پیرس کمیون سے پیلی جیکٹ تک

برازیل میں چالیس لاکھ کی ریلی میں چالیس فیصد لوگوں نے پیلی جیکٹ پہن کرشرکت کی


Zuber Rehman January 28, 2019
[email protected]

1871ء میں فرانس کے شہر پیرس میں''پیرس کمیون '' جوکہ دنیا کا پہلا مزدوروں کا انقلاب اور اقتدار تھا۔خواہ یہ 200 رکنی اسمبلی صرف 70دن ہی قائم کیوں نہ رہی۔ جس میں 194انارکسٹ اور6 مارکسٹ شریک تھے۔ مزدورطبقے نے یہ کر دکھایا کہ 70دن میں کوئی بھوکا مرا،کوئی بے روزگار رہا،کوئی لاعلاج رہا،کوئی ڈاکہ پڑا ،کوئی چوری ہوئی ،کسی نے خودکشی کی، عصمت فروشی ہوئی اورنہ کسی کا قتل ہوا ۔اسی کمیون نے فیڈریشن کی بنیاد ڈالی، جس میں اختیارات نچلی سطح کی کمیون کے پاس آیا اور فیڈریشن رابطے کی ایک کڑی تھی،جب کہ آج کی فیڈریشن ایک بے جان گھوڑا ہے جس میں نچلی سطح کے اختیارات نام نہاد ہے اور سارے اختیارات ایک مطلق مرکزکے پاس ہے۔

پھر1886ء میں امریکا کے صنعتی شہر شکاگو میں 8گھنٹے کی ڈیوٹی سمیت دیگر مطالبات پر مبنی مزدورطبقے نے ہڑتال اورمظاہرہ کیا۔اس تحریک میں 6 انارکسٹوں کو پھانسی پہ لٹکا دیا گیا، لیکن اس کے اثرات پوری دنیا پہ پڑے۔آج قانون دنیا بھر میں 8 گھنٹے کی ڈیوٹی ہے ۔یعنی ہفتے میں 48گھنٹے جب کہ فرانس میں مزدوروں نے ہڑتال کرکے چند برس قبل ہفتے میں 35گھنٹے کی ڈیوٹی کروا لی۔

پھر انارکسٹوں کی پیش قدمی میں 2011ء میں وال اسٹریٹ قبضہ تحریک جس کا نعرہ تھا ''ہم ننانوے فیصد ہیں'' ۔88ملکوں کے 900 شہروں میں یعنی نیویارک سے نیوزی لینڈ تک ہڑتالیں اورمظاہرے ہوئے۔ ان کا کوئی رہنما تھا اور نہ کوئی جماعت ۔ پھر1968 ء میں فرانس سمیت دنیا بھر میں ابھرنے والی عوامی تحریک انتہا کو پہنچ چکی تھی۔ اس تحریک کے دوران لانڈھی،کراچی کے مل ایریا میں مزدوروں نے ملوں، فیکٹریوں اورکارخانوں پر قبضہ کرکے انتظامیہ (مل نوکرشاہی) کو ملوں سے نکال دیا اور سارے کام مزدورخود ہی کرتے تھے۔

پاکستان کے لیبر لاز میں درج ہے کہ ان قبضوں اور ہڑتالوں کے دوران پاکستان کی تاریخ میں مزدوروں نے سب سے زیادہ پیداوار دی۔ ان ہڑتالوں کے دوران ریاست خلاء میں معلق تھی ۔ اب یہ تحریک 191، نومبرکے وسط میںڈیزل پر ٹیکس میں اضافے کے خلاف پھر فرانس میں ہی شروع ہوئی اور پورے ملک میں پھیل گئی ۔ اس پیلی جیکٹ کی تحریک میں اکثریت محنت کشوں کی ہے۔ اسے کوئی جماعت چلا رہی ہے اور نہ کوئی لیڈر۔ حکمران خود پریشان ہیں کہ وہ کس سے بات کریں۔

کچھ جگہوں پر مظاہرین نے خود کوکمیٹیوں میں منظم کیا ہے، لیکن جو مطالبات مختلف گروپوں، سماجی پر تین یا زائد افراد اٹھا رہے ہیں، ان میں محنت کشوں کی تنخواہوں ، پنشنوں اور دیگر مراعات میں چالیس فیصد تک اضافہ ، نئے روزگارکی تحقیق،کرایوں میں کمی اور نئے گھروں کی تعمیر ، ماحولیات کے تحفظ اور صحت کی سہولیات کے حوالے سے فرانس کی افریقہ سمیت دیگر تمام جگہوں سے فوجی مداخلت کا خاتمہ اور نیٹو سے علیحدگی وغیرہ شامل ہیں ۔ اس تحریک میں بائیں بازو خاص کر انارکسٹ پیش پیش ہیں۔

اس کے علاوہ کچھ مغربی ممالک میں دائیں بازو کے نیم فسطائی اور مہاجرین مخالف گروہوں نے بھی پیلی جیکٹ کا نمونہ استعمال کرنے کی کوشش کی ہے ، مگر ان کی تعداد بہت کم ہے اور تحریک کا عمومی جھکاؤ بائیں بازوکی طرف ہے اور مطالبات کی نوعیت بھی طبقاتی ہے۔ اس تحریک کا پھیلاؤ دنیا بھر میںدیکھنے میں آرہا ہے۔ مختلف خطوں میں عوام نے اپنے معاشی اور طبقاتی مسائل کی بنیاد پر تحریک سے متاثر ہوکر اپنے ہاں مظاہرے اور ریلیاں شروع کردی ہیں۔ ان ممالک میں بیلجیئم ، تیونس،اردن، مصر، سوڈان، بارسلونا، بلغاریہ ،کینیڈا ، جرمنی،عراق، اٹلی، اسرائیل، لبنان، ہالینڈ ، پرتگال، پولینڈ، روس، تائیوان اور پاکستان وغیرہ شامل ہیں۔ مضحکہ خیزخبر مصر میں سننے میں آئی جہاں فوجی آمر السیسی نے پیلی جیکٹوں کی فروخت پر ہی پابندی عائدکردی ہے۔

فرانسیسی صدر میکرون نے 10 دسمبر 2018کی شام کو خطاب کرتے ہوئے فیول ٹیکس میں اضافے کو موخرکرتے ہوئے 10ارب یورو مالیت کی مراعات کا اعلان کیا ۔ان مراعات میں ماہانہ بنیادی تنخواہ میں 100یورو اضافہ، پینشن میں اضافہ ، اوور ٹائم تنخواہوں پر ٹیکس میں کمی اور بجلی کے ریٹ مارچ 2019 تک نہ بڑھانا شامل تھا ۔ میکرون نے کاروباری حضرات کوکرسمس پر مزدوروں کو بونس دینے کی ہدایت بھی کی تھی، لیکن اس نے اپنی صدارت کے آغاز میں امیروں کو ٹیکسوں میں جو چھوٹ دی تھی، اس کی واپسی کے حوالے سے کوئی بات نہیں کی ۔ میکرون کی نیو لیبرل معاشی پالیسیوں نے فرانس میں لاکھوں لوگوں کو خط غربت کی لکیر تک پہنچا دیا ہے۔ مظاہرین میں تمام محکوم سماجی پرتوں کے لوگ شامل ہیں ۔

10دسمبر 2018ء کو اس تحریک میں 100اسکولوںکے طلبہ کی شمولیت سے تحریک کے ایک نئے باب کا آغاز ہوا تھا۔ فرانسیسی نوجوان بھی پے درپے نیو لیبرل اصلاحات پر بہت مشتعل ہوئے ہیں، جن کی وجہ سے یونیورسٹی تک پہنچنا، ان کے لیے تقریبا ناممکن ہوگیا ہے۔ فرانس میں غربت اور امارت کی خلیج میں اضافہ ہورہا ہے ۔کچھ مظاہرین نے میڈیا کو بتایا کہ ''اس قسم کی پر تشدد کارروائیاں کرنا ہمیں پسند نہیں ہے، لیکن ہمیں نتائج چاہئیں'' واضح رہے کہ مظاہرین نے جن عمارتوں کو آگ لگائی وہ سب عمارتیں اور جائیداد امیروں کی ہیں ۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عوام کا غصہ امیروں کے خلاف ہے۔ صدر میکرون کے بارے میں تمام لوگوں کا خیال ہے کہ وہ فرانس کے عوام کا نہیں بلکہ امیروں کا نمایندہ ہے ۔ تازہ ترین سروے کے مطابق صدر میکرون کی مقبولیت 24 فیصد سے بھی کم ہوچکی ہے ۔

اب تک حکومت کے سات وزراء کو مستعفی ہونا پڑا۔ دوسری طرف 70فیصد فرانسیسی عوام اس تحریک کے حق میں ہیں۔ پولیس نے عوام پر بدترین تشدد کیا ۔کئی جگہوں پر پولیس نے مظاہرین کی طرف ہمدردی کا رویہ اپنایا جس کے بعد حکومت کو پولیس والوں کی تنخواہوں اور مراعات میں اضافے کا اعلان کرنا پڑا تاکہ ان کی ہمدردی خریدی جاسکے ۔ تحریک ک پھیلاؤ نے متوسط طبقے کے وکلاء اور اساتذہ کو بھی اپنے ساتھ جوڑ لیا ہے ۔ مظاہرین میں بڑی تعداد محنت کشوں کی ہے جن میں ایک دن میں تین لاکھ محنت کش شریک ہوئے، یاد رہے کہ فرانس میں چلنے والے پیلی جیکٹ ہڑتال کوگیارہواں ہفتہ ہوگیا جس کا ایک بڑا اثر برازیل میں بھی نظر آیا جس کے نتیجے میں برازیل میں چالیس لاکھ کی ریلی میں چالیس فیصد لوگوں نے پیلی جیکٹ پہن کرشرکت کی۔

اس پیلی جیکٹ تحریک کے اثرات پاکستان پر بھی پڑے ہیں۔لاہور میں کچھ نوجوانوں کو پیلی جیکٹ میں مظاہرہ کرتے ہوئے دیکھا گیا۔ دراصل عوام کی ان بار بار بغاوتوں سے سماج متحرک ہوتا ہے جو اپنی منزل مقصود ، انقلاب کی جانب پیش رفت کرتا ہے۔ سرمایہ دارانہ ریاستیں اب ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں ۔ چند لوگوں کے پاس دولت کا انبار ہے تو دوسری طرف اربوں لوگ غربت کے شکار ہیں۔ لاکھوں لوگ اس کرہ ارض پر روزانہ بھوک، افلاس، بیماری، حادثات اور جنگوں میں مر رہے ہیں۔ یہ ساری دولت چند ہاتھوں میں مرکوز ہونے میں ریاست ہی مدد گار بنتی ہے۔کچھ ریاستیں اگر عوام کی بھلائی میں اضافہ کردیں تو اس سے طبقاتی تفریق اور مسائل ختم نہیں ہوتے، ہاں مگرکچھ کم ضرور ہوجاتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں