چھٹیوں کے کام کا مقصد کیا ہے۔۔۔

ہوم ورک کی تکمیل صرف طلبہ نہیں اساتذہ اور والدین کی بھی ذمہ داری ہے


Rana Naseem July 21, 2013
ہوم ورک کی تکمیل صرف طلبہ نہیں اساتذہ اور والدین کی بھی ذمہ داری ہے۔ فوٹو: فائل

پاکستان کا شمار دنیا کے گرم مرطوب ترین خطے میں کیا جاتا ہے جہاں شدید گرمی میں انسان تو کجا چرند و پرند کی سرگرمیاں بھی محدود ہو جاتی ہیں۔

مئی کے آخری ایام میں جب سورج آگ برسا رہا ہوتا ہے، چھوٹے چھوٹے بچے بھاری بھرکم بیگز کے ساتھ ہانپتے ہوئے سکول آ جا رہے ہوتے ہیں، اس دوران انہیں گرمیوں کی چھٹیوں کا شدت سے انتظار ہوتا ہے تاکہ وہ گھر پر موج مستی کر سکیں۔ گرمی اور سردی کے موسم قدرت نے ہماری بھلائی کے لئے بنائے ہیں لیکن شدید گرمی میں سکول جانا اور بہت سے بچوں کا اکٹھے بیٹھنا، مشکل ہو جاتا ہے اور اس دوران پڑھائی سے زیادہ موسم کی شدت کا احساس رہتا ہے۔

دنیا میں انسانی صحت سے زیادہ کوئی چیز قیمتی نہیں کیوں کہ کہا جاتا ہے کہ ''جان ہے تو جہان ہے'' اسی نقط کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان میں جون، جولائی اور وسط اگست (قبل ازیں 3 ماہ کی تعطیلات گرما تھیں) تک سکولوں میں چھٹیاں کر دی جاتی ہیں۔ موسم کی سختی کے باعث طلبہ کو گرمیوں کی طویل چھٹیاں تو کر دی جاتی ہیں لیکن یہ چھٹیاں ان کا تعلیمی نقصان نہ کریں، اس کے لئے انہیں چھٹیوں کا کام (نصابی ہوم ورک) دیا جاتا ہے۔ موسم گرما کی تعطیلات کے دوران بچوں کو دیئے جانے ہوم ورک کا مقصد کیا ہے؟ اس مقصد کے حصول کے لئے ہوم ورک عموماً مندرجہ ذیل نکات سامنے رکھ کر طلبہ کے ذمے لگایا جاتا ہے۔



1۔ پڑھے گئے نصاب کی دہرائی تاکہ ششماہی امتحان (اکتوبر،نومبر) یا بورڈ امتحان کی ساتھ ساتھ تیاری ہوسکے۔ ہمارے ہاں عام طور پر ملک بھر میں مارچ/ اپریل سے نئے تعلیمی سیشن کا آغازہو جاتا ہے، اساتذہ کا کام ان دو اڑھائی ماہ کے دوران بچوں کو زیادہ سے زیادہ سلیبس پڑھانا ہے، پھر جب گرمیوں کی چھٹیاں ہوں تو بچوں کو پڑھائے گئے سلیبس کو یاد اور لکھنے کا کام سونپا جاتا ہے تاکہ ان کی اچھی دہرائی ہو سکے۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ایسا ہونا چاہیے لیکن یہ ہوتا نہیں۔ اساتذہ کی اکثریت موسم گرما کی تعطیلات سے قبل بچوں کی پڑھائی پر دھیان نہیں دیتی بلکہ چھٹیوں کے دوران انہیں کتابوں کے پہلے 5 سے7 باب لکھنے اور یاد کرنے کی ذمہ داری تفویض کر دی جاتی ہے، چھٹیوں کے بعد جب بچے واپس آتے ہیں تو گزشتہ ابواب کو پڑھائے اور سمجھائے بغیر اساتذہ اگلے باب سے پڑھانا شروع کر دیتے ہیں جو طلبہ کے ساتھ بہت بڑی نا انصافی ہے۔

2۔ چھٹیوں کے کام کا دوسرا بڑا مقصد طلبہ (خصوصاً چھوٹی کلاسوں کے بچے) کے انداز تحریر، رفتار تحریر اور معیار تحریر میں خاطر خواہ بہتری لانا ہے۔ خوش یا بد خطی انسان کی شخصیت کا عکس بن کر ابھرتی ہے، جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ جس فرد کی لکھائی اچھی نہیں ہوگی وہ دوسروں کے سامنے لکھنے سے احتراز ہی برتے گا اور اگر چار و ناچار لکھ دیتا ہے تو اسے شرمندگی کا احساس دبوچ لیتا ہے۔ ویسے بھی لکھ کر یاد کرنا علم کو ذہن نشین کرنے کا اہم ذریعہ ہے۔



3۔ کچھ تعلیمی اداروں میں ماحول اور سائنس کے حوالے سے پروجیکٹس بھی کرائے جاتے ہیں، جیسے پتوں، پھولوں، پرندوں کے پروں، ہماری روزمرہ کی غذا کے بیجوں یا تصاویر، خبروں اور سیروتفریح کی روداد پر مشتمل رپورٹ تیار کروانا بھی چھٹیوں کے کام کے مقصد میں شامل ہے۔

4۔ چند اداروں میں طلبہ سے کمیونٹی سروس کے کام بھی کرائے جاتے ہیں۔ مریضوں کی دیکھ بھال، بے بی سٹنگ، گھروں سے اضافی ادویات،کپڑے، کتابیں اور دوسری چیزیں جمع کرنا، ورکنگ کپلز اور بزرگ شہریوں کی دیکھ بھال اس کی چند مثالیں ہیں۔

5۔ تعلیمی اداروں کی طرف سے خاص پیکیج کے ساتھ سمر کیمپ کا انتظام کیا جاتا ہے۔



اس پس منظر میں اگر دیکھا جائے تو زیادہ تر طلبہ اور والدین کا حال پتلا نظر آتا ہے۔ کیوں کہ کچھ دور اندیش والدین ان تعطیلات کو ٹیوشن اکیڈمیوںکے زیر سایہ بچوں کے نصاب کے اعادے یا بورڈ امتحان میں اچھے نمبر حاصل کرنے کے لئے استعمال کرتے ہیں جس سے تعطیلات کا اصل مقصد فوت ہو جاتا ہے اور والدین کی ایک اور فکر مند قسم، بچوں کے مسلسل اعادہ نصاب اور تعطیلات گرما کے کام پر ہی زور دیتی ہے، نتیجتاً بچے پڑھنے سے الرجک ہو جاتے ہیں، جس کے مضر اثرات سکول کھلنے کے بعد سامنے آتے ہیں۔ دوسری طرف صورتحال یہ ہے کہ آج کل طلبہ کے لئے تعطیلات موسم گرما کا ہوم ورک زندگی کا سب سے بڑا مسئلہ بنا ہے، یہ اتنا بڑا بوجھ بن جاتا ہے جو وہ چاہ کر بھی اٹھا نہیں پارہے۔ آج 80 سے 90 فیصد طلبہ چھٹیوںکا کام ہی نہیں کرتے اور جو کرتے ہیں ان میں سے بھی 70 فیصد طلبہ تعطیلات کے آخری ایام میں یہ بوجھ اٹھاتے ہیں۔



چھٹیوں کا کام نہ کرنے کے ذمہ دار صرف طلبہ نہیں بلکہ اساتذہ اور والدین بھی ہیں اور ہمارے عمومی رویوں کے مطابق طلبہ، اساتذہ اور والدین اس غیر ذمہ داری کو ایک دوسرے کے کورٹ میں پھینکنے میں مصروف ہیں۔ آج سے تقریباً 15سال قبل طلبہ کا ایسا مزاج نہیں تھا، جو آج ہے، انہیں معلوم تھا کہ ہوم ورک کرنا نہایت ضروری وگرنہ جرمانے اور پٹائی کی صورت میںاس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا، مگر آج استاد (استثنیٰ کے ساتھ) کو طلبہ اور ان کے مستقبل میں کوئی دلچسپی ہی نہیں رہی، استاد طالب علم سے پوچھتا ہی نہیں کہ اس نے چھٹیوں کا کام کیوں نہیںکیا؟ والدین کے نزدیک اساتذہ کی طرف سے گرفت ڈھیلی ہونے کے باعث بچے طویل چھٹیوں میں منفی سرگرمیوں میں ملوث ہوجاتے ہیں، اگر اساتذہ بچوں کا ہوم ورک اچھی طرح چیک کریں تو انہیں (بچوں) بھی کوئی ڈر ہو اور وہ آوارہ پھرنے کے بجائے سکول کا کام کریں۔

جبکہ دوسری جانب اساتذہ کا کہنا ہے کہ ''مار نہیں پیار'' پالیسی کے منفی اثرات میں سے ایک اثر یہ ہوا ہے کہ بچے چھٹیوں کا کام نہیں کرتے، جس پر انہیں ہم مار سکتے ہیں نہ جرمانہ کیا جا سکتا ہے، جب بچے کے والد کو سکول بلایا جائے تو وہ ہنستے ہوئے یہ کہہ کر ٹال دیتا ہے کہ ''کر لے گا جی''۔ ان حالات میں اساتذہ کیا کر سکتے ہیں؟ اس کے علاوہ طلبہ کا کہنا ہے کہ چھٹیوںکا کام کرنے کا کوئی فائدہ ہی نہیںکیوں کہ استاد صاحب نے اسے چیک ہی نہیں کرنا تو پھر ہم کیوں محنت کریں؟ اساتذہ صرف ردی بنواتے ہیں جسے فروخت کرکے چائے پانی پیا جاتا ہے لیکن اساتذہ کا اس بارے میں موقف یہ ہے کہ نہیں ایسا نہیں کیا جاتا۔



بلاشبہ چھٹیوں کے کام کو ردی کے طور پر فروخت کیا جاتا ہے لیکن اسے ہم اپنے کسی مصرف میں نہیں لاتے بلکہ ان پیسوں کو ایف ٹی ایف (فروغ تعلیم فنڈ) میں جمع کرایا جاتا ہے۔ ایف ٹی ایف سے سکول میں چھوٹی موٹی مرمت، بجلی، ٹیلی فون بل، ڈاک خرچ یا پھر بچوں کے لئے کولر میں برف ڈلوائی جاتی ہے۔ گو کہ ان سب اخراجات کے لئے حکومت کی طرف سے سکول انتظامیہ کو سالانہ بنیادوں پر فنڈز فراہم کئے جاتے ہیں لیکن وقتی طور پر پیسہ یہیں سے خرچ کیا جاتا ہے۔

موسم گرما کی تعطیلات کے دوران چھٹیوں کا کام دینے کا ایک اہم ترین مقصد طلبہ کو منفی سرگرمیوں سے محفوظ رکھنا بھی ہے اور اس مقصد کے حصول کے لئے طلبہ (کو خود)، اساتذہ اور والدین پر مشتمل اس تکون کو مل کر توجہ دینا ہو گی۔ ہوم ورک طویل چھٹیوں کے دوران ''رنگ میں بھنگ'' یا موج مستی میں کوئی خلل نہیں بلکہ یہ وہ پُل ہے جو طالب علم کو کتاب اور سکول سے جوڑے رکھتا ہے۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ اساتذہ باقاعدگی سے پڑھائی کروانے کے بعد سلیبس کی دہرائی کے لئے طلبہ کو یاد اور لکھنے والا نصابی ہوم ورک دیں، طلبہ اس ذمہ داری کو ذوق و شوق سے نبھائیں اور والدین ان کی بھرپور معاونت کریں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں