گن اور گنُ اور گناہ

نہ ہم کوئی ماڈل ہیں نہ ’’شوبزی‘‘ ہیں۔ نہ لیڈر ہیں اور نہ ہی کرنسی کے دھوبی یعنی منی لانڈر ہیں


Saad Ulllah Jaan Baraq February 01, 2019
[email protected]

ڈاکٹر اعجاز تبسم ہمارے''ہم تحقیق'' بھائی ہیں جیسا کہ ''پیر بھائی'' ہوتے ہیں۔ اگرچہ تھوڑا سافرق بھی ہے لیکن وہ بہت معمولی ہے، وہ فیصل آباد کے ایوب ریسرچ انسٹی ٹیوٹ میں ''ماہرگنا'' ہیں اور ہم یوں کہیے کہ ''خراب آباد یونیورسٹی'' میں ''گناہ''کے ماہر تو نہیں لیکن طالب یا خواہش مند ہیں۔ لفظ ایک ہی ہے لیکن''گنا'' میں تشدید یا شدت اور گناہ میں صرف''آہ''ہے جو ہمارے حسب حال ہے کیونکہ جن گناہوں کے ہم ازحد خواہش مند ہیں، وہ ابھی تک ''آہ'' کے مرحلے میں ہیں ''واہ'' کے مقام تک نہیں پہنچے ہیں اور اس کی وجہ ہماری بے توفیقی اور دوں ہمتی کے سوا اور کچھ نہیں ہے کیونکہ گناہ کے لیے جن لوازمات کی ضرورت پڑتی ہے ان میں سے ایک بھی ہمارے پاس نہیں ہے۔

نہ ہم کوئی ماڈل ہیں نہ ''شوبزی'' ہیں۔ نہ لیڈر ہیں اور نہ ہی کرنسی کے دھوبی یعنی منی لانڈر ہیں۔ صرف خواہش رکھتے ہیں اور خواہش سے اگر کچھ ہوتا تو تمام بلیوں کے ''پر'' نکل آئے ہوتے اور پرندوں کے جھڑ گئے ہوتے۔ یا پاکستان کا ہر بندہ اگر وزیراعظم نہ ہوتا تو کم ازکم وزیر یا مشیر تو ضرور ہوتا۔ چنانچہ ڈاکٹر صاحب اپنے مضمون''گنا'' میں ٹاپ کے ماہر گنا ہوگئے ہیں اور ہم بدستور اپنے مضمون کی ''کچی پکی'' میں بیھٹے ہوئے ہیں، بلکہ شاید ہماری آرزو یا خواہش یا کوشش ''حسرت'' کے درجے میں ہے۔

اک فرصت گناہ ملی وہ بھی چار دن

دو آرزو میں کٹ گئے دو انتظار میں

لیکن پھر بھی اتنی خوشی تو ضرور ہے کہ ان کے گنا اور ہمارے گناہ میں تشدید اور آہ کا فرق ہوتے ہوئے بھی ''گن'' پایا جاتاہے اگرچہ اس میں بھی تھوڑا سا فرق ہے ان کا ''گنُ'' اردو کا ہے اور ہمارا انگریزی کا گن (gun) ہے۔ کہاں ان کا میٹھے میٹھے گنُ پر مبنی گنا اور کہاں ہمارا آہوں پر مبنی گناہ۔ وہ بھی جس کی ہم صرف آرزو کرتے رہے۔

نہ پوچھ عالم برگشتہ طالعی آتش

برستی آگ جو باراں کی آرزو کرتے

کہیں یہ نہ سمجھ بٹھیے گا کہ ہمیں ان گناہوں کی آرزو ہے جن کا تعلق رزraz)) یا دخت زر(zar) سے ہوتا ہے، اللہ معاف کرے اور پیشگی توبہ قبول فرمائے کہ ان گناہوں کے بارے میں ہم نے کبھی سوچا بھی نہیں ہے۔

ہمیں تو بس ایک چھوٹے سے بلکہ معصوم کہیے گناہ کی آرزو ہے جس کا تعلق اردو کے ''گنُ'' سے نہیں بلکہ انگریزی''گن'' سے ہے یعنی انگریزی گن سے اس کا ارتکاب کیا جا سکتاہے اور جب گن ہی میسر نہیں تو پھر ''آہ واہ'' کا کیا ذکر۔ اور ان ٹارگٹوں کا کیا جن کی ہم''گن'' کے ذریعے ''آہ'' نکالنا چاہتے ہیں۔

تم پوچھواور میں نہ بتاوں ایسے توحالات نہیں

اک ذرا سا دل ٹوٹا ہے اور تو کوئی بات نہیں

ہمارے اس ''ناآسودہ'' اور ''نامیسر'' گناہ۔ یعنی ''گن آہ'' کا ٹارگٹ دراصل وہ گناہ ہے بلکہ ہیں جنہوں نے اس ملک کے عوام کی ''آہیں'' نکال دی ہیں اور چیخیں نکالنے کے درپے ہیں ، پچھلے دنوں ہمارے ایک دوست نے آہوں سے بھرپور آواز میں کہا کہ انھوں نے تو ہماری آہیں نکال دی ہیں۔ ہم نے کہا، فکر نہ کرو چیخیں بھی بس نکالنے ہی والے ہیں کیونکہ مہنگائی کی گن اب وہ پرانے والی اسٹارگن نہیں رہی ہے بلکہ برین گن اور مشین گن ہوگئی ہے جو ایک ایک کے بجائے پری پیڈ آہیں نکالتے ہیں۔

باقی آپ خود سمجھدار ہیں(یہ بھی ہماری ویسی ہی خوش فہمی ہے جیسی آپ کو''ان'' سے ہے جو نہیں جانتے گناہ کیا ہے) اس لیے آپ خود بھی اتنا اندازہ تو کرہی سکتے ہیں کہ جن گناہوں کو''آہ'' میں بدلنے کے لیے ہمیں ''گن'' کی ضرورت ہے ان کو آہوں کے سرچشمے کہاجائے تو بہتر ہے، ان کو ہم''گن آہ'' کرنا چاہتے ہیں۔

اس موقع پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ ڈاکٹر اعجازتبسم کے گنا اور ہمارے ''گناہ'' میں بہت فرق ہوجاتاہے۔ کہاں گنا اور کہاں گناہ۔ گنا ہر بند کے ساتھ میٹھا ہوتا چلاجاتاہے اور گناہ ہر بند کے ساتھ پھیکا بلکہ کڑوا ہوتا جاتاہے چنانچہ اپنے گنا کو جتنا بڑھائیں اچھا ہے اور ہم اپنے گناہ بلکہ گناہوں کو جتنا گھٹائیں اتنا ہی بہتر ہے لیکن افسوس کہ فی الحال تو۔ اے میرے خالی ہاتھ تو ہی میرا سب سے بڑا دشمن ہے۔

جب تک دہانِِ زخم نہ پیدا کرے کوئی

مشکل کہ تم سے راہ سخن وا کرے کوئی

بلکہ ہمارے اس گناہ یعنی ''گن آہ'' کا معاملہ تقریباً ویسا ہی ہے جیسا کہ رادھا کے ناچنے کا ہے، اس کے لیے ''نومن تیل''کی شرط ہے اور ہمیں اس گناہ کی سعادت حاصل کرنے کے لیے ایک''گن'' کی ضرورت ہے جو گناہ (یا گناہوں) کی ''آہ'' نکال کر اسے صرف اردو کا گنُ (gun)بنا دے۔ ویسے تو ہماری یہ ''امید گناہ'' یا گن آہ تقریباً دم توڑ چکی تھی لیکن اب کے یہ جو گناہ پر ٹیکس کا سلسلہ شروع ہوا ہے، اس سے دوبارہ ہمارے سوکھے''دھانوں'' پر کچھ چھینٹے پڑنے لگے ہیں کہ ہوسکتاہے آہستہ آہستہ اس کا دائرہ کسی دن اس ''گناہ'' تک بھی پہنچے جو ہماری آرزو ہے۔

یہ آرزو تھی تجھے ''گن'' کے روبرو کرتے

ہم اور بلٹ انصاف گفتگو کرتے

ہمارا یہ گناہ(گن آہ) کوئی سگریٹ تو ہے نہیں کہ ایک سستی سگریٹ لی اس کے ایک سرے پر آگ اور دوسرے سرے پر کسی احمق کو بھٹا دیا اور ہوگیا۔اس کے لیے ''گن'' اور تقریباً ہزار دو ہزار اس کے ''بچے'' درکار ہوں گے اور اتنی استطاعت ہماری نہیں۔بلکہ اصل مسئلہ یہ بھی نہیں گن تو کرائے پر بھی آج کل دستیاب ہیں اور بچوں کا بندوبست بھی ہم کسی نہ کسی طرح کرلیں گے لیکن اس کے بعد کا جو مرحلہ ہے، وہ بڑا مہنگاہے۔ وکیلوں اور متعلقات کا خرچہ کل ملاکر اس سے بھی زیادہ بنے گا۔جتنی ہماری زندگی بھر کی جی ڈی پی ہے۔ اس لیے فی الحال تو ہم اپنے اس گناہ یا آرزو پر صبر کیے بیٹھے ہیں، خدا کرے جلدی ٹیکس کا دائرہ ہمارے اس گناہ تک دراز ہوجائے۔

راہ پر ان کو لگا لائے تو ہیں باتوں میں

اور کھل جائیں گے دو چار ملاقاتوں میں

جناب ڈاکٹر اعجاز تبسم کے گنا اور ہمارے گناہ میں تھوڑا بہت فرق ضرورہے لیکن نتیجہ اور حاصل دونوں کا ایک ہے اور وہ ہے مٹھاس۔بلکہ یہاں ہمارا مضمون ان کے مضمون سے کچھ زیادہ بڑھ جاتاہے، ان کا ''گنا'' انفرادی مٹھاس کا حامل ہے اور ہمارا گناہ پورے ملک کے عوام کی زندگی کی ساری کڑواہٹ دور کرکے مٹھاس میں بدلنے والا ہے،زقوم کے کانٹے ختم کرنے والا ہے۔ ذرا اس لفظ ''زقوم'' پر غور فرمایئے گا۔ز۔۔۔قوم۔۔قوم تو ظاہر ہے صرف زیر لگانے سے حسب حال ہوجاتاہے اور''ز'' سوائے زہر کے اور کس کی ہوسکتی ہے یعنی ''ق''(مسلم لیگ نہیں) پر پیش کی جگہ ''زبر'' لگادیجیے تو''زہر قوم'' بن جاتاہے جو ہمارا منزل مقصود بلکہ گن کا بیرل مقصود ہے ایک عجیب اتفاق یہ دیکھیے کہ دوزخ کے واقف اسرار لوگوں کا کہنا ہے کہ بھڑکتی آگ میں ساکنان دوزخ کو پیاس لگے گی تو ان کوزقوم(کیکٹس) کا پانی پلایا جائے گا اور ایسا ہی یہاں بھی ہے، صرف''ق'' کا پیش ہٹاکر ز۔۔قوم بنادیجیے جسے کیکٹس کے وزن پر پالٹیکس بھی کہاجاتاہے۔

آخرکار درمیان میں ایک اور بات نے دم ہلانا شروع کر ہی دی ۔ڈاکٹر اعجاز تبسم نے ایک روز ہمیں فیصل آباد ریسرچ فارم میں بتایا تھا کہ ''گنے'' کا بیج کہیں باہر سے آتاہے جسے ہم یہاں کاشت کرکے ''گنا'' بنادیتے اور یہاں پھر گنے سے گنا،اُگتا چلاجاتاہے۔

کمال ہے یہاں بھی مماثلت ہمارے والے گناہ کا بیج بھی تو جمہوریت کے برانڈ نام سے باہر ہی کا درآمدہ ہے اور پھر یہاں کے ماہرین نے درد کے اتنے پیوند اس میں لگا دیے کہ ملنگوں کا کمبل بنادیا اور کمبل کی یہ خاصیت تو سب جانتے ہیں کہ پھر کسی کو چھوڑتا نہیں، پھر اس میں جوئیں پڑجاتی ہیں اور وہ جوئیں خون چوسنا شروع کردیتی ہیں اور جوؤں کا ایک ہی علاج ہوتاہے، دونوں انگوٹھوں کے ناخنوں کے درمیان لاکر ''ٹک'' کی آواز نکالنا۔

اس توجہ پر ناز تجھے زاہد اس قدر

جو ٹوٹ کر شریک ہو میرے گناہ میں

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں