پروڈکشن آرڈر۔۔بادشاہ سلامت کی ایک رعایت یا قانونی حق
کیا یہ اپوزیشن کو کنٹرول کرنے کا کوئی ہتھیار ہے یا بلیک میلنگ پوائنٹ ہے
اس حکومت کا ایک ہی نعرہ ہے کہ کسی بھی کرپٹ کو کوئی رعایت نہیں دی جائے گی۔کسی بھی مخالف کو کوئی این آر او نہیں ملے گا بلکہ سختی کی جائے گی۔ تحریک انصاف کا یہ بھی موقف ہے کہ انھیں کرپشن اور کرپٹ لوگوں کے خلاف ووٹ ملے ہیں۔کرپشن کے خلاف جنگ ان کا اساسی نظریہ ہے۔ اسی لیے بار بار اعلان کیا جاتا ہے کہ کسی کو این آر او نہیں ملے گا بلکہ سختی کی جائے گی۔ اس تناظر میں یہ سوچنا بھی جرم ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت کسی بھی ملزم یا مجرم کے ساتھ کوئی رعایت کر رہی ہو گی بلکہ مجھے تو یہی امید ہے کہ سب کے ساتھ سختی کی جا رہی ہوگی اور انھیں عبر ت کا نشان بنایا جا رہا ہوگا۔
ایسی صورتحال میں اپوزیشن رہنماؤں کے پروڈکشن آرڈر کیا حکومت کی طرف سے کوئی رعایت ہیں یا یہ قانون کے تحت مجبوری ہے۔ ایک طرف حکومت کے لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ اگر اب دوبارہ قومی اسمبلی میں شہباز شریف کے چمچوں نے وزیر اعظم کی شان میں گستاخی کی تو ان کے پروڈکشن آرڈر منسوخ کر دیے جائیں گے۔
میرا ان حکومتی عہدیدار سے سادہ سا سوال ہے کہ بھائی اگر پروڈکشن آرڈر کوئی رعایت ہیں توکیوں دی گئی ہے؟ کیا آپ نے اس لیے ووٹ لیے ہیں کہ اپنی سیاسی ضروریات کے تحت نیب زدگان کو رعایتیں دی جائیں؟ کیا یہ آپ کا کرپشن سے لڑنے کا فلسفہ ہے؟ اگر یہ رعایت ہے تو یہ این آر او نہیں تو اور کیا ہے۔ پھر کیوں اور کس کی اجازت سے شہباز شریف اور خواجہ سعد رفیق کو این آر او دیا گیا ہے؟ کیا اس پر آپ کا محاسبہ نہیں ہونا چاہیے۔کیا این آر او اس بات سے مشروط ہے کہ بادشاہ سلامت وزیر اعظم کی شان میں کوئی گستاخی نہیں کی جائے گی۔ کیا حکومت پروڈکشن آرڈر کو ڈنڈے کے زور پر اپنا احترام کرانے کے لیے بطور ہتھیار استعمال کرنا چاہتی ہے۔کیا یہ اپوزیشن کو کنٹرول کرنے کا کوئی ہتھیار ہے یا بلیک میلنگ پوائنٹ ہے۔
ویسے پروڈکشن آرڈر کسی گرفتار رکن اسمبلی کا قانونی حق ہے جس سے کوئی انکار ممکن نہیں تو اس کی منسوخی کی بات کرنا ہی غیر قانونی بات ہے۔ اگر پاکستان کے قانون اور آئین میں جہاں ارکان پارلیمنٹ کو قانون کے سامنے جوابدہ بنایا گیا ہے وہاں انھیں اپنے فرائض ادا کرنے کے لیے پروڈکشن آرڈر کی سہولت بھی دی گئی ہے۔ یہ ایک خوبصورت بیلنس ہے کہ ایک طرف ارکان پارلیمنٹ قانون سے بالاتر بھی نہیں ہیں اور دوسری طرف اپنا کام کرنے کے لیے آزاد بھی ہیں۔ اب ماضی کی مثالیں دی جا رہی ہیں کہ تب پروڈکشن آرڈر جاری نہیں کیے گئے تو ماضی میں ایسی مثالیں بھی موجود ہیں کہ کب کب اپوزیشن رہنماؤں کے پروڈکشن آرڈر جاری کیے گئے۔اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم ماضی کی کونسی مثالیں لینا چاہتے ہیں اور کونسی نہیں۔ اگر ماضی میں کبھی قانون کی خلاف ورزی ہوئی ناانصافی ہوئی ہے تو کیا ہم نے قانون کی اس خلاف ورزی اور نا انصافی کی پیروی کرنی ہے یا قانون پسندی اور انصاف کی پیروی کرنی ہے۔
اسی تناظر میں پبلک اکاؤنٹس کی چیئرمین شپ کا بھی معاملہ ہے۔ بھائی اگر یہ بھی رعایت ہے تو کیوں دی گئی ہے۔ اگر یہ این ا ٓر او ہے تو کیوں دیا گیا ہے۔ اگر یہ قائد حزب اختلاف کا حق ہے تو چیخ کیوں رہے ہیں۔ میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ غصے نے اس حکومت کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت مفلوج کر دی ہے۔ ان کی حالت ایسے بچے کی ہے جسے کھیلنے کے لیے کھلونا مل تو گیا ہے لیکن اس کو اس سے کھیلنا نہیں آتا۔ وہ غصہ میں کھلونے کو کبھی زمین پر مارتا ہے، کبھی دیوار پر مارتا ہے۔ وہ حکومت نامی کھلونے سے اکیلے نہیں کھیل سکتا۔ اسے کھیلنے کے لیے اپوزیشن کی مدد کی ضرورت ہے لیکن اس بچے میں کسی کے ساتھ مل کر کھیلنے کا حوصلہ نہیں ہے۔ یہ تھوڑی دیر اپوزیشن کے ساتھ کھیلنے کی کوشش کرتا ہے (پروڈکشن آرڈر اور پبلک اکاؤنٹس کی چیئرمین شپ دیتا ہے )لیکن پھر اس کو غصہ چڑھ جاتا ہے کہ کھلونا تو میرا ہے (حکومت تو میری ہے) یہ اپوزیشن کیوں مزے لے رہی ہے، اس لیے کھلونا توڑنا شروع کردیتا ہے یا کھیل ختم کردیتا ہے۔
کھیل ختم کرنے کی تازہ مثال منی بجٹ پیش کرنے کے بعد یک دم قومی اسمبلی کا اجلاس غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کرنا ہے۔کوئی پوچھ سکتا ہے کہ اگر منی بجٹ پر قومی اسمبلی میں بحث نہیں کرانی تھی، قومی اسمبلی سے منظور ہی نہیں کرانا تھا تو اس کو قومی اسمبلی میں پیش ہی کیوں کیا گیا۔ بس بادشاہ سلامت کئی ماہ بعد قومی اسمبلی میں آئے اور اپوزیشن ارکان نے ان کی شان میں گستاخی کر دی۔ علیمہ خان کے معاملے پر نعرے بازی کی گئی۔ بادشاہ سلامت ناراض ہو گئے۔ انھوں نے کھیل ہی ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔ کوئی بادشاہ سلامت سے یہ نہیں پوچھ سکتا کہ حضور جان کی امان مل جائے تو عرض ہے کہ اس طرح کھیل ختم کرنا (قومی اسمبلی کا اجلاس غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کرنا) غیر پارلیمانی ہے۔کھیل کے قوانین کی خلاف ورزی ہے۔
آپ کہہ سکتے ہیں کہ حکومت اپوزیشن چور کو سمجھتی ہے۔ اس لیے اپوزیشن کے ساتھ یہ سلوک کر رہی ہے۔ لیکن کیا کوئی یہ سوال کر سکتا ہے کہ بھائی یہ آپ کے اپنے اتحادی کیوں ناراض ہیں۔ یہ ق لیگ تو اب چور نہیں ہے۔ آپ کی اتحادی ہے۔ یہ کیوں ناراض ہے۔ ق لیگ کے تو کوئی پروڈکشن آرڈر جاری نہیں کیے گئے۔ یہ کیوں ناراض ہیں۔ مینگل سے تو آپ نے معاہدہ کیا تھا۔ اس معاہدہ پر کیوں عمل نہیں کر رہے۔ ایم کیو ایم کو تو وزارتیں دی گئی ہیں۔ ان پر بھی منی لانڈرنگ کے الزام ہیں۔ کیا ایسا نہیں ہے کہ کھیل کے کوئی اصول ہی نہیں ہیں۔ جو ساتھ مل جائے وہ اچھا جو مخالفت کرے وہ برا۔ جب دل چاہے کھیل شروع جب برا لگ جائے کھیل ختم۔
قومی اسمبلی کا اجلاس اصل میں اس لیے ملتوی کیا گیا ہے کہ حکومت کے بادشاہی مزاج کی وجہ سے اس کے اپنے اتحادی ان سے ناراض ہیں۔ حکومتی ارکان اسمبلی بھی ناراض ہیں۔ خطرہ پیدا ہو گیا تھا کہ کہیں بجٹ قومی اسمبلی سے نامنظور ہی نہ ہو جائے۔ اس لیے میدان سے بھاگنا ہی واحد راستہ تھا۔ اب اپوزیشن کو گالیاں دے کر سیاسی منظر نامہ دھندلا کیاجائے گا۔ ہر طرف چور چور کی گونج ہو گی، اتحادیوں میں مزید وزارتیں بانٹی جائیں گی۔ ناراض ارکان کو فنڈز دیے جائیں گے جیسے پنجاب میں دیے گئے ہیں۔ پھر دوبارہ سے کھیل شروع کر دیا جائے گا۔ لیکن یہ دھاندلی نہیں ہے۔ بادشاہ سلامت کا کھیل اور کھلونا ہے جب ان کا دل چاہے جیسے دل چاہے گا کھلیں گے۔
اس حکومت نے اس ملک اور امور مملکت کو ایک کھیل بنا دیا ہے۔ ایک سال میں دو دو بجٹ۔ ایک دن کچھ ایک دن کچھ۔ ایک دن یہ اعلان اب آئی ایم ایف کے پاس جانے کی ضرورت نہیں۔ دوسرے دن یہ اعلان آئی ایم ایف کے پاس جانا ناگزیر ہے۔ ایک دن جمہوریت کے مفاد میں پروڈکشن آرڈر جاری کردیتے ہیں دوسرے دن منسوخ کر دیتے ہیں۔کبھی احتساب جاری رکھنے کا اعلان کبھی نیب کے خلاف بیان بازی۔ کبھی مراعات نہ لینے کا اعلان۔ کبھی ٹیکس چوروں کے لیے تحفظ کے حکم نامے۔ کھیل جاری ہے، دیکھتے جائیں اور سر دھنتے جائیں۔