ایک ٹیکسی میٹر کی ایجاد
شرم پروف گولیاں۔اور ضمیر کو سلانے والے کیپسول وغیرہ
MEXICO CITY:
گناہ ٹیکس کے بعد ''ثواب ٹیکس '' کے بارے میں آپ نے پڑھ تو لیاہوگا یعنی کہ اب زیر زمین پانی پر بھی ایک روپے فی لیٹر کا ٹیکس لگے گا۔ فی الحال تو ہمیشہ کی طرح اس کے ساتھ ''صنعتی مزدوروں کے لیے'' کی دمُ چپکائی گئی لیکن آپ تو جانتے ہیں کہ ''صنعتی لوگ'' نیٹ کی طرح ہوتے ہیں اور ٹیکس کا مقام والی بال کا ہوتاہے کہ نیٹ سے ٹکرا توجاتاہے لیکن پھر اور زور کے ساتھ پلٹ کر اس نشانے پر لگتا ہے جو پیدائشی ہدف اور انوری کا خانہ ہے۔
کیوں نہ ٹھہریں ہدف ناوک بیداد کہ ہم
آپ اٹھالاتے ہیں جو تیر خطا ہوتاہے
پانی ٹیکس پر ثواب ٹیکس کا لیبل اس لیے لگتاہے کہ پانی پلانا ہمیشہ کار ثواب کہلاتارہاہے یہاں تک کہ ماں باپ کو کسی اور کام کے لیے نہیں کہاجاسکتاہے لیکن پانی پلانے کا حکم دیاجاسکتاہے۔کہ اس میں ماں باپ کے حصے میں ثواب آتاہے اور یہ بھی کہاگیاہے کہ
نام منظور ہے تو فیض کے اسباب بنا
پل بنا چاہ بنا مسجد وتالاب بنا
اس پر ایک لطیفہ بھی دم ہلارہاہے اس سے بھی نمٹ چلیں کہتے ہیں شادی کے سلسلے میں ایک بارات کسی دوسرے شہر یاگاؤں اتری تھی خوب مرغن چرغن کھانے کے بعد جب باراتی ایک مقام پر سوگئے تو پیاس تو ان کو لگنا تھی چنانچہ ایک مشرف نام کا شخص پانی پینے کے لیے گھڑے کے پاس گیا۔پانی چکھنے کے بعد جب وہ سلور کا کٹورا گھڑے کے اوپر رکھ رہاتھا تو آواز ہوئی اس پر ایک آواز آئی کون؟
اس نے کہا '' مشرف''
آواز نے کہا۔''تھوڑا پانی تو پلادے ثواب کے لیے''
اس نے پلادیا لیکن کٹورا رکھتے ہوئے دوسری آواز آئی۔''کون''؟
اس نے کہا مشرف۔تھوڑا پانی پلا ثواب کی خاطر۔ اس نے وہ ثواب بھی کمالیا۔لیکن اس کے بعد تو جیسے ثوابوں کا تانتا بندھ گیا یہ پانی پلاتا رہا ثواب کماتا رہا۔آخر یہاں تک کہ ثوابوں سے ناک ناک تک بھر گیا۔پھر کوئی پکارا کون؟ تو اس نے کہا مشرف ہوں ثوابوں کا مارا۔
خیر یہ ہمارا اصل موضوع نہیں ہے، اصل موضوع قہرخداوندی چشم گل کا وہ فرزند ارجمند ہے جسے سائنس وٹیکنالوجی سے شغف ہے اور ہر وقت کوئی نہ کوئی چیز ایجاد کرنے میں لگا رہتاہے،پہلے اس نے اپنی گونگی بہری ماں بقول علامہ بریانی نعمت عظمیٰ کے لیے ایک ایسا ''گن'' ایجاد کیا تھا جس کے ذریعے وہ اس کے باپ چشم گل چشم کو جواب دے سکتی تھی۔ اس گن میں گولہ بارود کے بجائے ہنسنے اور رونے کی آوازیں لوڈ کی ہوئی تھیں جو نعمت عظمیٰ چشم گل چشم کے بے تکے اشعار پر چلاتی، ایک دور مار آلہ کے طور پر اس سے پلاسٹک کا چھرا نکلتا تھا جو زور سے ''مخاطب'' کو لگتاتھا۔
لیکن جب چشم گل چشم عرف سوائن فلو نے شکایت کی کہ یہ بہت ناانصافی ہے ماں کا حق تو اس نے ادا کردیا اب باپ کو بھی کوئی دفاعی آلہ ایجاد کرکے دینا چاہیے۔
لیکن لڑکا بڑا ذہین ہے اس نے باپ کی مثال کو سامنے رکھتے ہوئے تمام شوہروں کے لیے ایک زبردست روغن ایجاد کیا جسے جسم پر ملنے کے بعد کوئی زنانہ ہتھیار ہرقسم کے جھاڑو، چپل اور زبان کے شوہر پر کارگر نہیں ہوتا تھا اس کانام اس نے ''روغن تحفظ شوہراں'' رجسٹر کیا اور یہ بہت ہی بیسٹ سیلر ثابت ہوا۔
یہی سے اس نے اپنی ذہانت کو کمرشلائز کرتے ہوئے طرح طرح کی چیزیں ایجاد شروع کردیں مثلاً ناک،ماتھے یا چہرے پر گریلو تشدد کا نشان مٹانے کا مرہم۔شرم پروف گولیاں۔اور ضمیر کو سلانے والے کیپسول وغیرہ۔
ہمیں جب فرصت ہوتی ہے اس کے کباڑخانے جسے وہ لیبارٹری کہتاہے جاکر اپنی سائنسی معلومات اپ ڈیٹ کرتے رہتے ہیں۔ گزشتہ روز گئے تو باقی ہر لحاظ سے ایڈ نہیں دکھائی دے رہاتھا، کپڑے پہننے کا فرق تھا، انہماک کا اندازہ اس سے لگا کہ ہم گئے بٹھ گئے کھنکارے کھانسے لیکن وہ۔ عالم آب جوں آئینہ میں ڈوبا ہی رہا۔ بڑی مشکل سے اپنی طرف متوجہ کیا تو بولا، چچا میں ایک زبردست ایجاد لانچ کرنے والا ہوں۔پوچھا کیا؟ تو وہ بولا۔میری یہ ایجاد حکومت کے بہت کام آئے گی، ہوسکتا ہے مجھے اس پر کوئی انعام یا ایوارڈ بھی مل جائے۔
نرا سائنس دان تھا وہ جو یہ نہیں جانتا تھا کہ ایوارڈز اور انعامات کارناموں پر نہیں بلکہ ''ناموں'' پر ملاکرتے ہیں لیکن ہم نے اسے اس غلط فہمی میں ہی رہنے دیا کہ ہم بھی تو سالہاسال اس غلط فہمی میں رہے تھے۔
اس نے بتایا کہ اخبار میں پانی ٹیکس کی خبر پڑھ کر اسے یہ آئیڈیا سوجھا ہے کہ بات نکلی ہے تو اب دور تلک جائے گی آیندہ عین ممکن ہے کہ ہوا اور دھوپ تک یہ ٹیکس کا سلسلہ دراز ہوجائے پھر یقیناً حکومت کو کسی ایسے''میٹر'' کی ضرورت پڑے گی جو ان چیزوں کا ناپ تول کر سکے۔ یونہی اندازے سے کب تک یہ سلسلہ چل پائے گا۔
ہم تو اس کی ذہانت بلکہ پیش بینی پر عش عش کر اٹھے پھر ہم عش رش کرتے رہے اور وہ تفصیلات بتاتا رہا۔اس کا مطالعہ بھی بہت گہرا تھا بولا،اس سے پہلے تاریخ میں ایسی بہت سی حکومتیں گزری ہیں جو عوام کے کھائے پیے پر ٹیکس لاگو کرتی تھیں لیکن ان کے پاس کوئی سائنسی طریقہ نہیں تھا بس یونہی الل ٹپ وصولی کرتی رہتی تھیں۔
مثلااس نے تاریخ الٹاتے ہوئے کہا کہ ایک زمانے میں یہاں ایک ایسی حکومت گزری تھی جو فصلوں پر عشر لیتی تھی گندم وغیرہ تو لوگ کچا نہیں کھاتے لیکن مکئی کے بھٹے بھوننے کا ارتکاب ضرور کرتے تھے اور حکومت کے اہل کار ان کا منہ کھول کر دانتوں کا معائنہ کرتے تھے اور اگر بھٹے کا ثبوت مل جاتا تو بھاری جرمانہ دینا پڑتا تھا۔ اس کے بعد جب سکھوں کا دور آیا تو انھوں نے جانچ کو اپ ڈیٹ کرتے ہوئے یہ طریقہ نکالا کہ اپنے ساتھ مری ہوئی مکھیاں رکھتے تھے جس پر بھٹے کا شبہ ہوتا اسے زبردستی مکھی کھلاتے اور یوں اپنا کھایا اگل کر اپنا بھانڈا خود ہی پھوڑ دیتاتھا۔
لیکن یہ سب طریقے غیر سائنسی تھے سائنسی طریقہ ہر شخص کو میٹر لگانا ہے اور اس کے لیے وہ ایک ایسا میٹر بنانے میں لگاہوا تھا جو اگر ایک بار کسی کو لگادیاجائے تو وہ نہ اس میں گڑ بڑ کرسکتا ہے اور نہ کنڈے وغیرہ لگانے کا چانس ہے اس لیے وہ ایک ایسا میٹر بنانے کی کوشش میں تھا جو کسی گولی یا کیپسول سے زیادہ حجم کا نہ ہو اور ایک مرتبہ بچپن میں یا بلوغت پر اس کو کھلایا جائے تو عمر بھر کے لیے کافی ہو اور یہ بھی کہ اس کا رابطہ کسی مرکزی میٹر یا ٹرانسمیٹر سے بھی جوڑا جاسکے۔