حوصلے کا امتحان
یہ جو شب نما سی ہے بے دلی، یہ جو زرد رو سا ملال ہے
میرے چھوٹے داماد ناصر منیف قریشی نے واٹس ایپ پرمیری ایک نظم کا انگریزی ترجمہ کر کے بھیجا تو جیسے ذہن میں ایک دروازہ سا کھل گیا اور خیالات کا ایک بے پناہ ہجوم جیسے چاروں طرف پھیل سا گیا۔ ترجمے کی خوبصورتی نے اس لیے زیادہ حیران نہیں کیا کہ عزیزی ناصر گورنمنٹ کالج لاہور سے انگریزی میں ایم اے کرنے کے دوران دو برس تک پاکستان یونیورسٹیز کا بہترین ڈیبیٹر رہ چکا ہے اور اس کی تحریر بھی اس زبان پر اس کی مہارت کا ایک اعلیٰ نمونہ ہے۔
جس بات نے زیادہ متاثر کیا ہے وہ اس نظم کا انتخاب تھا کہ 13 برس قبل جب یہ نظم لکھی گئی تھی تو جنرل مشرف کا مارشل لائی دور تھا اور اس کا عنوان ''دلِ بے خبر ذرا حوصلہ'' ایک طرح کی آرزو مندی کا مظہر تھا کہ جس میں خود کلامی کا تاثر زیادہ غالب تھا۔ مگر آج 2019 میں نہ صرف اس کے معنی کا دائرہ وسیع ہوا ہے بلکہ تمام تر تنقید اور خدشوں کے باوجود اس "حوصلے" کی روشنی چاروں طرف کے منظر میں بھی پھیلتی محسوس ہو رہی ہے۔ اعدادوشماراورمیڈیا پر ہونے والی بحثوں کی فضا لاکھ ناخوشگوار اور مایوس کن سہی مگر ایک خوشگوار سا بھروسہ کسی نامعلوم طریقے سے دلوں میں رستہ بھی بنا رہا ہے۔
اس بھروسے کی ماہیت پر مزید کوئی بات کرنے سے قبل اس نظم پر دوبارہ سے ایک نظر ڈالنا ضروری ہے کہ اس میں بیان کردہ منظر نامہ اب بھی تقریباً وہی ہے لیکن جو چند نئے کردار اس دوران میں کہانی میں داخل ہوئے ہیں ان کا انداز اس احساس کو تقویت دے رہا ہے کہ نہ صرف کچھ نہ کچھ ہونے والا ہے بلکہ اس ''ہونی'' کا رخ بھی سورج کی طرف ہے اور یہ کہ یہ حوصلہ کوئی طفل تسلی نہیں بلکہ ایک زندہ حقیقت ہے اور اس کی روشنی اور خوشبو اس صورتحال کی گواہی دے رہی ہے جس پر اس نظم کا اختتام ہوا تھا تو آئیے پہلے اس کی لائنوں کے ساتھ کچھ دیر گزارتے ہیں۔
دلِ بے خبر ذرا حوصلہ
کوئی ایسا گھر بھی ہے شہر میں جہاں ہر مکین ہو مطمئن
کوئی ایسا دن بھی کہیں پہ ہے جسے خوفِ آمدِ شب نہیں
یہ جو گرد بادِ زمان ہے یہ ازل سے ہے کوئی اب نہیں
دل بے خبر ذرا حوصلہ!
یہ جو خار ہیں تیرے پاؤں میں یہ جو زخم ہیں تیرے ہاتھ میں
یہ جو خواب پھرتے ہیں دربدر، یہ جو بات الجھی ہے بات میں
یہ جو لوگ بیٹھے ہیں جابجا کسی ان بنے سے دیار میں
سبھی ایک جیسے ہیں سرگراں غمِ زندگی کے فشار میں
یہ سراب یوں ہی سدا سے ہیں اسی ریگ زارِ حیات میں
یہ جو رات ہے تیرے چار سو، نہیں صرف تیری ہی گھات میں
دل بے خبر ذرا حوصلہ !
ترے سامنے وہ کتاب ہے جو بکھر گئی ہے ورق ورق
ہمیں اپنے حصے کے وقت میں اسے جوڑنا ہے سبق سبق
ہیں عبارتیں ذرا مختلف مگر ایک اصلِ سوال ہے
جو سمجھ سکو تو یہ زندگی کسی ہفت خواں کی مثال ہے
دل بے خبر ذرا حوصلہ
نہیں مستقل کوئی مرحلہ
کیا عجب کہ کل کو یقین بنے یہ جو مضطرب سا خیال ہے
کسی روشنی میں ہو منقلِب، کسی سر خوشی کا نقیب ہو!
یہ جو شب نما سی ہے بے دلی، یہ جو زرد رو سا ملال ہے
دل بے خبر ذرا حوصلہ
دل بے خبر ذرا حوصلہ
علامہ اقبال کی چشم تصور نے جو منظر دیکھا تھا وہ ایسا خوش آیند مگر اس لمحہ موجود میں ایسا ناقابل یقین تھا کہ انھیں کہنا پڑ گیا۔
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آسکتا نہیں
محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہوجائے گی
اور یہ کہ
آبِ روان کبیر تیرے کنارے کوئی
دیکھ رہا ہے کسی اور زمانے کا خواب !
وطن عزیز کی ستر سالہ زندگی میں اس خواب آلود منظر نے اس سے پہلے کم از کم دو بار اس کی تعبیر کی طرف رخ کیا مگر بوجوہ بات آگے نہ بڑھ سکی دعا ہے کہ یہ تیسرا موقع بھی ضایع نہ چلا جائے اور ہم اس سبق کو سیکھ کر آگے بڑھ سکیں کہ اگر بات اور منظر ایک ہو تو پھر اختلاف رائے یا رستوں کے چناؤ کا فرق کوئی معنی نہیں رکھتے۔ مسئلہ صرف ایک دوسرے پر خدا واسطے کی تنقید کے بجائے صحیح اور اچھی بات کو ماننے کا ہے چاہے وہ کسی کے بھی منہ سے نکلی ہو۔ یہ ملک ہم سب کا ہے اور اس کے غم اور خوشیاں بھی ہم سب کے مشترک ہیں ضرورت صرف اس ساجھے داری کو ذاتی پسند یا ناپسند سے بلند اورعلیحدہ کر کے دیکھنے کی ہے یہی ''حوصلے'' کی بنیاد ہے جو دلوں کو شاد اور بستیوں کو آباد رکھتا ہے۔