’’تھرپارکر والوں کو پینے کیلئے چائے جیسی رنگت والا پانی ملتاہے‘‘ راجہ جاوید خالد قادری

اللہ والا ویلفیئر ٹرسٹ کے بانی، معروف بزنس مین راجہ جاویدخالدقادری کے خیالات۔


عبید اللہ عابد January 29, 2019
اللہ والا ویلفیئر ٹرسٹ کے بانی، معروف بزنس مین راجہ جاویدخالدقادری کے خیالات۔ فوٹو: ایکسپریس

''جس روز میں نے پاکستان میں اپنا اکاؤنٹ کھلوایا، عین اسی دن اُس وقت کے چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان مسٹرجسٹس ثاقب نثار نے بھاشاڈیم کے لئے فنڈریزنگ کا اعلان کیا۔ اس روز میں بنک میں بیٹھا ہواتھا، میرا بھانجا اس برانچ کا مینیجرہے۔ہم کچھ امور پر گفتگو کررہے تھے کہ اچانک ایک نوجوان اپنے مینیجر یعنی میرے بھانجے کے پاس آیا، کہنے لگا کہ سر! بھاشاڈیم فنڈ کا اکاؤنٹ آگیا ہے۔ چند منٹ پہلے بیرون ملک سے میرے اکاؤنٹ میں کچھ رقم منتقل ہوئی تھی۔ میں نے بھانجے سے پوچھا کہ کتنے پیسے آئے ہیں؟ اس نے جواب دیا: سترہ لاکھ روپے۔ میں نے اسے کہا کہ پندرہ لاکھ80ہزار روپے ڈیم فنڈ میں ڈال دو۔ یوں الحمدللہ مجھے اس فنڈریزنگ مہم کا سب سے پہلا ڈونر ہونے کا اعزاز حاصل ہے''۔


راجہ جاوید خالدقادری دبئی میں ایک بڑے کاروباری گروپ کے روح رواں ہونے کے باوجود بہت سادہ شخصیت کے حامل ہیں۔ ان کے کاروبار کا مجموعی حجم 22ملین درہم سے زائد ہے لیکن پہلی نظر میں وہ کوئی عام بزنس مین بھی نہیں معلوم ہوتے۔ ان کی ایک بڑی پہچان ان کے رفاہی کام ہیں جو انسانیت کے خدمت کے جذبے سے وہ گزشتہ ربع صدی سے زائد عرصہ سے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اگرچہ وہ پاکستان بھر سے تعلق رکھنے والی بیواؤں اور یتیموں کی کفالت کرتے ہیں لیکن تھرپارکر کے بے بس لوگ ان کی کوششوں کا بڑا مرکز ہیں۔ ان کی خدمات سے متاثر ہو کر، غربت کے مارے ہوئے ہندوؤں کی بڑی تعداد ان کے ذریعے مشرف بہ اسلام ہوچکی ہے۔

راجہ جاوید خالد قادری کا بنیادی تعلق ضلع راولپنڈی کی تحصیل گوجرخان کے گاؤں دولتالہ سے ہے، یہاں سے کراچی اور پھر وہاں سے بسلسلہ کاروبار انگلینڈ، ایران اور سعودی عرب میںمقیم رہے، آج کل دبئی میں ہیں۔ انسانیت کی خدمت کی طرف رجحان کیسے پیدا ہوا؟ کہنے لگے:''میں گاڑیوں کا اپنا خاندانی کاروبارکرتاتھا۔1992ء میں میرے دل میں ایک خواہش پیدا ہوئی کہ خالصتاً اپنی جیب سے اپنے والد کوعمرے پر بھیجوں۔ چنانچہ میں نے کچھ رقم جمع کی، وہ لے کر والد صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا، انھوں نے مجھے شاباش دی، پھر ایک خاتون کا نام بتاتے ہوئے کہا کہ دو دن پہلے اس کی بیٹیوں کی شادی تھی لیکن وہ ملتوی ہوگئی ہے۔ آپ جائیںاور اس کی ہتھیلی پر یہ پیسے رکھ کر آجائیں۔ خاتون ایک گاؤں میں رہتی تھیں، وہاں تک موٹرسائیکل پر جانے کا راستہ تھا، میں وہاں پہنچا ۔ میں نے وہ پیسے انھیں تھمائے۔ بس! یہاں سے میری زندگی میں تبدیلی آئی''۔

راجہ جاوید خالد کہتے ہیں: ''جولائی2018ء میںسابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے بھاشا ڈیم کے لئے فنڈریزنگ کا آغاز کیا، تو میں نے ان کے نام خط میں پیشکش کی میرا سارا بزنس اس فنڈ کے لئے حاضر ہے، آپ چاہیں تو اسے فروخت کرکے پیسہ فنڈ میں ڈال دیں یا پھر اسے ٹیک اوور کرلیں۔ میرے دل میں حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کا خیال تھا جو حضوراکرم ﷺ کے حکم پر اپنے گھر کا سارا سامان لے کر آگئے تھے، اس خط پر ہمارے گروپ کے سارے ڈائریکٹرز کے دستخط موجود تھے۔ پھر سپریم کورٹ کی طرف سے مجھے اسسٹنٹ رجسٹرار عبدالرحمن کا فون آیا، انھوں نے میری پیشکش کا شکریہ ادا کیا اور پھر پوچھا کہ آپ کی کاروباری کمپنی میںکتنے لوگ کام کررہے ہیں؟ میں نے جواب دیا کہ میرے پاس تقریباً دو سو لوگ کام کررہے ہیں، انھوں نے کہا کہ ان دوسو لوگوں کا روزگار چل رہاہے، آپ اسے چلائیں''۔

راجہ جاویدخالد کے والد قیام پاکستان کے بعد ایچی سن کالج لاہور کے پہلے ڈسپنسر تھے۔ اُس وقت وہاں ڈسپنسری ہوتی تھی، راجہ صاحب نے بھی ڈسپنسر کا کورس کیا۔ ایک روز عمران شاہ نامی ایک صاحب اپنی والدہ کو لے کر ان کے ہاں آئے، راجہ جاوید نے خاتون کی بزرگی کے پیش نظر باقی مریضوں کو درمیان میں چھوڑ کرخاتون کا ایکسرے پہلے کردیا۔ اس پر ماں اور بیٹا بہت خوش ہوئے۔ عمران شاہ نے انھیںہائی کورٹ کے عقب میں 'جناح موٹرز' کے نام سے ایک شوروم پر فارغ وقت میںکام کرنے کا مشورہ دیا۔ یہ شیخ جلیل صاحب کا شو روم تھا جو شیخ عابد کے بہنوئی تھے۔چنانچہ راجہ جاویدخالد دن کے پہلے حصے میں پڑھتے تھے، چاربجے کے بعد شوروم پر چلے جاتے۔

راجہ صاحب نے پاکستان میںمیٹرک تک تعلیم حاصل کی جبکہ ایران میں قیام کے دوران گریجوایشن کی، وہاں پانچ سال تک بزنس کیا۔ پھر ان کے بھائی کا انتقال ہوگیا تو ان کا دل اچاٹ ہوگیا اور وہ کاروبار بند کرکے دبئی کی طرف عازم سفر ہوئے۔ وہاںکامیاب کاروبارکھڑا کیا، اسے ایک بڑے گروپ کی شکل دی اور پھربیٹوں کے حوالے کرکے وطن واپس آگئے۔ اب پاکستان میں یہاں پر پینے کے صاف پانی کاکاروبار شروع کرنے کا منصوبہ رکھتے ہیں، وہ کہتے ہیں:''میں اپنے کاروبار سے حاصل ہونے والی آمدن کا80 فیصد اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتاہوں۔ چودہ ، پندرہ برسوں سے بیواؤں اور یتیم بچوں کے اخراجات اٹھائے ہوئے ہوں۔ کسی کو تین ہزار، کسی کو چارہزار اور کسی کو پانچ ہزار روپے ماہانہ براہ راست ان کے اکاؤنٹ میں منتقل کردیتاہوں۔ ہماری ٹرانزکشن بالکل شفاف ہوتی ہیں، ہم کسی فرد کے ذریعے ادائیگی نہیں کرتے۔ پہلے ہم لوگوں کے ذریعے رقوم بانٹتے تھے تو وہ لوگ مستحقین سے اپنے کام لیتے تھے۔ کوئی کسی سے انڈے منگوا تا تھا تو کوئی گھر کے کام کراتاتھا''۔

پانچ بیٹوں اور دو بیٹیوں کے والد راجہ خالدجاوید ہرسال دس افراد کو عمرے پر بھیجتے ہیں۔ حال ہی میں ان کے فلاحی کاموں سے متاثر ہوکر تقریباً200ہندوؤں نے اسلام قبول کیا۔ ان نومسلموں کی کفالت بھی اب وہ خود کررہے ہیں کیونکہ اکثر لوگ مذہب کی تبدیلی کے بعد ملازمت سے محروم کردیئے جاتے ہیں۔

انھوں نے بتایا:''تھرپارکرمیں ، بارہ، تیرہ کنویں کھدوائے ہیں، جانوروںکے لئے تالاب بھی بنوائے ہیں۔ بعض دیہاتوں، جہاںہندوؤں کی تعداد زیادہ تھی،میں ٹربائنیں بھی لگوائیں، مساجد بھی بنوائی ہیں۔ بیماروں کا علاج کرایاجارہاہے، بیواؤں اور یتیموں کو پرورش کی جارہی ہے، یتم اور غریب بچیوں کی شادیاں کروائی جارہی ہیں، لوگوں کو عمرے پر بھیجا جارہاہے، بھلائی کے ان سب کاموں کا سارا ثواب آقائے دوجہاں ﷺ کی امت کے لئے ہے''۔

''لوگوں کو مشرف بہ اسلام ہونے کا معاملہ کیسے شروع ہوا؟

راجہ جاوید خالدکہتے ہیں:''ایک رات، پچھلے پہر نماز تہجد پڑھ کے تسبیح کرنے کے بعد کچھ دیر کے لئے بستر پر لیٹ گیا۔ اسی دوران واٹس ایپ پرکسی نامعلوم نمبر سے ایک میسیج آیا، لکھاتھا کہ سندھ میں جو لوگ مسلمان ہورہے ہیں، ان کے پاس کھانے پینے کا سامان نہیں ہے، جونہی وہ مسلمان ہوئے، انھیں بے روزگار کردیاگیا۔ میں اسی صبح کراچی اور پھر ستیانی شریف میں حافظ غلام محمد سوہو ، جنھوںنے بہت سے لوگوں کو مشرف بہ اسلام کیاہے،کے پاس پہنچ گیا۔ وہ کہنے لگے کہ لوگ اسلام قبول کرنے کے لئے تیار ہیں لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ اس کے بعد انھیںروزگار وغیرہ کے حوالے سے مشکلات پیش آتی ہیں۔ میں نے انھیں تین ، تین ماہ کا راشن مہیا کیا، تقریباً ڈیڑھ سو مردوزن مشرف بہ اسلام ہوئے، میں نے مردوں اور میری اہلیہ نے خواتین کو کلمہ پڑھایا۔ اب وہاں جانے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتاہے۔ ''

راجہ جاویدخالد کہتے ہیں کہ یہ بالکل جھوٹ ہے کہ تھرپارکر میں ہندوؤں کو زبردستی مسلمان کیاجارہاہے،کوئی بھی فرد زبردستی مسلمان ہوتاہے نہ ہی کوئی ایسا کرتاہے۔''تھرپارکرکے حوالے سے حکومت کو یہ سوچناچاہئے کہ وہاں کے انسان جو پانی پیتے ہیں، اس کا رنگ چائے کے رنگ سے ملتاجلتاہے۔ ہم اس پانی سے ہاتھ دھونا، وضو کرنا بھی پسند نہیں کرتے لیکن انھیں یہ پانی پینا پڑتاہے۔ ان کے پاس کھانے کو خوراک نہیں ہے۔ غذائی قلت سے بچے مررہے ہیں۔یہاں حکومت کا کوئی کام نظر نہیںآتا، کچھ غیرسرکاری ادارے کام کررہے ہیں،تاہم سرکاری، نیم سرکاری یا بین الاقوامی ادارے کہیں نظر نہیں آتے ۔ این جی اوز کے لوگ وہاں جاتے ہیں،کسی کام کا سنگ بنیاد رکھتے ہیں اور اس کے بعد نہ کوئی کنواں نظرآتاہے نہ ہی کوئی ٹربائن اور نہ ہی این جی اوز کا کوئی فرد۔ حکومت کا رویہ بھی ایسا ہی ہے۔''

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں