نئے صوبے بنانے کا کوئی اصول ہونا چاہیے
پاکستان مسلم لیگ (ن) نے قومی اسمبلی میں پنجاب کی تقسیم کا بل پیش کر دیا ہ
صرف پنجاب کی تقسیم ایک غیر منصفانہ اقدام ہے۔یہ پنجاب دشمنی ہے۔ پاکستان میں اگر نئے صوبے بننے ہیں تو اس کا کوئی انصاف پر مبنی فارمولہ اور اصول ہونا چاہیے۔ صرف پنجاب کی سیاسی برتری کو توڑنے کے لیے پنجاب کی تقسیم کوئی دانشمندانہ بات نہیں ہے۔ دوسرے صوبوں کی قوم پرست جماعتیں اور ان کی قیادت پنجاب میں سیاسی حصہ نہ ملنے کی وجہ سے پنجاب کی تقسیم کی بات کرتی رہی ہیں۔ لیکن کیا پنجاب کی سیاسی قیادت نے دوسرے صوبوں سے سیاسی حصہ نہ ملنے کی وجہ سے ان صوبوں کی تقسیم کی بات کی ہے۔ میں آج بھی سمجھتا ہوں کہ پنجاب کی تقسیم کا نعرہ لگانے والی سیاسی جماعتوں کے پاس پنجاب میں نا کامی کے علاوہ اور کوئی وجہ نہیں ہے۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) نے قومی اسمبلی میں پنجاب کی تقسیم کا بل پیش کر دیا ہے۔ انھوں نے پنجاب کے دو نہیں تین حصے کرنے کا آئینی ترمیمی بل ایوان پیش کیا ہے۔ جب تقسیم ہو ہی رہی ہے تو دو حصہ ہوں یا تین کیا فرق پڑتا ہے۔ جب گھر کا بٹوارا ہو ہی گیا ہے۔ تو کتنے حصہ ہوئے ہیں کیا یہ اہم ہے۔ میری رائے میں تو پنجاب کی تقسیم کا نعرہ لگانے والی سیاسی جماعتوں کو اپنے مقاصد پنجاب کی تقسیم کے بعد بھی حاصل نہیں ہونگے۔ بلکہ وہ پہلے سے زیادہ پریشان ہونگے۔ تقسیم کے بعد وہ کہیں گے ہائے پنجاب کی تقسیم ہماری سب سے بڑی سیاسی غلطی تھی۔
فاٹا کو تو الگ صوبہ نہیں بنایا گیا ۔ حالانکہ فاٹا کو کے پی میں ضم کرنے کے بجائے نیا صوبہ بنا کر ملک میں نئے صوبے بنانے کی بنیاد رکھی جا سکتی تھی۔ جنوبی پنجاب کے قیام یا پنجاب کی تقسیم کے لیے پنجاب میں کبھی کوئی باقاعدہ تحریک نہیں چلی ہے۔ یہ ہمیشہ سے ایک سیاسی نعرہ رہا ہے جس کو پنجاب کے بجائے پنجاب کے باہر سے پنجاب مخالفت میں حمایت ملی ہے۔ لیکن کے پی میں ہزارہ صوبے کے قیام کے لیے تو باقاعدہ تحریک چلتی رہی ہے۔ لوگوں نے کے پی کی تقسیم اور ہزارہ صوبے کے قیام کے لیے جانوں کی قربانی دی ہے۔
لیکن کوئی آج ہزارہ صوبہ کے قیام کی بات نہیں کر رہا۔ کیونکہ ملک میں کے پی مخالفت کا کوئی ماحول نہیں۔ پنجاب کی سیاسی قیادت کو دوسرے صوبوں کی مخالفت کی عادت نہیں ہے۔ اسی طرح پنجاب سے زیادہ سندھ کی تقسیم ناگزیر ہے۔ آج اندرون سندھ اور سندھ کے شہری علاقوں کی تقسیم نے ملک کے لیے معاشی مسائل پیدا کر دیے ہیں۔ کراچی کی محرومیاں جنوبی پنجاب سے کئی گنا زیادہ ہیں۔ جنوبی پنجاب کی فرضی محرومیوں نے تو پاکستان کے لیے کوئی مسائل نہیں پیدا کیے ہیں لیکن کراچی کی حقیقی محرومیوں نے پاکستان کی معیشت کے لیے شدید مسائل پیدا کیے ہیں۔
کراچی کی محرومیوں کی وجہ سے پاکستان کا نقصان ہو رہا ہے۔ کراچی پاکستان کا دروازہ ہے۔ کراچی پاکستان کا معاشی حب ہے۔ پاکستان کی معیشت چلتی کراچی سے ہے۔ آج کراچی اور حیدر آباد پر مشتمل الگ صوبہ بنا دیا جائے تو یہ پاکستان کے لیے تازہ ہوا کا جھونکا ہوگا۔ لیکن سیاسی مفاد سے بالائے طاق آپ جونہی سندھ کی تقسیم کی بات کریں۔ سندھ کی دیہی قیادت رونا شروع کر دیتی ہے۔ سندھ کی تقسیم کو ماں کی تقسیم کہنا شروع کر دیا جاتا ہے۔
بھائی کوئی اس سندھی قیادت سے جان کی امان حاصل کر کے سوال کر سکتا ہے کہ سندھ کی تقسیم ما ں کی تقسیم ہے تو پنجاب کی تقسیم کیا ہے۔ اگر پاکستان میں نئے صوبے ملکی مفاد کو سامنے رکھ کر بنائے جانے ہیں تو سب سے پہلے سندھ کی تقسیم ناگزیر ہے۔ کراچی کو الگ صو بہ بنانے کی ضرورت ہے۔ اندرون سندھ کی قیادت سندھ پر حکومت کرنے کی اہل نہیں ہے۔ آج کراچی کا چپہ چپہ الگ صوبہ مانگ رہا ہے۔ کراچی کو الگ صوبہ بنانے سے نہ صرف وہاں کی محرومیاں ختم ہونگی۔ کراچی کا پیسہ کراچی میں لگ سکے گا بلکہ پاکستان بھی ترقی کرے گا۔ پنجاب کی تقسیم کے لیے سب سے بڑی دلیل یہی دی جاتی ہے کہ پنجاب اتنا بڑا ہے۔ جنوبی پنجاب کے دو ر دراز کے اضلاع سے لوگوں کو اپنے کام کے لیے لاہور آنا پڑتا ہے۔ لیکن بلوچستان کی تقسیم کے لیے اس دلیل کو نہیں مانا جاتا۔ کیا بلوچستان اتنا بڑا نہیں ہے؟
کوئٹہ سے بیٹھ کر اس پر حکومت عملی طور پر نا ممکن ہے۔ ڈیرہ غازی خان اور لاہور کا فاصلہ تو سب کو بتایا جاتا ہے۔ لیکن کوئی تربت اور کوئٹہ کا فاصلہ کسی کو بتانے کو تیار نہیں۔ آج گوادر پر بلوچوں کے حق کی بہت بات کی جا رہی ہے۔ لیکن کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ گوادر بلوچستان کا حصہ نہیں تھا۔ یہ حکومت پاکستان نے قیام پاکستان کے بعد خریدا تھا۔ کیا اس بنیاد پر گوادر وفاق پاکستان کا حصہ نہیں ہونا چاہیے۔ گوادر اور تربت پر مبنی الگ صوبہ نہیں ہونا چاہیے۔ لیکن جونہی آپ بلوچستان کی تقسیم کی بات کریں بلوچ قوم پرست لڑنے مارنے پر تیار ہو جاتے ہیں۔ بلوچستان کی تقسیم کی بات بلوچوں کے خلاف سازش قرار دی جاتی ہے۔ آپ پنجاب تقسیم کر لیں۔ لیکن آ ج قومی اسمبلی میں پنجاب کی عددی برتری سے پریشان قوتیں اس کی تقسیم کی بعد سینیٹ میں بھی پنجاب کی برتری سے پریشان نظر آئیں گی۔
اگر کوئی اس بھول میں ہے کہ پنجاب کی تقسیم صرف عارضی ہوگی تو یہ ممکن نہیں۔ آئین پاکستان کے تحت سینیٹ میں تمام صوبوں کی برابر نمایندگی ہے۔ اس وقت پنجاب اور بلوچستان کی نمایندگی برابر ہے۔ حالانکہ دنوں صوبوں کی آبادی میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ لیکن جب پنجاب کی تقسیم ہوگی اور اس کے تین حصہ بن جائیں گے تو تینوں صوبوں کی سینیٹ میں الگ الگ برابر سیٹیں ہونگی۔ اس طرح قومی اسمبلی کی طرح سینیٹ میں بھی پنجاب کی برتری واضح ہے۔ اسی لیے میں کہہ رہا ہوں کہ آج پنجاب کی تقسیم پر تالیاں بجانے والے کل خون کے آنسو روئیں گے۔ یہ درست ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) پنجاب کی تقسیم کے ذہنی طور پر خلاف رہی ہے۔ لیکن ملک کے عمومی ماحول میں اس میں اتنی سیاسی جرات نہیں رہی ہے کہ کھل کر پنجا ب کی تقسیم کی مخالفت کر سکے۔ اس لیے جب بھی جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنانے کاا علان کیا گیا ہے ن لیگ نے بہاولپور صوبہ کی بات کی ہے۔ اب بھی جنوبی پنجاب کے ساتھ بہاولپور صوبہ کی ترمیم پیش کی گئی ہے۔
کیونکہ ن لیگ جانتی ہے کہ جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنانے کی بات کرنے والے کوئی پنجاب سے محبت نہیں کرتے۔ اگر جنوبی پنجاب نے الگ صوبہ بننا ہے تو بہاولپور کو بھی الگ صوبہ بنایا جائے۔ لیکن میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ پنجاب مخالف قوتوں کو پنجاب کی تین حصوں میں تقسیم کسی بھی طرح قبول نہیں ہوگی۔ تحریک انصاف کو علم ہے کہ پنجاب کی تقسیم سے پنجاب میں اس کی حکومت ختم ہو جائے گی۔ اسی لیے تحریک انصاف کی حتی الامکان کوشش ہو گی کہ پنجاب کی تقسیم کور وکا جا سکے۔ اس لیے پہلے سو دن میں جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنانے کا نعرہ لگانے والی تحریک انصاف اب اس سے بھاگ رہی ہے۔ اسی لیے جنوبی پنجاب کو الگ انتظامی حیثیت دینے کی بات کی جا رہی ہے۔ جنوبی پنجاب کو الگ انتظامی حیثیت دراصل جنوبی پنجاب صوبے سے راہ فرارہے۔ اور ن لیگ تحریک انصاف کو بھاگتا دیکھ کر اب پنجاب کی تقسیم پر سیاست کرنا چاہ رہی ہے۔ جو اپنی جگہ ایک افسوسناک حقیقت ہے۔
میری رائے میں اگر پنجاب کی سیاسی قوتیں کسی لمحہ پر پنجاب کی تقسیم پر متفق ہو بھی گئیں تو کوشش کی جائے گی نئے صوبوں کو سینیٹ میں الگ نمایندگی نہ دی جائے۔ اور نئے صوبوں کو سینیٹ میں پنجاب کے حصہ میں سے ہی حصہ دیا جائے۔یہ غلط ہوگا۔ اس کو قبول نہیں کرنا چاہیے۔ بلکہ اگر پنجاب کی تقسیم کرنی ہے تو نئے صوبوں کو بالکل الگ صوبے قرار دینا ہوگا۔ ان کی صوبائی اسمبلیاں الگ ہونگی۔ ان کی سینیٹ میں نمایندگی الگ ہوگی۔ باقی سب سیاست ہے۔ پنجاب دشمنی ہے۔ جس کا کسی کے پاس کوئی علاج نہیں ہے۔ اس لیے اگر نئے صوبے پنجاب کی مخالفت کے بجائے پاکستان کے مفاد میں بنانے ہیں تواس کا کوئی اصول ہونا چاہیے۔