جائے گی۔
عسکری حلقے واضح طور پر کہہ چکے ہیں کہ یہ ہماری جنگ ہے جس کو پوری یکسوئی کے ساتھ لڑنا ہوگا۔ اس پس منظر میں ضرورت اس امر کی ہے کہ دہشت گردی کے خاتمے، قیام امن اور ملکی دفاع کے حوالے سے مجوزہ قومی سلامتی پالیسی کی تشکیل کے لیے ایسا طریقہ کار وضع کیا جائے جس پر سیاسی و عسکری قیادت کے درمیان مکمل اتفاق رائے ہو۔ افہام و تفہیم کی عدم موجودگی اور ہم آہنگی کے فقدان کے باعث نہ ہی قومی سلامتی پالیسی کی تشکیل ممکن ہے اور نہ ہی دہشت گردی کا خاتمہ اور امن کا قیام ممکن ہوسکتا ہے۔