کھیل محض کھیل نہیں ہوتا
کرکٹ کے کھیل میں کوئی ٹیسٹ میچ دوطرح سے ہی برابر ہو سکتا ہے‘ یعنی Draw یا پھر Tie۔ون ڈے۔۔۔
کرکٹ کے کھیل میں کوئی ٹیسٹ میچ دوطرح سے ہی برابر ہو سکتا ہے' یعنی Draw یا پھر Tie۔ون ڈے میچوں میں مقابلہ Draw ہونے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں جب کہ Tie ہونے والے میچوں کی تعداد پاکستان کے ویسٹ انڈیز کے ساتھ چند روز پہلے Tie ہونے والے میچ کو ڈال کر 29 ہو چکی ہے۔ یہ ایک انوکھا اور نایاب تجربہ ہوتا ہے۔ یعنی دونوں ٹیموں کا دونوں اننگز کا اسکور برابر ہو جائے اور آخری کھلاڑی جیتنے کے لیے آخری رنز کی تگ و دو میں وکٹ گنوا بیٹھے تو اسی صورت میں ٹیسٹ میچ tie ہوتا ہے۔
میچ برابر ہو جانے کی یہ ایک ایسی قسم ہے جس کے نتیجے میں میدان میں اترنے والی دونوں ٹیموں کے کھلاڑی اور ان کے ملکوں کے عوام ویسی ہی خوشی اور سنسنی محسوس کرتے ہیں جیسی جیتنے والی ٹیم اور اس کے حامیوں کو محسوس ہوتی ہے۔ میچ کے فیصلے کے نتیجے میں پوائنٹس ٹیبل پر سود و زیاں کے حساب کتاب سے قطع نظر tie میچوں میں دونوں ٹیمیں ہی فاتح ہوتی ہیں، یہ حقیقی معنوں میں برابر کا جوڑ ہوتا ہے۔ لیکن گزشتہ جمعہ کو پاکستان اور ویسٹ انڈیز کے مابین کھیلا جانے والا جو میچ ٹائی tie ہوا ۔اس میں پاکستان کی ٹیم اور عوام کے لیے فخر کی کوئی بات نہیں کیونکہ پاکستان کی جیت 100 فیصد یقینی تھی ۔
ویسٹ انڈیز کے آخری بلے باز اپنی صلاحیت سے نہیں بلکہ پاکستانی ٹیم کی نااہلی کے باوصف یہ میچ برابر کرنے میں کامیاب ہوئے۔ ہمیشہ کی طرح پاکستانی قوم صدمے میں ہے۔ اس حوالے سے صدمات کا سلسلہ اس قدر دراز ہو چکا ہے کہ پاکستانیوں کو صدمات کی ایڈکشن (عادت' نشہ) ہو چکی ہے۔ یہ اپنے کھلاڑیوں کو برا بھلا بھی کہیں گے اور اگلے میچ کو دیکھنے کے لیے بے تاب بھی بہت ہوں گے۔ ذرا اندازہ لگائیں پاکستانی بالروں نے آخری 13 گیندوں پر ویسٹ انڈیز کی ٹیم کی آخری جوڑی سے 24 رنزکھائے۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے بحث مباحثوں اور اعلیٰ سطح کے اقدامات ہمیشہ tecticle نوعیت کے ہوتے ہیں۔ Strategyپر بہت کم توجہ رہتی ہے۔ ہماری اعلیٰ سطح کی بحثوں میں بھی ایسی باتوں پر زور ہو گا کہ اگر عمر اکمل رن آؤٹ مس نہ کرتا تو ہم میچ جیت جاتے۔ ہمارے ہاں چند کھیل ایسے ہیں جن کے تنظیمی عہدے بالکل اسی طرح اہم ہیں جیسے بڑے صنعتی اور تجارتی علاقوں پر مشتمل انکم ٹیکس کے زون میں تقرریوں کے لیے افسروں کی قطاریں لگی رہتی ہیں۔ جن کھیلوں میںاتفاق سے ہم گاہے گاہے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرلیتے ہیں وہاں بااختیار پوزیشن کا حصول بھی اہم وزارت کے حصول سے کم نہیں۔
مثال کے طور پر کرکٹ ہی کو دیکھ لیں۔ بورڈ کے عہدوں کے لیے جس طرح کے ہتھکنڈے استعمال کیے جاتے ہیں اور بعض شخصیات ہمیشہ بورڈ کے کسی اہم عہدے سے چمٹی رہتی ہیں۔ کھیلوں کی تنظیموں میں جگہ بنائے رکھنے کی تگ و دو بھی اپنی حکمت عملی اور شدت کے لحاظ سے بالکل ویسی ہی نظر آتی ہے جس طرح کے ہتھکنڈے سیاسی لوگ سیاست میں استعمال کرتے نظر آتے ہیں۔
اگر ہم دیانتداری سے بات کریں تو ہمارے ہاں کھیلوں کے میدان میں جو چند ستارے چمکتے نظر آتے ہیں وہ ہمارے سسٹم کی مدد سے ابھر کر سامنے نہیں آئے بلکہ ان کے آگے نکلنے کی وجوہات مختلف تھیں' ہر ایک کی انفرادی سطح پر الگ کہانی ہے۔ اگر ہمارا سسٹم دیانتداری کے ساتھ کھیلوں کی ترویج اور بہترین ٹیلنٹ کو سامنے لانے کے لیے دن رات جدوجہد میں مصروف ہوتا تو آج اسکواش کے کھیل میں کہیں توپاکستان نظر آتا۔ اس کھیل میں دنیا کے بہترین کھلاڑی پاکستان سے سامنے آئے لیکن اس تسلسل کو قائم نہیں رکھا جا سکا۔ عرصہ گزر گیا اسکواش کے حوالے سے پاکستان کی کوئی خبر نہیں۔
ہم نے جواعزازات اپنے دامن میں سمیٹ رکھے ہیں ان کی اصل کہانی یہ ہے کہ کسی نے اپنے طور پر اسنوکر میں مہارت حاصل کر لی۔ منت سماجت سے یا کسی اور ذریعے سے وہ ٹورنامنٹ میں شریک ہو جاتا ہے اور پھر جیت کر سب کو حیران کردیتا ہے۔ کسی نے یاٹنگ میں محنت سے صلاحیت حاصل کر کے تمغہ جیت لیا تو سرکار نے اس کے کارنامے پر یادگاری ٹکٹ جاری کر دیا۔ یہی وجہ ہے کہ مختلف کھیلوں میں اچانک کسی کا میابی کی کوئی خبر سامنے آتی ہے تو اس کا تسلسل کبھی قائم نہیں رہتا اور وہ کامیابی آسمان پر ٹوٹنے والے ستارے کی طرح روشنی کی ایک لکیر پیدا کر کے ہمیشہ کے لیے اندھیروں میں غائب ہو جاتی ہے۔ کرکٹ میں ہم کسی نہ کسی طرح باقی ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر کسی کھیل پر توجہ ہے تووہ یہی کرکٹ ہے' وہ بھی اس لیے کہ اس میں بے تحاشہ پیسہ ہے۔
جن ملکوں نے کھیلوں میں بلند مقام حاصل کیا ہے ان کے نزدیک کھیل محض کھیل نہیں ہوتا وہ اسے ملک اور قوم کی عزت اور وقار کے اظہار کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ وہاںسب سے زیادہ توجہ اسکول اور کالج کی سطح پر دی جاتی ہے۔ اس کے متوازی کلب کا نظام موجود ہوتا ہے پھر علاقائی سطح پر اور ادارہ جاتی سطح پر ٹیمیں ہوتی ہیں۔ سب سے اہم بات یہ کہ بین الاقوامی سطح پر اپنا نام اور مقام بنانے کے لیے محض کھیل میں مہارت کافی نہیں ہوتی' اس سطح پر کھیلوں کے مقابلوں میں ملک کی نمایندگی کرنا ایک الگ طرح کی ذہنی سطح اور کردار کی پختگی کا متقاضی ہوتا ہے۔ ہم نے اپنی نوجوانی کے دور میں پاکستان کی جو کرکٹ ٹیم دیکھی ہے آج کی ہماری کرکٹ ٹیم مقابلتاً انتہائی پست ذہنی معیار کی حامل ہے۔ کرکٹ کے تنازعات میں شاید سب سے زیادہ کھلاڑی زیر بحث رہے ہیں۔
ہمارے موجودہ سیاسی کلچر کے اثرات اس حد تک پھیل چکے ہیں کہ تاحیات پابندی کا نشانہ بننے والے پاکستانی اسپنر دانش کنریا نے یہ تک کہہ دیا تھا کہ ان کے ساتھ یہ سب کچھ محض اس لیے ہو رہا ہے کیونکہ ان کا تعلق اقلیتی برادری سے ہے۔ ایک ایسی ٹیم سے ' جس کا دامن میچ فکسنگ اور جوئے کے الزامات سے داغ دار ہو' جو سر سے لے کر پاؤں تک سیاسی جوڑ توڑ اور کھینچا تانی کی وجہ سے مصلحتوں کا شکار ہو' اس سے زیادہ بہتر کھیل کی توقع نہیں کی جا سکتی۔